Saturday, January 8, 2011

جوش ملیح آبادی کی تحریریں ازذو الفقار حسین

جوش ملیح آبادی کی تحریریں بھلے ہی سرمایہ دارلوگوں کو ناگوار گزرتی ہوں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریریں اپنے آپ میں نایاب و نادر ہیں۔ ان میںسرمایہ دارانہ نظام کا پختہ قلعہ مسمار کرنے کی طاقت بھی ہے اور غیر سرمایہ دارانہ نظام کا عالی شان محل تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی، فرماتے ہیں:” محکومیت و غلامی ایک ایسی بے درمیاں زبوں حالی اور ایک ایسی شدید لعنت ہے کہ دود مان شیطانی کے سب سے بڑے شریر و شقی رکن تک کو اس پر ترس آتا ہوگا۔ محکومی کا جسم لاغر ،روح مردہ، چہرہ زرد، پیشانی پر شکن، سینہ تنگ، دل سرد ،ولولے پابہ زنجیر اور ذہنیت پست و مکدر ہوتی ہے، کسی قوم کے اندر یہ سینوں کا کھینچ لینے والا احساس کہ میں محکوم ہوںایک ایسا آہستہ دوڑنے والا زہر ہوتا ہے جس کے اثر سے اس کے ولولے ایڑیاں رگڑتے اور اس کی امنگیں دم توڑتی رہتی ہیں۔ محکومی کی ہر منزل منزل اول اور محکومی کا ہر نفس نفس آخر ہواکرتا ہے۔ محکوم کا حضر و سفر دونوں مساوی طور سے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ حضر کی حالت میں فاتح قوم کی حکومت اس کی عزت کو سراٹھانے کا موقع نہیں دیتی اور سفر میں دوسری آزاد قومیں تو کارز میں ران کو ساختی؟، کے تحت اس کی پرچھائیں کی بھی روادار نہیں ہوتیں۔“ (ماہنامہ کلیم)

جہاں جوش کی تحریریں ہر درجے کے قاری میںانقلاب بر پا کرنے کی قوت و توانائی رکھتی ہیں وہیں انسانیت نوازی کی صحیح تصویر بھی دکھاتی ہیں۔ان کی تحریروں میںانسانیت نوازی کی تصویریں صرف تعریف کے قابل ہی نہیں بلکہ لائق احترام ہیں،فرماتے ہیں:

” جو قوم اپنے یتیموں کو ننگا بھوکا رکھتی ہے ، جو قوم اپنے یتیموں کو ننگے پاﺅں پھراتی ہے، جو قوم اپنے یتیموں کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھتی ہے جو قوم اپنے یتیموں کو دوسروں کے گھروں میں بے اجازت درآنہ گھس پڑنے کی تعلیم دیتی ہے جو قوم اپنے یتیموں میں ذہنیت پیدا کرتی ہے کہ وہ آیات قرآنی سے کاسہ گدائی کا کام لیں جو قوم اپنے یتیموں کو بھیک مانگنے کی انتہائی شرمناک عادت ڈلواتی ہے، جو قوم اپنے یتیموں کو اپنی معاش کا ذریعہ بناتی ہے اور جو قوم اپنے یتیموں کو اپنی نفسانی خواہشوں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کا ارتکاب کرتی ہے وہ قوم قدرت کی مبغوض و مستوب قوم اس قابل ہے کہ اسے ہلاک کر دیا جائے اس کی ہڈیوں تک کو توڑ ڈالا جائے، ٹوٹی ہڈیوں میں آگ لگا دی جائے اور پھر ان ناپاک ہڈیوں کی راکھ کو دوزخ میں جھونک دیا جائے۔“ (ماہنامہ کلیم)

جوش ملیح آبادی کی مذکورہ تحریروں کے علاوہ ایسی اور بھی بہت سی تحریریں ہیں ان تحریروں میں خیالات کی پاکیزگی، زبان کی صفائی ،لفظوں کی روانی اور تشبیہات و استعارات کی کثرت سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بیش قیمت ہیں۔

لکھنو کا مشہور بازار امین آباد - ایک جھلک از عرفان عباسی

والی اودھ امجد علی شاہ (دور اقتدار ۲۴۸۱ئ۔۷۴۸۱ء)کوشہر کی آبادی میںاضافہ اور ہمہ جہت ترقی میں خاص دلچسپی تھی۔اسی زمانے میںان کے وزیر اعظم امین الدولہ نے نیا محلہ آباد کرکے اس کا نام اپنے نام پر ”امین آباد“ رکھا تھا جو سیاسی انقلابات، انتشار ات اور نشیب و فراز کے سر د و گرم جھیلتے ، پھوس کی چھتوں، جھونپڑیوں اور کچے پکے مکانات کے ابتدائی دور سے گزرتے ہوئے ارتقائی منزلیں طے کرتا رہا اور آبادی میںاضافہ کے ساتھ شہر کے مشہور و پر رونق بازار کی حیثیت اختیار کرکے اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ اسی زمانے میں حضرت گنج بھی آباد کیاگیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ نہایت صاف ستھرا ،خوبصورت اہم اور منفرد بازار بنتا گیا۔ اس کی شاندار عمارتیں،جگمگاتی سڑکیں اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاءفراہم کرنے والی دوکانیں رﺅسا ،بڑے سرکاری افسروں، نوابین، زمینداروں اور راجگان کی توجہ کا خاص مرکز تھیں اور وہ انہیں کا بازار کہا جاتا تھا۔ انگریزی دور حکومت میںاس کی بیشتر دوکانیں انگریزون کی تھیں اور انگریز وہیں خرید و فروخت کرتے تھے جب کہ امین آباد لکھنوی تہذیب سے آراستہ عوامی بازار کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی ہر ادا میں تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں تھی۔

کہتے ہیں سلطنت اودھ کے زمانے میں پرانے لکھنو کے بازاروں خصوصاً چوک بازار کا شمار اہم ترین اور پر رونق بازار میںہوتا تھا۔ جہاں ضروریات زندگی کی فراہمی کے علاوہ ہر طرف تہذیب، شرافت، وضع داری ، ہم آہنگی اور زبان وبیان کی شیرینی کی بدولت سحر انگیز ماحول طاری رہتا تھا۔ اودھ کے دن بدلتے ہی رفتہ رفتہ پرانے لکھنو کے بازاروں کی رونق ،بھیڑ بھاڑ، اور ہماہمی ماند پڑنے لگی اور امین آباد مرکزی حیثیت اختیار کرتا گیا۔ چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں کی جگہ نئی نئی تعمیرات ہونے لگیں ہر طرف نیا رنگ ، نیاسماں، نئی چال ڈھال نئے لباس اور نئے اطوار نظر آنے لگے۔ انگر کھوں کی جگہ کوٹ پتلون پالکیوں ،چو پہلوں ،ہواداروں، فینسوں اورڈولیوں وغیرہ کی جگہ یکہ و تانگے نے لے لی اور باوضع سماج میں فیشن پرستی کا سکہ چلنے لگا۔ مقبول و روایتی خصوصیات رفتہ رفتہ دم توڑنے لگیں۔ راج دھانی کا چھوتا سا نیا بازار امین آباد مغربی لبادہ اوڑھے رواں دواں نظر آنے لگا ۔چند سال قبل تک کچھ بزرگ موجود تھے جنہوںنے امین آباد کی شاندار آہنی شٹر والی چمکتی ،جگمگاتی دوکانوں کو پھوس کے چھپروں سے ڈھکی دیکھا تھا پھر کایا پلٹ کے بعد اس کا ترقی یافتہ و ماڈرن روپ بھی دیکھا۔

کتنے اتار چڑھاﺅ دیکھے ہیںاس چھوٹے سے بازار نے۔ کیسی کیسی باغ و بہار شخصیات کیسے کیسے واقعات و حادثات اور کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں اس کے نام کے ساتھ۔

صبح نظیر آباد کے چوراہے پر اخبار والوں اور اخبار بینوں کی بھیڑ، ہمدم ،حقیقت، اور پائینیر وغیرہ پرلوگ ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تازہ تازہ خبریں۔ ان اخبارات کی تکمیل بھی تو گئی رات تک اسی بازار میں ہوتی ہے۔ یہ انیس احمد عباسی ، اسد بنارسی ،نیاز فتح پوری ،رضا انصاری ،غلام احمد فرقت اور امین سلونوی (ا۔ن۔س)وغیرہ ان اخبارات کے اوراق سیاہ کرنے کے لئے ہی صبح سے گئی رات تک اس بازار میں منڈلا یا کرتے ہیں۔

چھیدی لال دھرم شالہ میں سیاست دانوں کا جمگھٹا ،دانش محل، صدیق بک ڈپو ،انوار بک ڈپو وغیرہ میں شعراءوادبا کی نشست، پارکوں میں خوبصورت اسٹینڈ میں تیل کی شیشیاں سجائے چمپی کرنے والے اور ان کے بھیس میں شکار کے متلاشی گرہ کٹ، ہلالی پرچم میں لپٹے عبد اللہ ریستوراں میں معمولی ورکر ہی نہیں صوبائی مسلم لیگی لیڈروں تک کی صبح سے رات بارہ ایک بجے تک بھیڑ اوراس کے چند قدم کے فاصلے پر ہی احراری پرچم کے زیر سایہ کھدر پوشون سے بھرا خان ریسٹوران چنددہائی پہلے کی ہی تو بات ہے۔

جھنڈے والے پارک (امین الدولہ پارک) میںسیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے تاریخی جلسے ،دوسری طرف امین آباد پارک میں ناقوس و اذان کی ملی جلی آوازیں، سائمن کمیشن کی آمد پر امین آباد کی سڑکوں پر احتجاجی جلوس، اس پر پولیس کا حملہ ،شدید لاٹھی چارج، جس میںاہم سیاسی لیڈر بشمول جواہر لال نہرو زخمی ہوئے۔امین آباد میں سبھاش چندر بوس کی آمد پرتاریخی و یادگار جلسہ، جھنڈے والے پارک میںغیر ملکی اقتدار کے خلاف لا تعداد اہم اور تاریخی جلسے ان میں ممتاز مذہبی ،سیاسی و سماجی رہنمایان ملک کی شرکت ، ہندو مسلم اتحاد کے مظاہرے، مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی ہما ہمی، مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ، مختلف نشرگاہوں کا قیام اور ان سے مختلف سیاسی نظریات کی حمایت میں لاﺅڈ اسپیکر کاشور۔ تقریریں، نظم خوانی نوک جھونک، اور کبھی کبھی گالی گلوج اور خشت باری ،جھنڈے بازی بلند سے بلند تر پرچم لہرانے کی تقریبات اور بڑے بڑے جلوس۔

آج امین آباد کی سڑکوں پر نظر آنے والے لیڈر کل آزاد ہندوستان کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوں گے کیا اس وقت بھی انہیں یاد رہے گا ”امین آباد“ ؟؟

یہ مرکز علم و ادب ”دانش محل“ ہے جہاں ہمہ وقت ممتاز شعرا وادبا کا مجمع رہتا ہے۔ سید مسعود حسن رضوی، پروفیسر احتشام حسین، اختر علی تلہری، نواب جعفر علی خاں اثر، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی، حکیم مسیح الزماں ،رضا انصاری فرنگی محلی، غلام احمد فرقت کاکوروی، احمد جمال پاشا، نجم الدین شکیب، علی عباس حسینی، مجیب سہالوی وغیرہ سے جب چاہیں مل لیجئے۔

کسی مقامی ادیب ،شاعر یامعلم کے گھر کا پتہ چاننا چاہیں کسی پرانی کتاب اور مخطوطہ کا حسب نسب پوچھناہو تو کاﺅنٹر کے پیچھے بیٹھے چھوٹے ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ کودو انگلیوں سے پیٹتے ہوئے مالک دانش محل نسیم احمد صاحب کو بے تکلف زحمت دیجئے اور اپنی معلومات میںاضافہ کیجئے۔

یہاں سے لوٹتے ہوئے سینٹرل بینک کے پاس گلی کے کونے پر چھوٹے سے ہوٹل میں بھی جھانک لیجئے اس کے کرتا دھرتا ہیں سابق خاکسار لیڈر رئیس فاطمی یہاں موضوع گفتگو ہے سیاست جس پر حاوی ہیں علامہ مشرقی کے کارنامے اور خاکسار تحریک۔ ذرا آگے بڑھ کر فتح گنج والی سڑک پر مڑ لیجئے داہنے ہاتھ پرسندر سنگھ شربت والے کی طرف ،ان کے یہاں مفرح اور خوش ذائقہ شربت پینے والے کو سرمہ کی ایک پڑیا مفت ملتی ہے اور اسی کے سامنے حاجی بلاقی تمباکو فروش کا دورسا آپ کے حقہ میں دھواں بن کر سارے محلے کو معطر کردے گا۔ ذرا اورداہنی جانب بڑھئے اور سری رام روڈ اور کوتوالی کو آئندہ سفر کے لئے چھوڑتے ہوئے بائیں جانب مشہور تجارتی مرکز ”گڑ بڑ جھالا“ بھی دیکھ لیجئے۔ جس میں کبھی ہر چیز ملے گی دوآنہ کی آوازیں گونجتی تھیں اب خاصا بازار ہے۔ جو روزہ مرہ کام آنے والی بیشتر ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس میں بساط خانہ سے متعلق اشیاءکراکری، ہوزری، ریڈی میڈ کپڑے، چوڑی کنگن اور کلجگی سونے کے نام پر پیتل کے پالش شدہ زیورات سب کچھ دستیاب ہے۔بساطی مسجد سے آواز اذان بلند ہورہی ہے آئیے لوٹ چلیں۔ فتح گنج، گنیش گنج وغیرہ کی زیارت آئندہ سفر میںکی جائے گی۔

یہ گوئن روڈ ہے ۔ یہاں غسل کے لئے حمام بھی ہیں۔ بال ترشوانے کی سہولت بھی ہے اور کپڑوں کی کثافت دور کرنے کے لئے ”پیرس لانڈری“ بھی جس کے دروازے چند گھنٹوں کے علاوہ ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ اسی سڑک پر وہ ریستوراں بھی ہے جس میں ظریف و بے باک شاعر رفیع احمد خاں اپنے شعری حمام میںشیخ و زاہد سب کو آئینہ دکھاتے تھے۔ اگر آپ کو ”ہنٹر والے کی بیٹی“ جیسی فلموں سے دلچسپی ہے تو سامنے ہی تو ہے رائل ٹاکیز آپ وہاں چند گھنٹے گزار سکتے ہیں۔ ذرا بڑھئے داہنی جانب اصلاح معاشرہ ، خدمت خلق اور زہد و تقویٰ کی تعلیم دینے والے جید علمائے کرام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (علی میاں) مولاناڈاکٹر عبد العلی حسنی ندوی، وغیرہ کی بابرکت رہائش گاہ بھی ہے اور حسنی فارمیسی بھی۔

یکہ اسٹینڈ چوک، نخاس، میڈیکل کالج، سٹی اسٹیشن، گولہ گنج ، سعادت گنج، اور ڈالی گنج وغیرہ جانے کے لئے سجے سجائے یکے، تانگے آپ کے منتظر ہیں یہ صرف ایک آنہ کرایہ لے کر آپ کو تہذیبی روایات کے امین خستہ حال پرانے لکھنو کے باشندوں تک پہونچادیں گے لیکن اس سفر سے پہلے امین آباد کاایک چکر مکمل کر لیجئے ۔امین آباد پارک کے گرد بڑی بڑی سجی سجائی دوکانیں دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔ رکھب داس جیولرس سے ذرا بڑھ کر انوار بک ڈپو کے بر آمدے میں بہزاد لکھنوی، شوکت تھانوی، امین سلونوی، نسیم انہونوی، مولانا صبغت اللہ انصاری اور سراج لکھنوی وغیرہ سے ملتے چلئے اور بغل میں صدیق بک ڈپو کے مالک گاڑھا پوش ،قمیص پائجامہ ،صدری اور دو پلی ٹوپی میں ملبوس ،گورے چٹے ،سفید بال اور گول خوبصورت داڑھی والے، بازار کی مقبول شخصیت ،زود گو ،عالمی سیاست پر پنجاب میل کی رفتار سے تبصرہ کرتے ہوئے مولوی صدیق بھی جھانک رہے ہیںان سے ملئے ۔یہ چند گفتگو کئے بغیر آپ کو بڑھنے نہ دیں گے۔ سڑک پار کیجئے لکھنو ¿ کے مشہور گھڑی ساز ادارہ ”کاظم اینڈ کو“ کے مالک مہدی صاحب کرتا پائجامہ اور شیروانی میں ملبوس دوکان کے کسی گوشے میں مصروف گفتگو نظر آئیں گے۔

آئیے ! ہز ماسٹر وائس کے نئے نئے ریکارڈ،آپ خرید یں یا نہ خریدیں ، سن لیجئے سردار گراموفون، میں قدم رکھتے ہی کئی ریکارڈ وں پر سوئیاں گھومنے لگیں گی جیسے یہ آپ ہی کی منتظر ہوں۔ ریکارڈ سننے یا خریدنے کے بعد آگے بڑھئے ، سودیشی اسٹور کپڑے کی بڑی دوکان یہاں اونی ،ریشمی ،سوتی ہر قسم کا کپڑا بھی خرید سکتے ہیں اور کاﺅنٹر کے پیچھے رجو بابو سے مصروف گفتگو سیاسی رہنماﺅں سے ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔

احتشام حسین کچھ یادیں کچھ تصویریں از پروفیسر آل احمد سرور

احتشام بہت اچھے رفیق تھے۔ کسی کے ذاتی معاملے میں دخل نہیں دیتے تھے کسی سے اختلاف ہوتا تو اکثر خاموش رہتے۔ کسی کا کوئی ذاتی مسئلہ ہوتاتو اسے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ تعلی ان کو چھو تک نہیں گئی تھی۔ اپنے سے سینئر لوگوں سے ہمیشہ ادب اور احترام سے ملتے تھے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ احتشام سے کسی کا جھگڑا ہوا ہو یا تلخ کلامی کی نوبت آئی ہو۔ اکثر کمیٹیوں میں میں نے جب اپنی رائے پر اصرار کیا تو اختلاف کی صورت پیداہوئی لیکن احتشام اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے تھے پھر فیصلہ جو کچھ بھی ہو۔یکم دسمبر ۵۵۹۱ءکو میںذاکر صاحب کے اصرار پر علی گڑھ چلا آیا۔ کبھی کبھار لکھنو جانا ہوتاتو احتشام صاحب سے ملاقات ہوتی۔ پھر میری دعوت پروہ علی گڑھ آنے لگے اس وقت سے انتقال تک ہر اہم ادبی اجتماع میں جو علی گڑھ میں ہوا انہوں نے شرکت کی۔ شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سبھی استادوں سے وہ اچھی طرح واقف تھے اور ہر ایک ان کی آمد کا مشتاق رہتا تھا۔ ہم لوگ دوسری یونیورسٹیوں کی کمیٹیوں میں بھی اکثر شریک ہوتے اور مجھے یاد نہیں کہ ہم دونوں کا کبھی کسی معاملے میں اختلاف رہا ہو۔

۱۶۹۱ءمیں جب الہ آباد میںاعجاز صاحب کی جگہ خالی ہوئی تو انٹر ویو کرنے والی کمیٹی میں میں ڈاکٹر زور اور عبدالقادر سروری اکسپرٹ کی حیثیت سے بلائے گئے امیدواوں میںاحتشام حسین، رفیق حسین، خورشید الاسلام اور گیان چند تھے۔ جب وائس چانسلر نے مجھ سے رائے طلب کی تو میں نے پہلا نام احتشام کا تجویز کیا۔ پروفیسر سروری نے میری تائید کی۔ ڈاکٹر زور نے احتشام کو دوسرے نمبر پر رکھا۔ وائس چانسلر نے میری اور سروری صاحب کی رائے سے اتفاق کیا اور فیصلہ احتشام کے حق میں ہوا گیارہ سال سے کچھ زائد احتشام الہ آباد یونیورسٹی میںاردو کے شعبہ کے پروفیسر رہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کی علمی روایات خاصی شان دار رہی ہیں۔ احتشام صاحب اردو کے شعبہ کے صدر کے علاوہ آنریری لائبریرین اور ٹیچر ایسو سی ایشن کے صدربھی رہے۔ یونیورسٹی کی سیاست میں انہوں نے کبھی حصہ نہیں لیا۔ فیکلٹی اور اکیڈمک کونسل کے جلسوں میںکچھ استادہمیشہ نمایاں رہتے ہیں۔ احتشام عام طور پر خاموش رہتے تھے لکھنو ¿ میں بھی ان کایہی وطیرہ تھا۔ ہاں لکھنو اور الہ آباد کی ادبی انجمنوں کے کاموں میں وہ ضرور دلچسپی لیتے تھے۔ ہندوستانی اکیڈمی کے نائب صدر بھی تھے علی گڑھ ،دہلی ،لکھنو ¿ ،پٹنہ یونیورسٹیوں میں نصاب کی کمیٹیوں اور امتحانات کے سلسلہ میں خاصی پابندی سے شرکت کرتے تھے علی گڑھ سال میں دو چار بار ضرور آتے تھے۔ انجمن ترقی اردو ہند ہو یا ساہتیہ اکادمی، اتر پردیش اردو اکادمی ہو یا فروغ اردو کمیٹی ۔ان سب کے جلسوں میںوہ خاصی پابندی سے شریک ہوتے تھے لیکن کہیں کسی سے اختلاف کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوجاتے تھے۔ وہ خاصا سفر کرتے تھے اور ان کے یہاں ہروقت کوئی نہ کوئی ملنے پہونچ جاتا تھا۔ وہ مروت کی وجہ سے کسی سے انکار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے ان کا خاصا وقت ضائع ہوتا تھا۔ پھر بھی وہ نئی کتابیں پڑھنے کے لئے ضرور وقت نکال لیتے تھے۔ مضامین با لعموم آخر وقت میںاور زیادہ تر ایک یادو نشستوں میں لکھتے تھے۔ ان مضامین میں اگر چہ حوالے کم ہوتے تھے لیکن چونکہ ان کا حافظہ بہت تیز تھا اور بنیادی باتوں پر گہری نظر اس لئے کتاب کے استدلال اور مصنف کے مرکزی تصور کااندازہ ان کے مضمون سے ضرور ہوجاتا تھا۔

احتشام صاحب کی تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔ ان میں ان کے مضامین کے آٹھ مجموعے بھی ہیں، ترجمے بھی اور ساحل اور سمندر اور اردو ساہتیہ کااتہاس (ہندی) جیسی کتابیں بھی ۔ان کے دو مقدموں کا خاص طو ر پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک جان بیمز کی ہندوستانی لسانیات کا خاکہ کے ترجمہ پر دوسرا آب حیات کی تلخیص پر۔ ان دونوں مقدموں میں موضوع کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو بھی اچھی طرح روشن کر دیا ہے۔ آب حیات کی خامیاں گنوانا آسان ہے لیکن مجموعی طورپر ہمارے اس کلاسک میں جو تخلیقی توانائی اور تنقیدی بصیرت ملتی ہے اس تک پہونچنا اور پھر بھی اس کے جادو میں اسیر ہوکر نہ رہ جانا آسان کام نہیں۔ احتشام اس مرحلے میںکامیاب گزرے ہیں۔

ان کے تنقیدی مضامین میں میرے نزدیک وہ مضامین زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جو نظریاتی ہیں تنقید کے منصب اس کی اہمیت اور تنقید و تخلیق کے تعلق کے رشتے پر ان کے جو مضامین ہیں وہ بڑے وقیع ہیں، اس کے بعد ان مضامین کا نمبر آتا ہے جو ادب اور تہذیب یاادب اور فنون لطیفہ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ہندوستانی تہذیب کے جلوہ ¿ صد رنگ پر احتشام کی گہری نظر تھی اور ادب اور فنون لطیفہ کے رشتے کو بھی وہ اچھی طرح سمجھتے تھے ۔بعض ہم عصروں پر ان کے مضامین میں میرے نزدیک ترجمانی اور تحسین کا پہلو زیادہ نمایاں ہے اور قدر آفرینی یا Evaluationنسبتاً کم۔

احتشام حسین طالب علمی کے زمانے میں ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس تحریک سے ان کی وفاداری اور اس وفاداری کی استواری میں کسی صاحب نظر کو کلام نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ادب کے کنبے میںان کی جگہ محفوظ ہے۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ پارٹی سے قریب رہے۔ گوانہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں کوئی حصہ نہیں لیا اور نہ کبھی اس پارٹی کے ممبر ہوئے ادبی تنقیدوں میںوہ سماجی معنویت پر برابر زور دیتے رہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سماجی معنویت اور ادبی معنویت میں لازم و ملزوم کارشتہ ہے میرے نزدیک پوری حقیقت نہیں حقیقت کاایک اہم پہلو ضرور ہے۔

جدیدیت کے میلان سے وہ کچھ خوش نہ تھے اور تنہائی کے احساس یا عرفان ذات کو انہوں نے ہمیشہ شبہ کی نظر سے دیکھا وہ تنگ نظر نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اس نئے میلان کی اس شد و مد سے مخالفت نہیں کی جس طرح ترقی پسند ادب کے کچھ اماموں نے کی ۔ ادب کی سماجی معنویت اور سماجی نقطہ نظر سے ادب کی پرکھ بلا شبہ اہم ہے لیکن بقول Rene Wellexسماجی معنویت کانظر یہ ادب کے سارے پیچ و خم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہاں ادب کی سیاست پر فوقیت ثابت کرنا مقصود نہیں دونوں کے راستوں اور منزلوں کے فرق کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

احتشام حسین کی نثر ہماری علمی نثر کا اچھانمونہ ہے ان کا اسلوب حالی کے اسلوب کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ اس میں ہڈی بھی ہے اور گودا بھی لیکن میںاحتشام کو صاحب اسلوب نہ کہوں گااور اس بات سے ان کے ادبی مرتبے میں کوئی کمی بھی نہیں آتی ہے۔

اردو تنقید کو احتشام حسین نے بہت کچھ دیا ہے۔ ایک سنجیدہ اور علمی نقطہ نظر ایک سماجی شعور، ایک تہذیبی بصیرت اور ایک سلجھا ہوا اور ہموار اسلوب، ادبی معاملات میں کسی کی رائے حرف آخر نہیں ہوتی احتشام حسین کی رایوں سے بھی جابجا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ادب کی دنیا میں جمہوریت ہوتی ہے آمریت نہیں۔ لیکن یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ احتشام حسین نے جیسااردو تنقید کو پایا تھا اس سے بہت بہتر حالت میںاس کو چھوڑا۔ وہ ہمارے ادب کی بڑی محترم اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنا پروپیگنڈہ نہیں کیا اور جو لوگ اس میدان کے شہ سوار تھے ان پر بے تکلف دوستوں کی محفل میں دلچسپ انداز میں تبصرہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اردو ادب عموماً اور اردو تنقید خصوصاً ان کو محبت اور احترام کے ساتھ یاد کرے گی۔

راجستھان میں جدید غزل: آغاز اورارتقا از محمد شاہد پٹھان

ممتاز راشد ایک مدت سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ ان کی غزل میں رومانویت کے ساتھ ساتھ جدید شعری حسیت خاص کر دیکھنے کو ملتی ہے۔ شہری زندگی کی ہنگامہ آرائی، بیگانگی اور مصلحت اندیشی کااظہار راشد کے یہاں شعری نزاکت کے ساتھ ہوا ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھیگا ہوا کاغذ شائع ہوچکا ہے۔

پوچھتا کس سے میں کھوئے ہوئے چہروں کا پتا

شہر کی بھیڑ میں نکلا نہ شناسا کوئی

پاس جاکر جسے دیکھا وہی پتھر نکلا

کون تحریر بدلتا مری پیشانی کی

با رہا یہ ہوا جاکر ترے دروازے تک

ہم پلٹ آئے ہیں ناکام دعاﺅں کی طرح

تنگ تھی ہم پر زمیں کچھ اس طرح

چند دیواروں کو گھر کہنا پڑا

مضطر صدیقی ،راجستھان میںاپنی شناخت ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔ ان کی غزل اور نظم دونوں اصناف میں ”ترقی پسند نقطہ نظر“ دیکھنے کو ملتا ہے۔ چنانچہ اس نظریے کے اچھے برے دونوں عناصر بھی ان کی شاعری میںموجود ہیں۔ غزل چونکہ کسی نظریے کی منظم ترجمان کم ہی ہوپاتی ہے اس لئے مضطر صدیقی کی غزل میں صرف ترقی پسند عناصر ہی نہیں بلکہ جدید غزل کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ان کے طرز احساس و اظہار میںوجودی اور انفرادی رنگ جلوہ گر ہوتا ہے ذیل میں چند اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:

مضطر بڑے خلوص سے پیش آرہے ہیں لوگ

یہ التفات خاص فریب نظر نہ ہو

سورج کی تیز دھوپ نے مضطر جلا دیا

ملتا نہیں ہے سایہ ¿ دیوار و در مجھے

یہ شب غم یوں ہی آوارہ پھرا کرتی ہے

اس سے کہہ دو کہ کبھی مجھ سے ملاقات کرے

مضطر صدیقی کے دو شعری مجموعے ”ارتعاش“ اور اضطراب شائع ہوئے ہیں۔

عشرت دھولپوری ایک پختہ کار شاعر ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ”بوند بوند “ شائع ہو چکا ہے۔ اور دوسرا زیر اشاعت ہے، اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں وہ ترقی پسند ی سے قریب تھے لیکن بعد ازاں جدیدیت سے متاثر ہوئے۔ عشرت دھولپوری کی شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ پہلے ”شاعری “ ہوتی ہے ”ترقی پسند اور جدید بعد کی منزلیں ہیں۔ وہ جذبے کو احساس اور احساس کو شعری اظہار بنانے کے فن کارانہ ہنر سے کما حقہ آشنا ہیں۔ چند اشعار دیکھئے:

میرے ہاتھوں سے مٹا میری مشقت کے نشاں

اور پھر میری جبیں پر میری قسمت لکھ دیے

زخموں کے پھول شاخ بدن پر لئے ہوئے

گزرا ہوں شہر رنگ سے میں سر لیے ہوئے

کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد

شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی

مری آنکھوں میںاس کاخواب پل بھر کے لئے جاگا

مگر بے خوابیوں کا سلسلہ جاری رہا برسوں

اب لہو صرف رگوں میں نہیں بہتا عشرت

دیر و کعبہ کے چراغوں میں بھی جل جاتا ہے

مری نگاہ رہی شہر کی فصیلوں پر

چھپا ہوا مرا قاتل مرے مکان میں تھا

ش۔ ک۔ نظام کی غزل کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں جذباتیت کارنگ ناپید ہے۔ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے محسوس کرنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کے اشعار قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے بالواسطہ مکالمہ قائم کرتے ہیں۔ ان کے عمدہ اشعار میں واقعات کی روداد نہیں بلکہ تاثر کابیان ہوتا ہے۔ جو ہمارے موجودہ معاشرے کی اجتماعی کج روی کا غماز ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔چند منتخب اشعار پیش ہیں:

فرد باقی ہے خاندان کہاں

ڈھونڈتے ہیں مکیں مکان کہاں

دونوں اطراف کے لوگ زخمی ہوئے

پتھروںکی کہاں تھی کمی شہر میں

کتنا مایوس کتنا افسردہ

ہے مری طرح شہر بھی تنہا

آج سے تو پتھروں کے دور ہی میں ٹھیک تھا

روشنی کے شہر نے تو کردیا اندھا مجھے

اس بستی کی بات نہ پوچھو اس بستی کا قاتل بھی

سیدھا، سادہ، بھولا بھالا ،پیارا پیارا لگتاہے

شاہد میر کا ایک شعری مجموعہ ”موسم زرد گلابوں کا شائع ہوچکا ہے۔ وہ ”نباتات“ کے استاد ہیں،چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری میںبھی نباتاتی لفظیات کو علامتی اور استعاراتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کے متنوع پہلووں سے ان کا تطابق و تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں شاہد کی غزل میں فطری مناظر اور زندگی کے مختلف مظاہر میں گہرا ارتباط دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے شاہد کی غزل میں فطرت پسندی کارجحان نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے چند اشعار پیش ہیں:

پانی کے عوض سبز درختوں نے پیا زہر

ہر شاخ پہ پھولوں کی جگہ کھلنے لگا زہر

ہمیں تو خشک ٹہنی توڑ کر بھی درد ہوتا ہے

چلا دیتے ہیںآری لوگ کیسے نم درختوں پر

ہماری جیسی قسمت لے کے آئے ہیں زمانے میں

کبھی شعلے برستے ہیں ، کبھی شبنم درختوں پر

اظہار مسرت کی شاعری کا ایک مجموعہ ”کرب خموش“ شائع ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے رنگ باہمی طور پر مربوط نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دونوں ادبی رجحانات سے استفادہ کیاہے۔ وہ ترقی پسند ہیں مگر اشتراکیت کے مبلغ نہیں۔ اسی طرح ان کے یہاں جدیدیت کا تخلیقی پہلو بھی جلوہ گر ہے۔ ذیل کے اشعار سے ان کی غزل کا معیار و مزاج سامنے آجاتا ہے۔

ہر بزم میں تنہائی کا آسیب ہے میں ہوں

ہر بزم کا ماحول مرے گھر کی طرح ہے

آکے سیلاب گزر جائے گا، لیکن برسوں

حاکم وقت نیاگھر نہ بنانے دے گا

صبح ہوگی تو ملے گا یہاں ہر اک زخمی

رات برسے ہیں مرے شہر میں گھر گھر پتھر

ہمارے حصے میں صحرا کی تشنگی آئی

سمندروں میں بڑی مچھلیوں کا ڈیرا تھا

نذیر فتح پوری نے شاعری کی بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ اب تک نذیر کے چار شعری مجموعے چھپے ہیں ان میں شامل کلام کے مطالعہ سے ان کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ راجستھان سے باہر پونہ میںقیام پذیر ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری میں نقل مکانی ،ہجرت اور سماجی سطح پر بڑھی ہوئی بے کیفی و بیگانگی جیسے مسائل کا اظہار ملتا ہے۔ اپنے ڈکشن اور اسلوب میں انہوں نے جدید غزل کی لفظیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ مقامی الفاظ و علامات کا استعمال بھی سلیقے سے کیا ہے۔ چند اشعار دیکھئے:

اماں ملی نہ کہیں خانماں خرابوں کو

تمہارے شہر میں اونچے مکان کتنے ہیں

درد کا چاند چمکتا ہے مری بستی پر

تم نے دیکھا ہے کہیں اور یہ منظر یارو

ہر طرف پتھروں کی بارش ہے

جسم و جاں کو سنبھال کر رکھئے

صحرائے زندگی میں مسائل کی دھوپ سے

جو شخص بھی ملا وہ سلگتا ہوا ملا

انعام شرر ایوبی راجستھان کے ایک اہم جدید شاعر ہیں۔ مولانا قمر واحدی کے شاگردوں میں انہیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ شرر کاکلام ملک کے رسائل و جرائد میں خال خال ہی شائع ہوا ہے۔ اس لئے ادبی دنیا میں انہیں زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ ان کی شاعری میںان کی جذباتیت ، بدیہہ گوئی اور فوری اظہار کے سبب قدرے طنز آمیز شعری رویہ پیداہوجاتا ہے۔ اس رجحان سے شرر کی شاعری میں بلند آہنگی اور گاہ بہ گاہ نعرہ زنی کاانداز بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ شرر کے اسلوب سخن کی تعمیر میں ایک خاموش اثر جوش ملیح آبادی کا بھی رہا۔ جوش شرر صاحب کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ لہٰذا شرر کی بلند آہنگی میں جوش کی بلند آہنگی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ذیل میںان کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

مصائب سے کبھی حالات سے لڑتے رہے ہیں ہم

ہمیں بھی دور حاضر کامجاہد لکھ، سپاہی لکھ

ہر حادثہ یہ سوچ کے برداشت کر لیا

شائد اب اس کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو

پھر وہی دھوپ کا موسم وہی سایے کی تلاش

سلسلہ ختم یہ شائد نہیں ہونے والا

موجود ہے گھروں میں فسادوں کا ڈر ابھی

مشکوک سی ہے شہر کی ہر رہ گزر ابھی

سخاوت شمیم کے یہاں غزل کے مانوس کلاسیکی انداز کا اثر بھی ہے اور جدید غزل کے نئے ڈکشن سے ابھرنے والا تازہ کار اسلوب بیان بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کی ناہمواریوں کو ایک بالیدہ شعور فن کار کی حیثیت سے محسوس کرتے ہوئے اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ”روشنی تو ہونے دو“ شائع ہوا ہے۔

اب آسمانوں سے آگے اڑان بھرتا ہوں

درونِ ذات خلا کا حصار پہلے تھا

بے شمار لوگوں کو ہم خیال کرنا ہے

آج میرے ہونٹوں پر مہر خامشی رکھ دو

یوں تو کچھ لوگ چلے آئیں گے چیخیں سن کر

کون مجروح صداﺅں کامسیحا ہوگا

اس شہر میں تو عام یہ دستور ہوگیا

ہر شخص اپنی ذات میں مستور ہوگیا

حافظ ابرار احمد فائق کا کلام رسائل و جرائد میں بہت کم شائع ہوا ہے۔ لیکن وہ ایک باشعور اور ذہین فن کار ہیں۔ وہ کم لکھتے ہیں لیکن شاعری کااعلیٰ معیار قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا جتنا کلام میری نظر سے گزرا ہے وہ فکر و اسلوب ہر دو اعتبار سے پائیدار ہے،فائق اپنے عہد کی سماجی و سیاسی ذہنیت پر دانشورانہ انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں ،چند اشعار درج ہیں:

نہیں لکھیں تو خیانت ،لکھیں تو مجرم ہیں

عجیب آفتِ جاں ہے قلم ہمارے لئے

سنگ باری پہ تباہی تو سبھی کی ہوگی

آئینہ کوئی زیادہ، کوئی کم ٹوٹے گا

قدم قدم پہ ہے میرے وجود کو خطرہ

میں لمحہ لمحہ تحفظ کے انتباہ میں ہوں

مرا شباب مرا حسن چھین لے یارب

غریب باپ کی بیٹی نے یہ دعا کی ہے

فراز حامدی کی تخلیقی صلاحیتوں کا زیادہ تر اظہار گیت ،دوہا، غزل، ماہیہ اور دوسری نئی اصناف مثلاً ہائیکو وغیرہ میںہوا ہے۔ لیکن ان کی غزلیں بھی ان کے شعری سرمایے میںموجود ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کے چند اشعار پیش ہیں:

ہنس نہ سکے یہ بات الگ ہے

جینے کو تو ہم بھی جیے ہیں

تو نے کتنوں کو دھوکے دیے ہیں

زندگی تجھ کو پہچانتا ہوں

شہر کی بھیڑ میں کھوئی کھوئی سہمی سہمی ایک نظر

ہر چہرے سے پوچھ رہی ہے تونے مجھے پہچانا کیا.

اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت از پروفیسر شارب ردولوی

اردو شاعری کے عظیم ذخیرے میں مرثیے کو ایک بڑی اہم اورانفرادی حیثیت حاصل ہے یہ اس لئے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے حالانکہ دنیا کے ادب میں جن نظموں کا آج تک کوئی ثانی ہے ان میں بیشتر نظموں کے محرک مذہبی واقعات اور عقائد تھے اس لئے یہ بات معذرت کی نہیں ہے کہ مرثیے مذہبی واقعات سے متعلق ہیں لیکن در اصل نہ مرثیوں کی عظمت کا سبب مذہب و عقائد ہیں اور نہ ان عالمی ادب کے عظیم رزمیوں کی عظمت کا سبب ان کے لکھنے والوںکے عقائد تھے، عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کراسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔

مرثیہ بھی کیا تھا؟ عربی میں بھی مرثیے تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے تھے، فارسی کے مرثیے ہندوستان میں بہت مقبول تھے اور عام مجالس میں پڑھے بھی جاتے تھے لیکن ان کی ادبی و فنی حیثیت کیاتھی؟ عربی و فارسی کے مراثی آج بھی ادبی شہ پاروں کی حیثیت سے نہیں پڑھے جاتے۔ اس کے بعد دکن کے قطب شاہی دور میں اردو میں مرثیے لکھنے کاآغاز ہوا۔ پہلا مرثیہ اشرف نے لکھا یا وجہی یا محمد قلی قطب شاہ نے یہ اس وقت زیر بحث نہیںہے، لیکن اردو کے پہلے مرثیہ نگار سے لے کر مسکین، سودا اور سکندر تک تقریباً ڈھائی سو سال میں جو مرثیے لکھے جاتے رہے ان کی کیا حیثیت تھی اور ادب میںان کا کیا مقام تھا؟ ظاہر ہے کہ اگر صرف مذہبی جذبات کااظہار کسی تخلیق کو بڑابنا سکتا تو ایسی بے شمار تخلیقات جن سے آج کوئی واقف بھی نہیں ہے ادب کا بیش قیمت حصہ ہوتیں۔

مرثیہ اردو کی واحدصنف سخن ہے جس نے ہیئت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ غزل ،مثنوی، اور قصیدہ بھی قدیم اصناف میں ہیں لیکن ان کی ہیئتیں ابتدا ہی سے طے تھیں لیکن مرثیے کی کوئی ہیئت طے نہیں تھی شروع میں جو مرثیے دکن میں لکھے گئے وہ غزل کی طرح مفرد اشعار پر مبنی تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے کی یہی روایت تھی کہ وہ غزل کے انداز پر لکھے جاتے تھے۔ اور ان کے اشعار میںکوئی اندرونی ربط نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجالس عزا کے لئے مرثیے لکھتے تھے۔ ان کا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کا لکھنا پڑھنا اور سنناسب ہی ثواب میں داخل ہو تو ایسے لوگ بھی اسے لکھنے لگیں گے جو فن شعر گوئی سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے فنی اعتبار سے مرثیے کو کم تر مانا جاتا تھا لوگ بے جھجھک جس طرح چاہتے تھے مرثیے لکھتے تھے اور زبان وبیان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔مذہبی عقیدت میںچونکہ غلطیو ں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا اس لئے ان کے معائب پر پردہ پڑا رہتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں اور شعراءنے اس کی طرف اشارے کئے ہیں سودا نے توبہت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ :

”لازم ہے کہ مرتبہ در نظر رکھ کر مرثیہ کہے۔ نہ برائے گریہ ¿ عوام اپنے تئیں ماخوذ کرے۔“

آنے والے ادوار میں مرثیے کوبہتر بنانے کی خواہش میںاس کی ہیئت میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور وہ مرثیے جو پہلے چند مختلف اشعار پر مبنی ہوتے تھے ان میں واقعات کو ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ظاہر ہے کہ اس کے لئے غزل یاقصیدے کی ہیئت کافی نہیں ہوسکتی تھی اس لئے مربع مرثیے لکھے گئے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک مربع اور مربع ترجیع بند میں مرثیے لکھے جاتے رہے۔ مربع مرثیوں نے پہلی بارمرثیے کو بند کا تصور دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیان میں وسعت پیدا ہوئی اور واقعے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نکل آئی اور ان تجربات نے مرثیے کے مسدس تک پہونچنے کی راہیں ہموار کیں۔ اس طرح کے مرثیے دکن میںہی کہے جانے لگے تھے۔ درگاہ قلی خاں کے مرثیوں میںمخمس ، دہرہ بند، اور ترجیح بند مرثیوں کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

مسدس مرثیوں کی ابتدا شمالی ہند میں ہوئی،ابتدائی مسدس میاں مسکن اور سودا کے یہاں ملتے ہیں۔ جن میںمرثیوں کو سادہ بیانیہ سے آگے لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واقع کے تسلسل اور ربط کے لحاظ سے بھی یہ مرثیے گذشتہ مرثیوں سے بہتر ہیں۔ ان میںمختلف موقعوں پر جذبات نگاری اور کردار نگاری کی کوشش بھی ملتی ہے لیکن اصل توجہ واقعہ سازی پر ہے۔ سودا کے مرثیوں میںاس بات کی کوشش زیادہ ملتی ہے کہ واقعہ کو زیادہ بہتر اور پر اثر طریقے پر بیان کیا جائے لیکن اس بات کااحساس ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی کوششیں ہیں۔

دہلی سے ادبی مرکز کے لکھنو منتقل ہونے پر وہاں کی سرزمین مرثیے کو بہت راس آئی خلیق و ضمیر نے اس کے ادبی خدو و خال کو درست کیا اورایک ایسی صنف جسے غلطی الفاظ بسیار کی وجہ سے قدرت اللہ شوق نے اپنے تذکرے میںجگہ دینے کے قابل نہیں سمجھا تھا اور مصحفی نے مرثیہ گوئیوں کے طرز کو مطلقاً ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔ اسے ایک نئی صنف سخن بنا دیا۔ میر خلیق نے بیانیہ کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مرثیے میں سفر کا حال ،رخصت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا، میر ضمیر نے جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیہ میں رزمیہ کے امکانات کو روشن کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سراپا بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی اور اس طرز نوی، کو مرثیے میں اپنا Contribution قراردیا۔ سراپا کے بیان جنگ کی تفصیلات رخصت اور سفرکے حالات نے مرثیے کوجذبات نگاری کا بہت بڑا میدان فراہم کردیا۔ جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراج کمال تک پہونچا دیا۔ کسی چیز کی اس سے زیادہ معراج کیاہوسکتی ہے کہ اس کے بعد اس میںکوئی اضافہ نہ ہوسکے۔ میر انیس اور مرزا دبیر نے مرثیے کی ظاہری ہیئت ہی کی تکمیل نہیں کی بلکہ زبان وبیان اوراسلوب و اظہار کی جو خوبیاں بھی ہوسکتی تھیںوہ سب مرثیے میں پیدا کردیں۔ اسی لئے اگر توجہ سے مرثیے کا مطالعہ کیا جائے تواس میں غزل کی دلکشی ،قصیدہ کا طمطراق مثنوی کی سبک روی اورجذبات نگاری ،رزمیے کاشان و شکوہ ساری چیزیں نظر آجائیں گی۔ مرثیے کی اثر انگیزی کا یہ بھی ایک سبب ہے یہ انیس و دبیر کاکمال ہے جنہوں نے مرثیے کو ایک مکمل فن پارہ بنادیا۔ اوراس میں وہ طاقت پیداکردی کہ وہ عالمی ادب سے آنکھ ملاسکے۔

مرثیے کی انفرادیت اور اہمیت کاسبب بھی وہی ہے جو عالمی ادب کی ان تخلیقات کا ہے جن میںمذہبی عقائد کااظہار کیا گیا ہے۔ یعنی واقعہ کی انسانی و اخلاقی قدریں، زبان وبیان کی سحرکاری، اظہار و اسلوب کی دل پذیری واقعہ نگاری اور جذبات نگاری پر مکمل قدرت، انیس و دبیر نے مرثیے میں یہ تمام محاسن جمع کردیئے تھے اسی لئے آج اردو مرثیے کو ادب میںایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس میں جو وسعت اور تنوع ہے اردو کی کسی دوسری صنف میں نہیں ہے۔ وہ اپنے عہد کی تہذیبی و معاشرتی تاریخ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں۔

میر انیس و دبیر کے بعدمرثیہ آج تک ان کے سحر اوراثر سے نہیں نکل سکا۔ خود خاندان انیس اور خاندان دبیر کے شعرا نے مرثیے میں بعض جدتیں کرکے نئی راہیں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن نہ مرثیے میں ساقی نامہ مقبول ہوسکا اور نہ تبلیغی نے متاثر کر سکی۔

جدید مرثیہ نگاروں میں بہت سے مقبول مرثیہ نگاروں کے نام لئے جاسکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت جوش ملیح آبادی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مرثیے کو بالکل نئے طریقے سے استعمال کیا ان کے یہاں مرثیے کی ہیت تو مسدس ہی ہے لیکن موضوع کی حیثیت سے انہوں نے انیس و دبیر کے راستے سے انحراف کرکے واقع کو تسلسل سے بیان کرنے کے بجائے امام حسین کے کردار کو اہمیت دی۔ امام حسیناور ان کے انصار و اعزا کوانقلاب کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔

جدید مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی، رزم ردولوی، نسیم امروہوی، سید آل رضا ،رئیس امروہوی، مہدی نظمی، وحید اختر، محسن جونپوری، اور بہت سے ایسے شعرا ہیں جنہوں نے مرثیے میںنئے امکانات کی تلاش کی اور اردو مرثیے کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔

اردو مرثیے کی اس اہمیت کے باوجود اس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی اپریل ۵۷۹۱ءمیںمیر انیس صدی تقریبات کے سلسلے میں میر انیس اور اردو مرثیے پر کچھ کام ہوا۔ مختلف شہروں میںانیس صدی سیمنار ہوئے اور محققوں اور ناقدوں نے میر انیس اور ان کی شاعری کے بارے میںاز سر نو غور و خوض کیااورانیس شناسی کے نئے پہلوو ¿ں کی تلاش و جستجو کی لیکن ان تمام تحقیقی و تنقیدی مقالات میںزیادہ تر توجہ میر انیس کی شخصیت، ان کے سلام و مراثی اور رباعیات پر رہی ،بحیثیت مجموعی مرثیے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی اور صدی تقریبات کے اختتام کے بعد یہ موضوع پھرذہنوں سے اوجھل ہوگیا۔

ہندوستان میں اردو کا مستقبل از ڈاکٹر وحید مرزا

جس طرح قوموں کی تاریخ میں ایک نہ ایک ایسا نازک دورآتا ہے کہ جس میںان کی آئندہ کی حیات و ممات کا فیصلہ ہوجاتا ہے زبانوں کو بھی اکثر ایسے ہی نازک مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے زمانے کی گردش سے جہاں بعض قومیں اس طرح مٹ گئیں کہ ان کا نام و نشان بھی لوح زمین سے حرف غلط کی طرح محو ہوگیا اسی طرح کئی زبانیں ایسی ہیں کہ جن کے نمونے محض پرانے کتبوں میںیا قدیم کتابوں میں ضرور محفوظ ہیں لیکن نہ تو زندہ انسان کے لب ان سے گویا ہیں، اور نہ کان ان کی آوازوں سے آشنا قدیم مصری زبان فراعنہ کے ساتھ ختم ہوگئی۔ سریانی اور عبرانی دونوں فراموش ہوگئیں، پہلوی اب ایک غیرمانوس زبان ہے۔ اور سنسکرت ایک قصہ پارینہ ایسے ہی ایک نازک مرحلے سے اس وقت اردو کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے، اور یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہماری آئندہ نسلیں اس خوبصورت زبان سے ایسی ہی بے بہرہ ہوجائیں گی جیسے عربی اور فارسی سے یہ زبان ہندوستان میں اپنی پرانی آب و تاب کے ساتھ، اپنی ہمہ گیر مقبولیت کے ساتھ باقی رہ جائے گی اور ان نامساعد حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئی نشو و ارتقا کے سب مراحل طے کرتی جائے گی۔

کسی زبان کی بقا جہاں بہت سے خارجی اثرات اور حالات پر منحصر ہے وہاں بہت حد تک خوداپنی ذاتی صلاحیت پر مبنی ہے اردو زبان نے ایسے وقت میںجنم لیا اور پرورش پائی جب ہندوستان میں مغلوں کی عظیم الشان سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہاتھا اور اس کامنتظر تھا کہ ایک جھونکا باد مخالف کااسے ہمیشہ کے لئے سرد کر دے وہ عصائے حکومت جواکبر اور اورنگ زیب کے مضبوط ہاتھوں میں رہ چکا تھا اب ان کے وارثوں کے کمزور اور مفلوج ہاتھوں میں پھسل رہا تھا اور وہ مملکت جو ایک وقت میں کابل سے لے کر ارکان کی پہاڑیوں تک اور کشمیر کی جنت نظیر وادی سے دکن کی سطح مرتفع تک پھیلی ہوئی تھی اس وقت دلی کے لال قلعے کی چار دیواری میں محدود ہوکر رہ گئی تھی اس لئے اردو اور زبانوں کی طرح دربار کی پروردہ نہ تھی وہ اپنے نشو و نما کے لئے نہ تو بادشاہوں کی قدر دانی کی رہین منت تھی اور نہ امراءکی سرپرستی کی وہ ایک دیہاتی حسن کی طرح ایک لالہ ¿ صحرا تھی ایک خودرو پھول تھی کہ جسے ہندوستان کے باشندوں کی ضروریات نے اس ملک کے معاشرتی ماحول نے اور ادبی رجحانات نے بویا اور پانی دیا اور پروان چڑھایا، یہ زبان کسی ایک قوم یا فرقے سے مخصوص نہ تھی، اس کی آبیاری میںہندوستان کے سب باشندوں کا ہاتھ تھا خواہ وہ عربی اصل کے تھے یاایرانی نسل کے ترکستان سے آئے تھے یا ہندوستان کی سر زمین میں پیدا ہوئے تھے، اس میںایسی دلکشی اور نظر فریبی تھی کہ ہندو اور مسلمان دونوں کو یکساں اپنا گرویدہ بنالیا اور یہ مخلوط زبان جس کا ابتدائی مصرف غالباً یہ تھا کہ بادشاہی لشکر کے مختلف ملکوں سے آنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں تبادلہ خیالات کر سکیں ہندو اور مسلمان دونوں ہی کی یکساں کوششوں سے اس قابل ہوگئی کہ دنیا کی ادبی زبانوں میں ایک مسلمہ اور ممتاز جگہ حاصل کر سکے۔

اگرہم اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ اردو میں کچھ ایسی صفتیں اور خوبیاں ہیں کچھ ایسی صلاحیت اور قابلیت ہے، کہ جو اگرایک طرف اس کے ارتقا کے باعث ہوئی تو دوسری طرف اس کی بقا کی ضامن بھی ہو سکتی ہے اور اگر ہم یہ امید رکھیں کہ باوجود مخالف حالات اردو ہندوستان میں ایک ادبی زبان کی حیثیت سے باقی رہے گی تو بے جانہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی اگرہم یہ سمجھ لیں کہ اردو کی یہ ذاتی قابلیت اور صلاحیت تنہا اور بغیر کسی امداد کے ان مخالف حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے تو یہ محض ہماری خوش فہمی ہوگی، تساہل ہر چیز میں برا ہے اس لئے کہ کوئی زبان بھی خواہ وہ ترقی اور عروج کے انتہائی مرحلے تک بھی پہونچ چکی ہو بغیر کسی منظم کوشش کے بغیر خاص توجہ اور احتیاط کے زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی، اردو اس وقت ایک پھولتے پھلتے درخت کی طرح ہے لیکن اس درخت کی تازگی اور شادابی اس کے قدر دانوں کی باقاعدہ اور لگاتار غور و پر داخت پر منحصر ہے اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ جائیں اور خوش عقیدہ لوگوں کی طرح یہ فرض کر لیں کہ خدا کود اس کا محافظ ہے اور باران رحمت کے چھینٹے اسے ہرا بھرا رکھیں گے تو ہم سے زیادہ دھوکے میں اور کوئی نہ ہوگا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ برگ و بار سے خالی ہوکر یہ تناور اور سر سبز درخت سوکھتا جائے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ باد مخالف کے تند جھونکوں سے زمین پر گرکے محض جلانے کے مصرف کار رہ جائے گا۔

ہندوستان کے طول و عرض میںآج ایک خاص جذبہ کار فرما ہے اس ملک نے برسوں کی پیہم جدوجہد سے بڑی قربانیوں کے بعد آزادی حاصل کی ہے یہاں کی اکثریت بجا طور پر قومیت کے نشے سے سرشار ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب اور تمدن کے دھندلے نشانات کو نئے سرے سے اجاگر کیاجائے اور ہندوستان کی آئندہ ترقی میںان پرانی روایتوں سےزیادہ تر مدد لی جائے جو مرور زمانہ سے تقریباً فراموش ہوگئی تھیں۔ قومیت یا قوم پرستی اچھی چیز ہے یا بری؟ یہ ایک دوسرا سوال ہے اور اس پر بحث کرنے کا یہاں کوئی محل نہیں ،آج کل دنیا کے سب ملکوں میں کم و بیش اس کا زور ہے اور خصوصاً ان ملکوںمیں جو مدت کے بعد عروس آزادی سے ہم کنار ہوئی ہیں اور اس طرح کسی معقول اور انصاف پسند آدمی کو ہندوستان میںاس کے ظہور پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن قوم پرستی کے اس جذبے کو اس حد تک بڑھانا کہ ایک بنی بنائی زبان کو محض اس جرم میں مٹانے کی سعی کی جائے کہ وہ ایک خاص دور میں پیدا ہوئی۔ یا کسی ایک فرقے سے اس کا زیادہ تعلق رہا اور ایک بالکل نئی زبان کی تخلیق جواس سے پہلے یقینا اس سر زمین میںموجود نہ تھی ضرور قابل اعتراض ہے۔ تاہم ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ انقلابی دنیا میںافراط اور تفریط کا ہونا ناگزیر ہے ممکن ہے کہ یہ دور عارضی ہو، ممکن ہے یہ تعصب قومی یہ تنگ نظری دیر تک قائم نہ رہے لیکن اگر ہمیںاردو کی بقا منظور ہے اور ہم اس کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو اس جذبے اور اس کوشش کے خلاف محض اعتراض کرتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اعتراض سے اختلاف بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں سوچنا یہ ہے کہ اردو کی وہ کیا صفات تھیں جنہوں نے اسے ایسا ہر دل عزیز بنادیا۔ اور پھر اس کے کیا اسباب ہوئے کہ وہ ہندوستانیوں کے ایک بڑے طبقے کی نظر میںقابل نفرت و عداوت بن گئی۔

اردو کی گوناگوں خوبیوں پر روشنی ڈالنا اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے لیکن میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی صفت اس کی قوت اخذ تھی اس نے ہر زبان کے الفاظ کو اپنایا اور ان کو اس طرح اپنے میںسمو لیا کہ بہت سے وہ لفظ جو ہم روز مرہ بولتے ہیں اور سنتے ہیں ،ایسی زبانوں سے لئے گئے ہیں جن کا اردو کی ابتدائی تخلیق میں کوئی حصہ نہ تھا۔ مگر جن زبانوں سے اردو کا ڈھانچا تیار ہوا ہے وہ عربی ، فارسی، ہندی اور کسی حد تک ترکی زبان تھی، اور یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی اس لئے اس کی بنیاد ہندی ہے۔ اور عربی اور فارسی کی آمیزش نے اس کی تعمیر میں رنگ و روغن کا کام کیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اردو حقیقت میں ہندی ہی کی ایک شکل ہے تو غلط نہ ہوگا ،واقعہ یہ ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے جب تک سیاسی اور معاشرتی کشمکش نے ہندوستان کی وحدت اور یگانگت کا پیرہن چاک نہیں کیاتھا تو اردو اور ہندی تقریباً ایک ہی زبان کے دو مختلف نام تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ ایک عربی حروف میں لکھی جاتی تھی اور ایک دیو ناگری میںاس کی تصدیق منشی پریم چند کے ان افسانوں کو پڑھنے سے بخوبی ہوسکتی ہے جو انہوں نے اردو اور ہندی میں لکھے ہیںاور جن پر بجا طور پر اردو کے حامیوں اور اردو کے پرچارکوں کو اب بھی ناز ہے۔ رسم الخط کا پردہ اگر اٹھا دیا جائے تو وہی حسن دونوں میں جلوہ نما ہے وہی قدو قامت وہی نمکینی اور ملاحت اگر فرق ہے تو جزوی اور ناقابل اعتنا امیر خسرو کو اردو کے قدیم ترین مصنفوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ لیکن امیرخسرو نے یہاں کی جس زبان میں تھوڑا بہت لکھا اسے وہ ہندی یا ہندوی ہی کہتے تھے اور وہی زبان مختلف زمانوں میں شکل بدلتے بدلتے اردو بن گئی اس حقیقت سے اردو کے قدیم مصنف خوب واقف تھے اور جہاں انہوں نے اردو کے دامن کو عربی اور فارسی الفاظ کے ذخیرے سے مالامال کیا وہاں ہندی الفاظ و محاورات سے بھی اسے آراستہ و پیراستہ کرتے رہے۔ لیکن پھر ایسا دورآیا کہ ہمارے اردو مصنفین نے ہندی کادامن چھوڑ کر اپنی پوری توجہ عربی و فارسی ہی کی طرف موڑ دی۔ ان ہندی لفظوں کو جو اردو کا جزو لاینفک بن گئے تھے نکال کر پھینک دینا تو ممکن نہ تھا لیکن اب ان کی تمام تر کوشش یہ ہوگئی کہ جہاں کہیں اور جس حد تک ممکن ہو ہندی الفاظ کو ترک کیا جائے اور ان کی جگہ عربی اور فارسی کے الفاظ رکھے جائیں۔ یہ طرز عمل مختلف ذہنی کیفیتوں کا نتیجہ تھا جن کا تجزیہ آسان نہیں، مگر اس کا قدرتی طور پر ایک تو یہ اثر ہوا کہ اردو ہندی میں مغائرت پڑھنا شروع ہوی اور دوسری طرف اردو جواب تک ایک سلیس سادہ اور عام فہم زبان تھی واقعی ایسی مشکل اور رقیق زبان بنتی گئی کہ جسے ہندوستان کے عوام آسانی سے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ادھر رد عمل کے طور پر ہندی مصنفین نے ہندی سے عربی اور فارسی الفاظ کو خارج کرکے سنسکرت کے الفاظ کو بھرنا شروع کیا اور اس طرح یہ دونوں زبانیں جوکبھی سگی بہنوں کی طرح تھیں ایسی ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں کہ گویا آپس میں دور کا رشتہ بھی نہیں ہے۔

ملک کی تقسیم اور اس کے بعد افسوسناک حالات نے اردو اور ہندی کی اس مغائرت کو اور بڑھانا شروع کر دیا ہے اگر چہ اب یہ کوشش یک طرفہ ہے ہندی کے نام سے ایک ایسی زبان بنائی جارہی ہے جو نہ پہلے کبھی ہندوستان میں رائج تھی اور نہ اب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اردو کو دبانے اور مٹانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے یہ کوشش کہاں تک بار آور ہوگی؟ اس کا جواب وقت دے گا۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ دور اردو کے لئے بڑے خطرے کا دور ہے اور اگر اس وقت ہم نے پوری سعی اردو کے بقا کی نہ کی تومعلوم نہیں اس کا سر زمین ہندوستان میں کیا حشر ہوگا مگر اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا اور کس طرح کوشش کرنا چاہئے ؟ اس کا جواب مختصر طور پر یہ ہے اور یہی میرے اس مقالے کا ماحصل ہے کہ ہمیں اردو کی اسی ہمہ گیری اسی قوت ماخذ کو بڑھانے کی فکر کرنا چاہئے، ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے۔ اور اس لئے ہہیںاس میں بیرونی اور خارجی عناصر کو جا و بے جا داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود اس ملک کی زبانوں خصوصاً ہندی اور بوقت ضرورت سنسکرت کے موزوں اور مناسب الفاظ کو بھی اس میں ہر وقت جگہ دینے کے لئے تیار اور آمادہ رہنا چاہئے۔ اگر تیرہویں صدی عیسوی کے ہندوستانی فارسی گو شعرا فارسی میں ہندی الفاظ کی آمیزش کو برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ خیال کرتے تھے کہ اس سے ان کے کلام میںایک نئی چاشنی اور کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو ہمیںآج بیسویں صدی میں اور عبارت کو ہندی الفاظ سے زیب و زینت دینے میں کیوں تامل ہو؟ اور ہم یہ کیوں سمجھیں کہ اس سے اردو کی ادبیت پر دھبا لگے گا یا اس کا معیار گر جائے گا؟

کسی ملک کی زبان کو حکومتیں نہیں بناتیں اور نہ متعصب فرقہ وارانہ جماعتیں زبان خود بخود بنتی ہے یعنی ملک کے سیاسی، معاشرتی اور ادبی ماحول سے ظہور میں آتی ہے اور اس کے بعد زبان ان ادیبوں اور شاعروں کی کوشش سے بنتی ہے جن کے دلوں میں درد ہو اور کلام میں تاثیر ، جو اپنی تحریر اور تقریر سے عوام کے دلوں کو موہ لیں، اور جن کے قلم اور زبان ان کے جذبات اور خیالات کی ترجمانی کر سکے۔ اس لئے کہ جو کچھ ان کے منھ سے نکلے گا وہی محاورہ بن جائے گا۔ اور جو کچھ وہ لکھ دیں گے وہی لوگوں کے لئے ٹکسالی زبان قرار پائے گا۔ لیکن ادیب اور شاعر بھی اپنے آپ کو عام لوگوں سے بالکل الگ کرکے ایک نئی زبان نہیں بناسکتے اور اگر بنا بھی لیںتو اسے قبول عام حاصل نہیں ہوسکتا۔ بہت حد تک انہیں تحریر و تقریر کو عوام کے قریب تر لانے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ اس لئے کہ ان کی رہنمائی جبھی موثر ہوسکتی ہے جب ان کی اور عوام کی زبان میں زیادہ بُعد نہ ہو۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر ہم آج کل کے پر آشوب زمانے میں اردو کی سب سے بڑی خدمت یہی کر سکتے ہیں کہ اسے عام فہم بنانے کی کوشش کریں۔ اسے بد لے ہوئے حالاے کے مطابق ایسے سانچے میںڈھالیں کہ جس سے اس کی اصل نوعیت اور ذاتی خوبیاں تو باقی رہیں لیکن بعض ایسے خارجی عناصر کم ہوجائیں جن کی وجہ سے اس میں ایک طرح کی ثقالت اور گرانی پیدا ہوگئی ہے یا دوسرے لفظوں میںہم اردو کو ایک ایسے لباس میں پیش کریں جس سے اس میں پھر وہی دلکشی پیدا ہوجائے جو کسی زمانے میںتھی اور ہندوستانیوں کو پھر اس کا احساس پیدا ہو کہ ہماری زبان یہی ہے، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تودنیا کی کوئی طاقت بھی اردو کو نہیں مٹا سکتی اور نہ کوئی دوسری زبان اس کے بجائے عوام کے دلوں میں گھرکر سکتی ہے۔ اور اگر ہم اسی راستے پر چلتے رہے اور تعصب کے وہ بادل جو ہندوستان کی فضا میں چھائے ہوئے ہیں رفتہ رفتہ چھٹتے گئے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہندی کے اپدیشک اور پر چارک جوآج اردو کو ایک اجنبی زبان سمجھ رہے ہیں یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہی وہ ہندی ہے جس کی جستجو میں ہم سرگرداں تھے

معین احسن ملال سے جذبی تک کاسفر از ڈاکٹرنسرین رئیس خاں

بقول جذبی :

” وہ زمانہ بڑا عجیب تھا، ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ جلسہ ہوتا تھا اور جب کوئی ادبی ہستی علی گڑھ آتی تھی تو اس کے اعزاز میں اس کی نشست ضرور ہوتی تھی۔ ان ادبی جلسوں میں مقالے، افسانے، غزلیں، نظمیں غرض جو بھی ادبی تخلیق پیش کی جاتی تھی ان پر حاضرین بزم دیر تک گفتگو کیا کرتے تھے جن ممتاز ادبی شخصیتوں نے ان جلسوں کو زینت بخشی ان کے نام یہ ہیں۔ حیات اللہ انصاری، اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجیب، قاضی عبد الغفار بابائے اردو مولوی عبد الحق لیکن بد قسمتی سے انجمن کی ادبی فضا باہمی اختلافات کا شکار ہوگئی۔“جذبی شاعری میںاستادی شاگردی کے قائل نہیں ان کا باضابطہ کوئی شاگرد نہیں البتہ انہوںنے اپنے دوستوں کو مشورے دیئے ہیں ان کے کلام پر اصلاح بھی کی ہے۔ مگر وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں کہتے ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے سیاست سے شعر و ادب کو ملا دیا۔ ۸۵۹۱ءمیںجب میرا مجموعہ کلام ”فروزاں“ چھپا تو میں نے اس کے دیباچے میںاپنے خیالات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا اس وقت ترقی پسند تحریک میں شاعر اور ادیب محدود ہوکر رہ گئے تھے۔

جذبی کو اپنے معاصر شعراءمیں مجاز، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین ، مجروح سلطانپوری اور خلیل الرحمن اعظمی کا کلام پسند ہے۔ مجروح سلطانپوری کو وہ اس دورکا سب سے بہتر شاعر سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے ۔

غزل کہنے کا سلیقہ میری نظر میں اگر ہے تو وہ مجروح میں ہے۔ گو کہ مجروح نے کم کہا ہے لیکن اس میں وہ ساری چیزیں سموئی ہیں جو کہ ایک اچھی شاعری میں ہونا چاہئے۔“

اصناف سخن میںجذبی کو غزل زیادہ پسند ہے لیکن وہ نظم کی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ وہ شاعر کی طبیعت کو تخلیق کے مطابق آزاد رکھنا چاہتے ہےں کسی صنف کا اسے پابند نہیں کرنا چاہتے، ان کے نزدیک جذبے اور کسی کیفیت کااظہار کسی وقت ایک ہی مصرع میںہوجاتا ہے اور ایسا بھر پور ہوجاتا ہے کہ دوسرے مصرع کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مثلاً میر کا یہ مصرع

اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزرگئے

یا فیض احمد فیض کی نظم صبح آزادی کا یہ مصرع

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

یہ دونوں مصرعے اپنی اپنی جگہ شاعر کے تجربے کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں،ایک ہی مصرع میںسارا تاثر اس طرح سمٹ آیاہے کہ اس کی وضاحت کے لئے دوسرے مصرعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس بات کی توضیح کے لئے جذبی کے مجموعے کلام ”فروزاں“ کے دیباچہ کا یہ اقتباس کافی ہوگا۔

میں ہنگامی ادب کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ادھر ایک واقعہ ہوا اورادھر ایک نظم تیار ہوگئی۔ یہ اس وقت تو ممکن ہے جب کہ ذہن پہلے سے اس کے لئے تیار ہو بلکہ شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اسی کو ہضم کرنا اور رچانا بچانا بھی کہتے ہیں۔ اس کے لئے بعض اوقات کا فی مدت درکار ہوتی ہے۔ جو حضرات ہضم کرنے اور رچانے بچانے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں ان کے یہاں گہرائی اور گیرائی کے بجائے جذباتیت اور سطحیت کا پیدا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور بات یاد آگئی ، یہ زمانہ سیاسی ہنگاموں کا زمانہ ہے، ہر چھوٹا بڑا شاعر کچھ سیاسی شعور بھی رکھتا ہے لیکن ہمارے بعض ترقی پسند شاعر کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ یہ حضرات اپنی جماعت کی وفاداری کی رو میں صرف وہی دیکھتے اور سوچتے ہیںجو کہ ان کی اپنی جماعت دیکھتی اور سوچتی ہے اس طرح وہ صرف اپنی جماعت کے نقیب بن جاتے ہیں۔

انہیں اس سے غرض نہیں کہ ان کی جماعت کی پالیسی غلط ہے یا صحیح۔ اس رویے سے ایک قسم کا ادبی انتشار پیداہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ۷۴۹۱ءکا زمانہ لیجئے جب ہندوستان آزاد ہوا تھا اس وقت بعض شاعروں نے اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق آزادی کی مدح میں نظمیں لکھی تھیں لیکن چند ماہ بعد جب ان کی جماعت کی پالیسی میں تبدیلی ہوئی تو یہی شاعر ”فریب آزادی“ کے عنوان سے نظمیں کہنے لگے۔ یہ نظمیں پہلی نظموں کی طرح بالکل بے جان تو نہیں تھیں لیکن پڑھنے والے یقینا اس پریشانی میں پڑ گئے کہ پہلی بات درست ہے یا دوسری آزادی کو آزادی سمجھیں یا فریب آزادی۔

میرا خیال ہے کہ اگر وہ ابتدا ہی میںاپنے دل و دماغ سے کام لیتے اور اپنے ذاتی رد عمل پر بھروسہ کرتے تو شاید ہی یہ تضاد پیداہوتا ۔سیاست میں مصلحت کو بہت کچھ دخل ہے۔ لیکن مصلحت پر شعر کی بنیاد تو نہیں رکھی جاسکتی مصلحت جزوی صداقت ہوتی ہے اور شاعری کامل صداقت چاہتی ہے۔ اور اس کامل صداقت ہی سے وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو شعر کی جان ہے۔ مصلحت کی بنا پر جب کبھی کچھ کہا گیا ہے اسے ادب کے بجائے صحافت کے دامن میں جگہ ملی ہے۔

آج کچھ کہنا اور کل اس کی نفی کردینا، صحافت میں تو ممکن ہے مگر شعر ادب میں نہیں۔ شعر و ادب کے لئے ایک مربوط نظام فکر کی ضرورت ہے ایسا نظام فکر جو عقیدہ بلکہ ایمان بن چکا ہو۔ ادھر کچھ عرصہ سے ترقی پسندوں میں ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے جو بڑی حد تک تنگ نظری پر مبنی ہے۔ ہمارے شاعر و ادیب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ حسن و عشق کاذکر ترقی پسندی کے مذہب میں وہ گناہ ہے جو شاید ہی بخشا جائے ۔ ترقی پسندی صرف سیاست کا نام ہے۔ اس کے علاوہ ادب میں جو چیز بھی آئے گی غیر ترقی پسند ہوگی، یہ رجحان اگر جڑ پکڑ گیا تو ہمارے ادیبوں کی دنیا مختصر سے مختصرہوتی چلی جائے گی۔ مانا کہ سیاست بڑی حقیقت ہے۔ لیکن سیاست کا اثر ہماری زندگی کے کسی شعبہ پر نہیں پڑتا جنسی اور معاشرتی مسائل سے سرمایہ داری کے بھیانک چہرے کی نقاب پورے طور سے نہ اٹھ سکے گی ۔رہے حسن و عشق کے خالص انفرادی جذبات سو ان کے متعلق صرف یہ عرض کروں گا کہ ازل سے آج تک یہ دلوں کو گرماتے رہے ہیں اور گرماتے رہیں گے۔

جذبی ہمارے عہد کے بہت ممتاز شاعر و ادیب ہیں۔ وہ خاموش مزاج اور گوشہ نشین شخص ہیں۔ محفلوں میں شرکت اور مباحثوں میں شمولیت ان کے مزاج کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپیاں، ادبی مطالعہ اور فکر و فن سے تعلق رکھتی ہیں۔

انہوں نے ابتدائے عمر سے لے کر اس زمانہ حیات تک زندگی کی راہ پر سفر کیا ہے۔ اس میں وہ قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کہیے کہ وہ چراغ جلاتے ہوئے گزرے ہیں یہ ان کی شاعرانہ فکر و نظر کے چراغ ہیں۔ان کی ادبی سوچ اور تخلیقی حسیت پر ان کی اپنی تعلیم و تربیت وسائل معاش اور طرز معاشرت کا بھی اثر پڑا ہے کہ وہ بھیڑ کے ساتھ رہنے والوں میں نہیں ہیں۔ شروع ہی سے انہوں نے اپنی شناخت الگ قائم کی۔ اپنے دور کی عصری آگہی اور شعر و شعور سے تو کوئی شاعر بھی بے نیاز انہ نہیں گزر سکتا تو جذبی کیسے گزرتے۔ انہوں نے جوش، اقبال، حالی، اور حسرت غرضیکہ ان تمام ممتاز شخصیتوں کاایک گونہ اثر قبول کیا جو ان کے دور کے اہم حوالوں میں شامل تھے۔ حالی گزر چکے تھے لیکن حالی کا مطالعہ دیر تک اور دور تک رہنما روشنی کے طو ر پر ان کے ساتھ رہا۔

میر کا اثر بھی انہوں نے قبول کیا۔ ان کے لہجے کی نرمی، طبیعت کی درد مندی اور دوسروں سے الگ رہنے کا رویہ یوں بھی ان کو میر سے قریب لے آتا ہے۔ ان کی زندگی میں میر کی طرح ناکامیاں اور جذباتی یا حسیاتی سطح پر نا مرادیاں کچھ زیادہ شامل رہیں۔ جن کی وجہ سے ان کی زندگی کا سوز و گداز ان کی غزل میں شامل ہوگیا اگر چہ وہ فانی کے انداز میں اپنی کسی محرومی پر ماتم کرتے نظر نہیں آتے۔ شروع میں انہوں نے ملال تخلص اختیار کیا۔ وہ بھی ان کی الم پسندی کی نشاندہی کرتا ہے یہ سوز حیات ان کے یہاں ساز حیات بھی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے غم کے اندھیروں میںاپنے شوق وذوق ، اپنے جذبے، اپنے حوصلے اور اپنی انفرادی شخصیت کا قدم قدم پرسہارا لیا ہے جو شعور حیات کے بغیر ممکن نہیں اور اسی نے ان کے شاعرانہ لہجے کو زیادہ حسین و دل آویز بنایا ہے۔

جذبی کی زندگی ان کے ذہن ان کی تہذیبی فکر اور ادبی حسیت پربہت کم لکھا گیا ہے کہیں کہیں کچھ تعارفی تحریریں یا نیم تنقیدی اور نیم تحسینی مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ بھی خال خال جو جذبی کی شخصیت کے ساتھ ادبی نا انصافی ہے۔

راقمہ نے جذبی کو جب اپنے خصوصی مطالعے کے لئے انتخاب کیا تو کچھ باتیں پہلے سے بھی ذہن میں تھیں۔ خاص طور پر ان کا یہ حوصلہ کہ انہوں نے کبھی بھی زمانے سے شکست نہیں کھائی۔ وہ عملی زندگی میں بھی اپنے سہارے پر کھڑے رہے اور ادبی سفر میں بھی ان کے سامنے بہت سے موڑ آئے لیکن انہوں نے وقتی طور پر کسی سے کوئی تاثر قبول کرکے اپنی راہ عمل کا کوئی ایسا تعین نہیں کیا جس کے بعد وہ کسی گروہ سے وابستہ ہوجاتے اور اس کی ادبی تائید اور تحسین کے ساتھ ان کی شخصی امیج میں کوئی اضافہ ہوتا۔ ان کے اپنے قدم اپنی ہی زمین پررہے اور زندگی کی راہ انہوں نے اپنے ہی قدموں سے چل کرطے کی۔

مجھے ان کے لب و لہجے میں جو غزلیت کا عنصر ملا ۔اس میں سادگی سنجیدگی اور اثر آفرینی زیادہ دل کو لبھانے والی بات تھی اور بہت سے انسان ایسے ہوں گے جو میری ہی طرح ان کے لہجے میںاپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہوں گے کہ آخر زندگی اس کے ناروا سلوک اور ناسازگار ماحول میں خود کواگر زندہ رکھا جائے تو کیسے اور اپنی شخصیت پر اعتماد کا اظہار کیا جائے تو کس طرح ۔

جذبی اپنے زمانے کے بہت سے ذہین ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کے دوست رہے ہیں، جس زمانے میں بہت سی اچھی شخصیتیں جمع ہوں اس دور میں اپنی انفرادیت کوقائم رکھنا ایک بڑی بات ہے۔ راقمہ نے جذبی کو ان کے کلام کی اسی روشنی میں دیکھا اور پرکھنے کی سعی کی ہے۔

ان کی زندگی اور اس کے مختلف مدارج جس میں تعلیم و تربیت خانگی حالات خاندانی کوائف ملازمت کا دور دوستی، ہمدردی، خلوص، اتفاق اور نا اتفاقی سبھی چیزیں شامل ہیں، ان سے متعلق معلومات کے لئے راقمہ نے دوبارعلی گڑھ کا سفر کیا ۔جذبی صاحب سے باتیں کی اور جو کچھ وہ فرماتے اور مختلف سوالوں کے سلسلے میں وضاحت کرتے رہے،ان سب کو ریکارڈ کیا۔ تاکہ جب میںاس پر لکھنے کے لئے بیٹھوں تو میری زبان قلم پر آنے والے الفاظ زیادہ تر جذبی صاحب کے اپنے الفاظ ہوںاور جو بات جس لہجے میں کہی گئی ہے میںاس کو اسی ماحول اور پس منظر میں سمجھ سکوں۔

اس کے لئے میں نے مختلف وقتوں میں اپنے اساتذہ سے بھی باتیں کیں ان میںزیادہ تر وہ دانشور تھے جو جذبی صاحب کو جانتے تھے۔ ان کے طالب علم رہ چکے تھے۔ یا دوست تھے۔ میں نے جذبی صاحب کی بہت سی تحریروں کو پڑھا جن تک میری رسائی ہوئی اور اپنا بہت سا وقت ان شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کے مطالعہ میں گزارا جو جذبی صاحب کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ ترقی پسند تحریک اور اس سے وابستہ ممتاز شاعر بھی آجاتے ہیں۔

غزل جذبی تک پہونچنے سے پہلے حالی سے اقبال تک یا پھر یہ کہئے کہ فیض و فراق تک اپنا سفر حیات طے کر چکی تھی۔ اس میں جذبی بھی آکر شامل ہوگئے۔ اسی طرح جب ہم جذبی کی نظم پر غورکرتے ہیں تو اس میں جدید اردو نظم کی راہ ارتقا کے کئی موڑ ملتے ہیں اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتی جدید غزل کا مطالعہ نو کلاسیکی غزل کے مطالعہ کے بغیر نا مکمل کہا جاسکتا ہے۔ اسی لئے راقمہ نے اس میں لکھنو کے ان اساتذہ کو بھی شامل کیا جنہوںنے اس صدی کے نصف اول میں غزل کو نئے رنگ آہنگ سے آشنا کیا ہے۔