Wednesday, December 9, 2009

پروین شاکر از زرقا مفتی


۴۲نومبر کو پروین شاکر کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے اردو شاعری میںان کے کلام کو ایک خاص انفرادیت حاصل ہے۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعدنسائی شاعری ایک نئی شناخت کے ساتھ اردو کے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہوئی۔ پروین شاکر ہمیں اس منظر نامے پر ماہِ تمام کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی پروین کی شاعری ادبی رسالوں کے ذریعے اپنے مداح پیدا کر چکی تھی۔ خوشبو کی اشاعت کے ساتھ ہی پروین شاکر کا شمار صفِ اول کی شاعرات میں ہونے لگاتھا۔خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنے خوبصورت اور بے باک انداز سے قلمبند نہیں کیا تھا۔ ان کی کچھ مختصر نظمیں پیش ہیں: واہمہ تمھارا کہنا ہے تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو تمھاری چاہت وصال کی آخری حدوں تک مرے فقط میرے نام ہوگی مجھے یقین ہے مجھے یقین ہے مگر قسم کھانے والے لڑکے تمھاری آنکھوں میں ایک تل ہے! چاند ایک سے مسافر ہیں ایک سا مقدر ہے میں زمین پر تنہا اور وہ آسمانوں میں ! کشف ہونٹ بے بات ہنسے زلف بے وجہ کھلی خواب دکھلا کہ مجھے نیند کس سمت چلی خوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی اور پھر جان گئی میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا !!! کانچ کی سرخ چوڑی میرے ہاتھ میں آج ایسے کھنکنے لگی جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی ترے ہاتھوں کی شوخیوں کو ہواوں نے سَر دے دیا ہو۔۔۔ پروین شاکر کی شاعری اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی پروین نے ضمیر متکلم (صنف نازک) کا استعمال کیا جو اردو شاعری میں بہت کم کسی دوسری شاعرہ نے کیا ہو گا پروین نے اپنی شاعری میں محبت کے صنف نازک کے تناظر کو اجاگر کیا اور مختلف سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا نقاد ان کی شاعری کا موازنہ فروغ فرخزاد ( ایک ایرانی شاعرہ ) کی شاعری سے کرتے ہیں۔پروین کی غزلیات کا مو ضوع محبت ہے۔ ان کی نظموں کی طرح غزلیں بھی انفرادی رنگ میں ہیں۔الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کرسادہ الفاظ میں انہوں نے نسائی انا، خواہش ، انکار کو شعر کا روپ دیا ہے۔ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں میں اس کی دسترس میں ہوںمگر وہ مجھے میری رضا سے مانگتا ہے اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں اسی بغاوت کی پاداش میں شاید اپنے شوہر سے ان کی علیحدگی ہو گئی اور خاندان نے ان سے ترکِ تعلق کر لیا۔ پروین زخموں کو پھول بنانا جانتی تھیں۔ میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں بے ردائی کو ہماری دے گیا تشہیر کون کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماوں گی میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاوں گی سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آوں گی عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی وہ خوبصورت الفاظ سے اپنے جذبات کی تصویر کشی کرتی تھیں۔پروین کے بقول محبت جب نفس پر قابو پا لیتی ہے تو وجدان میں بدل جاتی ہے اور خوبصورتی نزاکت کی انتہا پر خوشبو میں بدل جاتی ہے۔ پروین کی شاعری بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیل چکی ہے۔دلوں میں اتر گئی ہے اور اپنی شبنمی نزاکت سے روح کو تھپکتی ہے۔ حسن کو سمجھنے کو عمر چاہیے ، جاناں! دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حِنائی ہو! محبت کی خوشبو کو اپنے شعروں میں سمونے والی شاعرہ جب اداس ہو تی ہے تو کچھ اس طرح بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گر ہستی کی اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات روز اک دوست کے مرنے کی خبر آتی ہے روز اک قتل پہ جس طرح کہ مامور ہے رات چارہ گر ہار گیا ہو جیسے اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے خود کو خوشبو میں سمو کر دیکھوں اس کو بینائی کے اندر دیکھوں عمر بھر دیکھوں کہ پل بھر دیکھوں کس کی نیندوں کے چرا لائی رنگ موجہ زلف کو چھوکر دیکھوں زرد برگد کے اکیلے پن میں اپنی تنہائی کے منظر دیکھوں موت کا ذائقہ لکھنے کے لیے چند لمحوں کو ذرا مَر دیکھوں۔

No comments: