Friday, January 22, 2010

Links about shoukat Siddiqi

http://en.wikipedia.org/wiki/Shaukat_Siddiqui
http://istaara0.tripod.com/id53.html
http://www.urdupoint.com/adab/books-mazmoon/Jangloos.shtml
http://www.dukandar.com/khudakibastibook.html
http://en.wikipedia.org/wiki/Jangloos
http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%D9%88%DA%A9%D8%AA_%D8%B5%D8%AF%DB%8C%D9%82%DB%8C
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/1738_likhari_sen/
http://daily.urdupoint.com/Live-News.php?news_id=15797&featured=1&cat_id=2
http://www.millat.com/news.php?id=8072

Sunday, January 17, 2010

پنے دُکھ مجھے دے دو

پنے دُکھ مجھے دے دو
راجندر سنگھ بیدی
نئی بھائی آئی کہنے کو تو وہ بھی بیوی تھی۔ لیکن اندو ایک عورت تھی۔جسے بیوی کہتے ہیں۔ اس کے الٹ چھوٹی بھابھی رانی ایک بیوی تھی جسے عورت کہتے ہیں۔ رانی کے کارن بھائیوں میں جھگڑا ہوا اور جے پی چاچا کی معرفت جائیداد تقسیم ہوئی جس میں ماں باپ کو جائیداد تو ایک طرف اندو کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں بھی تقسیم کی زد میں آگئیں اور اندو کلیجہ مسوس کر رہ گئی۔ جہاں سب کچھ ہوجانے کے بعد اور الگ ہو کر بھی کندن اور رانی ٹھیک سے نہیں بس سکے تھے۔ وہاں اندو کا نیا گھر دنوں ہی میں جگ مگ جگ مگ کر نے لگا تھا۔ بچی کی پیدائش کے بعد اندو کی صحت وہ نہ رہی۔ بچی ہر وقت اندو کی چھاتیوں سے چمٹی رہتی۔ جہاں سبھی گوشت کے اس لوتھڑے پر تھو تھو کرتے تھے وہاں ایک اندو تھی جو اسے کلیجے سے لگائے پھرتی لیکن کبھی خود پریشان ہو اٹھتی۔ اور بچی کو سامنے جھلنگے میں پھینکتے ہوئے کہہ اٹھتی۔ ”تو مجھے بھی جینے دے گی....ماں....؟“ اور بچی چلا چلا کر رونے لگتی۔ مدن اندو سے کٹنے لگا۔ شادی سے لے کر اس وقت تک اسے وہ عورت نہ ملی تھی جس کا وہ متلاشی تھا۔ گندہ بروزہ بکنے لگا۔ اور مدن نے بہت سا روپیہ اندو سے بالا بالا خرچ کرنا شروع کر دیا۔بابو جی کے چلے جانے کے بعد کوئی پوچھنے والا بھی تو نہ تھا۔ پوری آزادی تھی۔ گویا پڑوسی سبطے کی بھینس پھر مدن کے منہ کے پاس پھنکارنے لگی۔ بلکہ بار بار پھنکارنے لگی۔ شادی کی رات والی بھینس تو بک چکی تھی۔ لیکن اس کا مالک زندہ تھا۔ مدن اس کے ساتھ ایسی جگہوں پر جانے لگا جہاں روشنی اور سائے عجیب بے قاعدہ سی شکلیں بناتے ہیں۔ نکڑ پر بھی کبھی اندھیرے کی تکون بنتی ہے اور اوپر کھٹ سے روشنی کی ایک چوکور لہر آکر اسے کاٹ دیتی ہے۔ کوئی تصویر پوری نہیں بنتی۔ معلوم ہوتا ہے بغل سے ایک پاجامہ نکلا اور آسمان کی طرف اڑ گیا۔ یا کسی کوٹ نے دیکھنے والا کا منہ پوری طرح سے ڈھانپ لیا۔ اور کوئی سانس کے لئے تڑپنے لگا۔ جبھی روشنی کی ایک چوکور لہر ایک چوکٹھا بن گئی۔ اور اس میں ایک صورت آکر کھڑی ہو گئی۔ دیکھنے والے نے ہاتھ بڑھایا تو وہ آر پار چلا گیا۔ جیسے وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پیچھے کوئی کتا رونے لگا۔ اوپر طبل نے اس کی آواز ڈبو دی۔ مدن کو اس کے تصور کے خدو خال ملے لیکن ہر جگہ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے آرٹسٹ سے ایک خط غلط لگ گیا۔ یا ہنسی کی آواز ضرورت سے زیادہ بلند تھی اور مدن.... داغ صناعی اور متوان ہنسی کی تلاش میں کھو گیا۔۔ سبطے نے اس وقت اپنی بیوی سے بات کی جب اس کی بیگم نے مدن کو مثالی شوہر کی حیثیت سے سبطے کے سامنے پیش کیا۔ پیش ہی نہیں کیابلکہ منہ پہ مارا۔ اس کو اٹھا کر سبطے نے بیگم کے منہ پر دے مارا۔ معلوم ہوتا تھا کسی خونین تربوز کا گودا ہے جس کے رگ و ریشے بیگم کی ناک اس کی آنکھوں اور کانوں پر لگے ہوئے ہیں۔ کروڑ کروڑ گالی بکتی ہوئی بیگم نے حافظے کی ٹوکری میں سے گودا اور بیج اٹھائے اور اندو کے صاف ستھرے صحن میں بکھیر دئیے۔ ایک اندو کی بجائے دو اندو ہو گئیں۔ ایک تو اندو خود تھی اور دوسری ایک کانپتا ہوا خط جو اندو کے پورے جسم کا احاطہ کیے ہوئے تھا اور جو نظر نہیں آرہا تھا.... مدن کہیں بھی جاتا تھا تو گھر سے ہو کر.... نہا دھو، اچھے کپڑے پہن، مگھئی کی ایک گلوری جس میں خوشبودار قوام لگا ہو، منہ میں رکھ کر.... لیکن اس دن مدن گھر آیا تو اندو کی شکل ہی دوسری تھی۔ اس نے چہرے پر پوڈر تھوپ رکھا تھا۔ گالوں پر روج لگا رکھی تھی۔ لپ اسٹک نہ ہونے پر ہونٹ ماتھے کی بندی سے رنگ لئے تھے.... اور بال کچھ اس طریقے سے بنائے تھے کہ مدن کی نظریں ان میں الجھ کر رہ گئیں۔ ”کیا بات ہے؟“ آج مدن نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”کچھ نہیں“ اندو نے مدن سے نظریں بچاتے ہوئے کہا۔ ”آج فرصت ملی ہے۔“ شادی کے پندرہ بیس برس گزر جانے کے بعد اندو کو آج فرصت ملی تھی اور وہ بھی اس وقت جب چہرے پر جھائیاں آ چلی تھیں۔ ناک پر ایک سیاہ کاٹھی بن گئی تھی اور بلاو ز کے کے نیچے ننگے پیٹ کے پاس کمر پر چربی کی دو تہیں سی دکھائی دینے لگی تھیں.... آج اندو نے ایسا بندوبست کیا تھا کہ ان عیوب میں سے ایک بھی چیز نظر نہ آتی تھی.... یوں بنی ٹھنی۔ کسی کسائی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی.... ”یہ نہیں ہو سکتا....“ مدن نے سوچا اور اسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس نے پھر ایک بار مڑ کر اندو کی طرف دیکھا .... جیسے گھوڑوں کے بیوپاری کسی نامی گھوڑی کی طرف دیکھتے ہیں.... وہاں گھوڑی بھی تھی اور لال لگام بھی.... یہاں جو غلط خط لگے تھے، شرابی آنکھوں کو نہ دیکھ سکے.... اندو سچ مچ خوبصورت تھی۔ آج بھی پندرہ سال کے بعد پھولاں، رشیدہ، مسز رابرٹ اور ان کی بہنیں ان کی بہنیں ان کے سامنے پانی بھرتی تھیں.... پھر مدن کو رحم آنے لگا اور ایک ڈر.... آسمان پر کوئی خاص بادل بھی نہ تھے۔ لیکن پانی پڑنا شروع ہو گیا۔ ادھر گھر کی گنگا طغیانی پر تھی اور اس کا پانی کناروں سے نکل نکل کر پوری ترائی اور اس کے آس پاس بسنے والے گاو ں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسی رفتار سے اگر پانی بہتا رہا تو اس میں کیلاش پربت بھی ڈوب جائے گا....ادھر بچی رونے لگی۔ ایسا رونا جو وہ آج تک نہ روئی تھی۔ مدن نے اس کی آواز سن کر آنکھیں بند کرلیں۔ کھولیں تو وہ سامنے کھڑی تھی۔ جوان عورت بن کر.... نہیں نہیں، وہ اندو تھی، اپنی ماں کی بیٹی، اپنی بیٹی کی ماں۔ جو اپنی آنکھوں کے دنیالے سے مسکرائی۔ اور ہونٹوں کے کونے سے دیکھنے لگی۔ اسی کمرے میں جہاں ایک دن ہرمل کی دھونی نے مدن کو چکرا دیا تھا۔ آج جس کی خوشبو نے بوکھلا دیا تھا۔ ہلکی بارش تیز بارش سے خطرناک ہوتی ہے۔ اس لئے باہر کا پانی اوپر کسی کڑی میں سے رستا ہوا اندو اور مدن کے بیچ ٹپکنے لگا.... لیکن مدن تو شرابی ہو رہا تھا۔ اس نشے میں اس کی آنکھیں سمٹنے لگیں اور تنفس تیز ہو کر ا نسان کا تنفس نہ رہا۔ ”اندو....“ مدن نے کہا۔ اور اس کی آواز شادی کی رات والی پکار سے دو سر اوپر تھی.... اور اندو نے پرے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”جی “ اور اس کی آواز دو سر نیچے تھی....پھر آج چاندنی کی بجائے اماو ¿س تھی.... اس سے پہلے کہ مدن اندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا۔ اندو خود ہی مدن سے لپٹ گئی۔ پھر مدن نے ہاتھ سے اندو کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اوردیکھنے لگا۔ اس نے کیا کھویا، کیا پایا ہے؟۔ اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے کی طرف پھینکی اور آنکھیں بند کرلیں۔ ”یہ کیا؟“ مدن نے چونکتے ہوئے کہا۔ ”تمہاری آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔“ ”یوں ہی“ اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ”رات بھر جگایا ہے اس چڑیل میا نے۔“ بچی اب تک خاموش ہو چکی تھی۔ گویا وہ دم سادھے دیکھ رہی تھی۔ اب کیا ہونے والا ہے؟ آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا؟ واقعی آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا۔ مدن نے پھر غور سے اندو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”ہاں مگر یہ آنسو؟“ ”خوشی کے ہیں“ اندو نے جوا ب دیا۔ آج کی رات میری ہے۔ اور پھر ایک عجیب سی ہنسی ہنستے ہوئے وہ مدن سے چمٹ گئی۔ ایک تلذذ کے احساس سے مدن نے کہا۔ ”آج برسوں کے بعد میرے من کی مراد پوری ہوئی اندو! میں نے ہمیشہ چاہا تھا....“ ”لیکن تم نے کہا نہیں۔“ اندو بولی۔ ”یاد ہے شادی والی رات میںنے تم نے سے کچھ مانگا تھا؟“ ”ہاں!“ مدن بولا۔ ”اپنے دکھ مجھے دے دو۔“ ”تم نے کچھ نہیں مانگا مجھ سے....“ ” میں نے ؟“ مدن نے حیران ہوتے ہوئے کہا ”میں کیا مانگتا؟ میں توجو کچھ مانگ سکتا تھاوہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیار، ان کی تعلیم، بیاہ شادیاں.... یہ پیارے پیارے بچے.... یہ کچھ تو تم نے دے دیا۔“ ”میں بھی یہی سمجھتی تھی۔“ اندو بولی ”لیکن اب جا کر پتہ چلا، ایسا نہیں۔“ ”کیا مطلب؟“ ”کچھ نہیں۔“ پھر اندو نے رک کر کہا۔ “ میں نے بھی ایک چیز رکھ لی۔“ ”کیا چیز رکھ لی؟“ اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کرتے ہوئے بولی ”اپنی لاج.... اپنی خوشی.... اس وقت تم بھی کہہ دیتے.... اپنے سکھ مجھے دے دو.... تو میں....“ اور اندو کا گلا رندھ گیا۔ اور کچھ دیر بعد بولی۔ ”اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔“ مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ زمین میں گڑ گیا۔ یہ ان پڑھ عورت ؟.... کوئی رٹاہوا فقرہ....؟ نہیں تو .... یہ تو ابھی ہی زندگی کی بھٹی سے نکلا ہے۔ ابھی تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں اور آتشیں برادہ چاروں طرف اڑ رہاہے.... کچھ دیر بعد مدن کے ہوش ٹھکانے آئے اور بولا۔ ”میں سمجھ گیا اندو“ پھر روتے ہوئے مدن اور اندو ایک دوسرے سے لپٹ گئے.... اند و نے مدن کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایسی دنیاو ں میں لے گئی جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔