Wednesday, June 9, 2010

اُردو کے شیدائی کا نیا تحفہ


عارف وقار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
تقسیمِ ہند کے وقت اُردو زبان، جِسے سیکولر روایت کے تحت ہندوستانی کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا، سارے ہندوستان کی لِنگوا فرانکا تھی، یعنی مختلف بولیاں بولنے والوں کی اکثریت اُردو کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ یہاں اس دلچسپ بات کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ انگریزوں کو اُردو سکھانے کے لیے گراہم بیلی نے جو معروف کتاب مرتب کی تھی اسکا اصل عنوان تھا: Teach yourself Hindustani لیکن اب یہی کتاب Teach yourself Urdu کے نام سے دستیاب ہے۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں اُردو کو سرکاری اور قومی سرپرستی حاصل ہوگئی لیکن بھارت میں اُردو کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے اہلِ اُردو کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ اُن کے سامنے سب سے اہم مرحلہ اس تاثر کو ختم کرنا تھا کہ اُردو توعربی اور فارسی بولنے والے غیر ملکی حملہ آوروں کی زبان تھی، چنانچہ لسانیاتی تحقیق کی بنیاد پر بار بار اس نکتے کو واضح کیا گیا کہ اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، اسکا قواعدی ڈھانچہ تمام تر مقامی ہے، اسکے مفرد افعال سب مقامی ہیں اور اسکے جملے کی ساخت عین وہی ہے جو ہندی جملے کی ہوتی ہے۔ اردو محض ایک زبان نہیں اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے۔ یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک طریقہ و سلیقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایسا روشن استعارہ ہے جسکی کوئی دوسری مثال کم از کم برِصغیر کی زبانوں میں نہیں ہے گوپی چند نارنگ پاکستان میں حاکم طبقوں کو چونکہ اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اردو کو ایک مقامی زبان ثابت کیا جائے، بلکہ عربی اور فارسی سے اردو کے گہرے روابط کا تذکرہ اُن کے تصورِ حاکمیت کو مستحکم کرنا تھا، چنانچہ پاکستان میں چالیس پچاس برس تک نہ تو اُردو پر کوئی سنجیدہ لسانیاتی تحقیق ہوئی اور نہ ہی لسانیات کو بالعموم ایک سائنس کے طور پر پڑھنے پڑھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ آج بھی سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے علمی رسائل میں عربی کو اُمّ الالسنہ (تمام زبانوں کی ماں) اور اردو کو عربی اور فارسی کی بیٹی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ گزشتہ نصف صدی سے اُردو کے محاذ پر یوں سر گرم ہیں جیسے کوئی جانباز سپاہی اپنے وطنِ عزیز کی سرحد پر سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑا ہو اور مخالف جانب سے آنے والے ہر وار کو اپنے سینے پہ سہ رہا ہو۔ پچھلے پچاس برس سے اُردو ہی انکا اوڑھنا بچھونا ہے اور مولوی عبدالحق کے بعد اگر کسی کو صحیح معنوں میں اردو کا دیوانہ کہا جاسکتا ہے تو شاید وہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہی کی شخصیت ہے۔ اُردو سے انکے عشق کا دعویٰ کسی مجذوب کی بڑ نہیں بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے کیونکہ وہ اُردو کو محض ایک زبان نہیں سمجھتے بلکہ اس سے کہیں زیادہ اونچا درجہ دیتے ہیں۔ ایک جگہ خود لکھتے ہیں: ’اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے۔ یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک طریقہ و سلیقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایسا روشن استعارہ ہے جسکی کوئی دوسری مثال کم از کم برِصغیر کی زبانوں میں نہیں ہے۔‘ گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں گوپی چند نارنگ ایک محقق، ادیب، دانشور، ماہرِ لسانیات، مُدّرس، ماہرِ تعلیم، ادبی نقاد، معاشرتی مُبصّراور پاک و ہند کے مابین ایک سفیرِ امن کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ اُن کی ادبی اور علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں ہند سرکار نے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا اور وہ کئی سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر فائز بھی رہے جن میں ساہتیہ اکادمی کی صدارت جیسا اعلیٰ اعزاز بھی شامل ہے، لیکن گوپی چند نارنگ کو خود اپنی جس شناخت پہ فخر ہے وہ محض اُردو کے ایک شیدائی کی ہے۔ اُردو زبان اور ادب کے منفرد پہلوؤں پر اُن کی گوناں گوں تحریریں پاک و ہند کے مختلف رسائل و جرائد میں بکھری پڑی تھیں لیکن اب دوستوں، مداحوں اور شاگردوں کے اصرار پر انھوں نے پچاس برس کے عرصے پر پھیلے ہوئے اس علمی و ادبی سرمائے میں سے چیدہ چیدہ مضامین علیحدہ کر کے انھیں ایک کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے، پاکستان میں اس علمی مواد کے حقوق سنگِ میل پبلی کیشنز نے حاصل کر کے یہاں سے بھی کتاب جاری کر دی ہے جو کہ پچیس منتخب مضامین پر مشتمل ہے۔ نارنگ صاحب اس نقطہ نظر کے سخت مخالف رہے ہیں کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن یا دیوناگری کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اُن کا اولین مضمون ستمبر 1961 میں دہلی کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا جو کہ بعد میں حوالے کی ایک دستاویز بن گیا اور کئی کتابوں میں اس کے اقتباسات استعمال ہوئے۔ یہ مکمل مضمون اب گوپی چند نارنگ کی کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ میں شامل کر لیا گیا ہے پہلے حصّے کے سات مضامین کا تعلق اُردو کی لسانی ساخت اور ہندی سے اسکے قریبی رشتے سے ہے۔ اس حصّے کا مضمون اُردو کے افعالِ مرکبہ خاص طور پر لائقِ توجہ ہے جس میں مصنف نے پِیڑ ہُک کے کام (Compound verb in Hindi) کو آگے بڑھایا ہے اور دو کی بجائے اِن مرکب افعال کو پانچ تفصیلی زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصّے کا تعلق املا اور رسم الخط سے ہے جو کہ مصنف کا محبوب موضوع ہے اور وہ برسوں تک ترقی اردو بورڈ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی املا کمیٹی کے سرگرم رکن بھی رہے ہیں۔ نارنگ صاحب اس نقطہ نظر کے سخت مخالف رہے ہیں کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کر کے رومن یا دیوناگری کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اُن کا اولین مضمون ستمبر 1961 میں دہلی کے ایک رسالے میں شائع ہوا تھا جو کہ بعد میں حوالے کی ایک دستاویز بن گیا اور کئی کتابوں میں اس کے اقتباسات استعمال ہوئے۔ یہ مکمل مضمون اب گوپی چند نارنگ کی کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کتاب کے تیسرے حصّے میں احتشام حسین، دتاتریہ کیفی اور فرمان فتح پوری کی لسانی خدمات کا ذکر ہے اور چوتھے حصّے میں کُل ہند اردو کانفرنسوں کا احوال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دہلی کی کرخنداری بولی کا لسانی تجزیہ، کربل کتھا کی زبان اور ریاست بہار کے اس مستحسن اقدام پر اظہارِ خیال ہے کہ اُردو کو دوسری ریاستی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ کتاب کا آخری حصّہ خالص لسانیاتی اور تکنیکی موضوعات کےلیے وقف ہے جس میں پہلی بار اردو آوازوں کی مختصر ترین اِکائیوں کو صوتیات کے محدّب عدسوں تلے لا کے جانچا پرکھا گیا ہے اور اسطرح اردو آوازوں کے سپکٹروگرام بھی پہلی مرتبہ معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ اس حصّے کے آخری دو مضامین میں اُردو کی ہائیہ اور ُغنّہ آوازوں پر بحث کی گئی ہے اور ڑ / ڑھ کی مخصوص اردو ۔ ہندی آوازوں کو لیبارٹری کی میز پر رکھ کر ماہرِ صوتیات کی چِمٹی سے الٹ پلٹ کر دیکھا گیا ہے۔ جہاں گوپی چند نارنگ خود کو اس امر پہ مبارک باد دیتے ہیں کہ انھیں گیسوئے اُردو سنوارنے کی سعادت میں حصّہ نصیب ہوا، وہیں یہ اردو زبان کی بھی خوش قسمتی ہے کہ اسے تکنیکی کِیل کانٹے سے لیس ایک ایسا تجزیہ کار میسر آگیا جو اسکی صوتیاتی نزاکتوں اور اِملائی نفاستوں کو دنیا بھر کے علمائے النسہ کے سامنے فخر سے پیش کر سکتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کے مضامین پر مشتمل کتاب ’اُردو زبان اور لسانیات‘ یقیناً پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گی اور شاید یہ لسانی تحقیق کے اُس تالاب میں ایک پتھر کی طرح گرے جسکا بند پانی برسوں سے کسی ہل چل کا متمنی ہے۔

میر کی غزل کا ایک عروضی مطالعہ


کمال احمد صدیقی
موسیقی میں سروں کی جو اہمیت ہے وہی شاعری میںآہنگ اور نظام کی آہنگ ہے۔ سروں کا وجود شاستر یہ سنگیت کلاسیکی موسیقی پر ماتقدیم زمانی رکھتا ہے اور شاعری ، عروض کے وجود سے بلکہ عروض کے تصور سے قدیم تر ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شاعری سے مراد، وہ شاعری ہے جو فنون لطیفہ کے زمرے میں آتی ہے منطقی جسے کلام مخیل کہتے ہیں اور شاعری مراد لیتے ہیں وہ مختلف اصطلاح ہے۔ اگر چہ ادبی تنقید میں فنون لطیفہ والی شاعری اور منطقیوں والی شاعری کا خلط، ملط مبحث کی حد تک ہوا ہے۔ یہ سلسلہ شبلی سے شروع ہوتا ہے جنہیں ان کے ایک عقیدت مند نے ہندوستانیوں میں پہلا یونانی ہونے کا اعزاز دیا ۔ خلیل ابن احمد فراہیدی کا سال ولادت ۵۰۱ ہجری مانا جاتا ہے کلاسیکی عربی شاعری دور جاہلیہ میں اپنے عروج پر تھی ،حرکات و سکنات کی ترتیب سے خلیل نے آہنگوں کو نظام بند کیا ، دائرے وضع کئے ، افاعیل میں زحاف اور علل کے طریقے اور اصول مقرر کئے اور اس کے لئے جلیل القدر شعراءکا کلام اور ان کا طریق سامنے رکھا۔ جس طرح عربی شاعری ، عربی موسیقی کے آہنگوں پر استوار ہوئی اسی طرح فارسی شاعری، فارسی موسیقی کے آہنگوں سے جڑی ہوئی ہے۔ خلیل کا عروض، فارسی شاعروں نے جوں کا توں نہیں اپنایا ۔اپنے تیرہ زحاف اور وضع کئے۔ اگر چہ فارسی نے عربی الفاظ کا بڑا ذخیرہ دخیل الفاظ کے طور پر اپنا لیا، لیکن عربی اور فارسی زبان السنہ کے دو مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے مزاج مختلف تھے فارسی شعرا نے عروض میں قطع و برید کی۔ عربی سامی زبان ہے اور فارسی آریائی زبان ہے۔ اردو بھی ہند آریائی ہے، کیونکہ آریا قبائل تخت جمشید اور شروان کے علاقوں سے آئے تھے۔ اس لئے اردو نے فارسی عروض اپنا لیا۔ عربی کے سارے لفظ اگر فارسی سے نکال دیئے جائیں تو فارسی ترسیل اور ابلاغ کی زبان نہیں رہے گی لیکن لسانی عصبیت ایک ایسا رویہ ہے جس پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔ فردوسی جیسے شاعر نے تطہیر کی تحریک چلائی اورناکامی اس کے ہاتھ آئی اور تو اور غالب جو اپنے اجداد کی زبان ترکی بتاتے تھے قدیم فارسی، بے آمیزش عربی میں دستنبور لکھنے بیٹھے اور دساتیر کے فرضی الفاظ عبارت آرائی میں استعمال کئے لیکن اس میں ملکہ وکٹوریہ کا جو قصیدہ شامل کیا ہے اس میں عربی لغات سے پرہیز نہیں ہے۔ بہر کیف اردو نے خلیل بصری کا عروض اسی روپ میںاپنایا، جو ایران میں نکھرا تھا ۔ اردو نے عروض کی دو فارسی کتابوں پر تکیہ کیا۔ ایک معیار الاشعار جو اپنے عہد کے عبقری خواجہ نصیر الدین محقق سے منسوب ہے۔اس پر مفتی سعد اللہ مراد آبادی نے حاشیوں کی صورت میں شرح لکھی تھی ۔محقق طوسی سے منسوب کتاب مفتی سعد اللہ کی کتاب افکار المیزان کے ساتھ ہے اور پچھلی صدی کے چوتھے دہے میںاسی سے ابا مرحوم (ڈاکٹر محمداحمد صدیقی)نے سبقاً سبقاً اس حقیر فقیر کو عروض پڑھایا تھا۔ دوسری اہم فارسی کی کتاب حدائق البلاغت ،شمس الدین فقیر کی ہے۔ جس کا چلن ہندوستان میں تھا، اس کا اردو ترجمہ امام بخش صہبائی نے کیا تھا۔ غالب کے شاگرد قدر بلگرامی نے اہم اور مفصل کتاب قواعد العروض لکھی جس میں ہندی عروض کا بھی احاطہ کیا ہے لیکن اردو میں جس کتاب نے سب سے زیادہ شہرت پائی وہ حکیم نجم الغنی نجمی کی کتاب بحر الفصاحت ہے۔ پچھلی صدی میں کئی قابل ذکر اور ناقابل ذکر کتابیں عروض پر لکھی گئیں ، دوکتابیں ایک مرکزی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر کے قلم سے ہیں۔ ان میں نادرست اور نا پختہ مفروضوں کے علاوہ سرقے کی بھی واضح مثالیں ہیں۔ ایک کتاب میں ایک باب خدائے سخن میر تقی میر کی ایک غزل کے عروضی تجزیے کےلئے وقف ہے یہ دیوان اول کی غزل نمبر ۱۰۳ ہے۔ کتاب کا نام ہے مسلمات فن ۔ تجھ عشق میں مرنے کو تو طیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں اک زخم کو میں ریزہ الماس سے چیرا دل پر ابھی جراحت نوکار بہت ہیں کچھ انکھڑیاں ہی اس کی نہیں اک بلا، کہ بس دل دیکھ زینہاردیکھ خبردار بہت ہیں بیگانہ، خو، رقیب سے وسواس کچھ نہ کر فرمادے کچھ زباں سے تو پھر گرفتار بہت ہیں کوئی تو زمزمہ کرے میرا سا دل خراش یوں تو قفس میں اور یار بہت ہیں میر تقی میر نے یہ غزل مضارع کے ایک بہت مقبول آہنگ میں کہی۔ بنیادی ارکان یہ ہیں: مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن (شعر میں دو بار) پہلارکن مفاعیلن ،خرم سے م کٹ جانے اور کفّ سے آخرکا نون گر جانے کے بعد مفعول رہ گیا۔ دوسرا رکن فاع لاتن کا نون کفّ سے کٹ کر فاعلات ہوا۔فاع لات ہوا۔ تیسرا رکن مفاعیلن کا نون کف سے کٹ جانے کے بعد مفاعیل رہا۔اور چوتھا رکن پہلے مصرعوں میں کہیں قصر کے عمل کے بعد فاعلان ہوا اور کہیں حذف کے عمل کے بعد فاعلن ہوا۔ (یہ عروض ہے)اور دوسرے مصرعوں میں آخری رکن ، یعنی ضرب فاعلن ہے تو شعر کا آہنگ یہ ہے: مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن فاع لان مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن لیکن معترض نے غزل کے شعر ہزج میں، یعنی مفاعیلن کے مزاحف آہنگ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن فعولان میں پڑھنے کی تکلیف دہ سعی بلیغ کی۔ مطلع اس آہنگ میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں یہاں یہ عرض کردیاجائے کہ کلیات میر میں طیار ،ط سے ہے۔ لیکن معترض نے اپنی کتاب میں میر کے عروضی تصرفات کے تحت ص ۳۹ تیار، ت سے تحریر فرمایا ہے۔ کتابت خود مصنف نے کی ہے اور مطلع کا پہلا مصرع یہ لکھا ہے تجھ عشق میں مرنے کو تیار بہت ہیں مرنے سے پہلے ’تو‘ نہیں لکھا گیا ہے اور اسی نادر ست مصرع کی تقطیع مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کے بجائے تسکین اوسنط کی کاری گری سے مفعول مفاعیلن مفعولن فعولن ارکان سے کی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ میر کے اشعار میر کے کلیات دیوان میں دیکھنے کی زحمیت نہیں کی گئی۔ دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں ردیف بہت ہیں کے بجائے بہت ہے نقل کی گئی ہے اور تیسرے شعر کی ردیف بہت ہیں کے بجائے نہیں ہے نقل کی گئی ہے۔ دوسرے شعر یعنی مطلع کے بعد کے شعر پر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ پہلا مصرع مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن کے وزن پر ہے اور دوسرے مصرع کے بارے میں ”یہ مصرع دوسرے وزن میں چلا گیا“ اور تیسرے شعر کے بارے میں فیصلہ ہے: ”مصرع اولی بحر مضارع ث مثمن اخرب مکفوف محذوف میں ہے۔ چونکہ بحر بدل گئی لہٰذا غزل ناموزون ۔“ اس سے تسکین نہیں ہوئی۔ ص ۳۹ پر یہ عبارت بھی بہ قلم مصنف ہے: ”غلط قسم کے تصرفات ہمیشہ غلط ہی رہتے ہیں ایسے مقام پر جو اصحاب میر سے مرعوب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ (آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں)محض جوش عقیدت کا نتیجہ نہیں ہے ان لوگوں کے سامنے میر کا یہ مصرع آجاتا ہے مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ ہمیں میر کی عظمت سے ہرگز انکار نہیں، لیکن قاعدہ عروض کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت ضرور رکھتے ہیں کہ ناموزوں کلام ناموزوں ہے۔ میر کے اور اشعار بھی ایسے ہیں جو پیمانہ عروض پر پورے نہیں اترتے۔“ ہمارے یہاں مزاح کی کمی ہے، اس لئے تفنن طبع کے لئے یہ عبارت نقل کی گئی۔ ہم پھر خدائے سخن کے مطلع پر واپس آتے ہیں۔ تجھ عشق میں تو مرنے کو طیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں ایک شعراگر دونوں آہنگوں میں پڑھا جاسکے تویہ ایک صنعت ہے۔ صنعت متلون ،ذو البحرین۔ شعر کوشش سے بھی موزوں کئے جاتے ہیں اور بے ارادہ بھی ہوجاتے ہیں جیسے غالب کے یہ دو شعر موجہ گل سے چراغاں ہے گزر گاہ خیال ہے تصور میں زبس جلوہ نما موج شراب نشے کے پردے میں ہے محو تماشائے دماغ بسکہ رکھتی ہے سر نشو و نما موج شراب رمل مجنون محذوف اور رمل سالم محذوف الآخر دونوں کے مثمن آہنگوں میں یہ دونوں شعر پڑھے جاسکتے ہیں بنیادی آہنگ مجنوں ہے۔ ہم پھر میر کی غزل پر واپس آتے ہیں۔

Tuesday, June 8, 2010

قرة العین حیدر اور آگ کا دریا


نند کشور وکرم
بر صغیر کی مشہور و ممتازادیبہ اور اردو کے سب سے بڑے ناول ”آگ کا دریا“ کی مصنفہ قرة العین حیدر کی ۰۲اور ا۲ اگست کی درمیانی شب کو وفات ہو جانے سے آسمان ادب کا ایک درخشندہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے غروب ہوگیا۔ قرة العین حیدر کی ولادت ۰۲جنوری ۷۲۹۱ءکو علی گڑھ اتر پردیش میں ہوئی۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم ،جن کا شمار اردو کے اس دور کے مشہور افسانہ نویسوں میں ہوتا تھا، یو پی کے ایک ایسے پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے افراد دربار مغلیہ میں سہ ہزاری ،پنج ہزاری عہدوں پر مامور رہے تھے۔ ان کی والدہ ماجدہ نذر سجاد حیدر بھی اپنے دور کی معروف ادیبہ تھیں جن کا پہلا ناول ”اختر النسا“ ۸۰۹۱ءمیں دار الاشاعت لاہور سے شائع ہوا تھا جب کہ وہ صرف چودہ سال کی تھیں۔ قرة العین حیدر کے نگڑ دادا سید حسن ترمذی وسط ایشیا سے نقل مکانی کرکے ہندوستان آئے تھے ۔ان کے خاندان میں علم کی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہی ۔ان کے گھرانے کی عورتیں بھی اچھی تعلیم یافتہ تھیں۔ یلدرم کی نانی سیدہ ام مریم نے تو قرآن شریف کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ۷۵۸۱ءمیں ان کے پر دادا امیر احمد علی نے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جس کے نتیجے میں ان کی جاگیر داری ضبط کر لی گئی۔ بعد میں قرة العین حیدر کے دادا سید جلیل الدین حیدر اور ان کے چھوٹے بھائی سید کرار حیدر نے انگریزی سرکار کی ملازمتیں اختیار کیں۔ سید جلال الدین حیدر شہر بنارس کے کوتوال کے عہدے پر فائز رہے اور انہیں خان بہادر کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ سید کرار حیدر یوپی میں سول سرجن رہے اور ان کا شمار صوبے کے مشہور ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ قرة العین حیدر کے والد سجاد حیدر یلدرم ۰۸۸۱ءمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے بی اے کا امتحان پاس کیا او ر الہ آباد یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران وہ نواب اسماعیل خاں تعلقہ دار میرٹھ اور راجہ صاحب محمود آباد کے سیکریٹری بھی رہے۔ پھر وہ بغداد میں برطانوی کونسل خانے میں مترجم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ دن پہلے انہیں سابق امیر کابل یعقوب خاں کا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بناکر ہندوستان بھیج دیا گیا۔ ۲۱۹۱ءمیں ان کی شادی نذر زہرا بیگم سے ہوئی ۔ امیر کابل کے انتقال کے بعد ان کی خدمات یو پی سرکار سول سروس میں منتقل کر دی گئیں۔ ۰۲۹۱ءمیں جب ایم اے او کالج مسلم یونیورسٹی بنا تو انہیں اس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی کے اعزازی صدر بھی رہے اور ان کا شمار انجمن اردوئے معلی کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے۔ ۸۲۹۱ءمیں حکومت نے انہیں یونیورسٹی سے بلاکر جزائر انڈیمان نکوبار میں ریو نیو کمشنر بناکر پورٹ بلیئر بھیج دیا۔ واپس آنے پر انہیں غازی پور اور اٹاوہ کے اضلاع میں تعینات کیا گیا۔ ۵۳۹۱ءمیں خرابی صحت کی بنا پر انہوں نے ملازمت سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ قرة العین کی والدہ نذر سجاد حیدر کی ولادت ۴۹۸۱ءمیں صوبہ سرحد میں ہوئی۔ ان کے پر دادا معصوم علی مصنف ”انشائے معصوم“ سلطنت اودھ میں ناظم اور چکلہ دار کے عہدے پر فائز تھے ان کے دادا خان بہادر میر قائم علی کو پنجاب کے قانون اراضی کی تشکیل و تنظیم کے لئے منتخب کیا گیا۔ نذر کے والد میر نذر الباقر فوج کے محکمہ سپلائی میں بطور ایجنٹ صوبہ سرحد میں خدمات انجام دیتے رہے۔ شادی سے پہلے وہ بنت نذر الباقر کے نام سے ”تہذیب نسواں“ ”پھول “ اور دیگر رسائل میں لکھا کرتی تھیں۔ ان کا پہلا ناول ”اختر النسائ“ ۸۰۹۱ءمیں دار الاشاعت لاہور سے شائع ہوا تھا جب کہ ان کی عمر صرف ۴۱ سال تھی۔ ۲۱۹۱ءمیں ان کی شادی ہوئی اور وہ نذر سجاد حیدر کے نام سے لکھنے لگیں۔ انہوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور کئی اسلامی ممالک کی سیاحت بھی کی ۔ قرة العین حیدر کی ابتدائی زندگی پورٹ بلیئر جزائر انڈیمان میں گزری اور ابتدائی تعلیم انہوں نے دہرہ دون میں حاصل کی۔پھر وہ لکھنو میں مشہور ازابیلا تھوبرن کالج میں داخل ہوئیں۔ ۷۴۹۱ءمیں انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے گورنمنٹ اسکول آف آرٹس لکھنو اور ہیڈ میز اسکول آف آرٹس لندن میں بھی تعلیم پائی۔ قرة العین حیدر نے اپنی پہلی کہانی صرف چھ سال کی عمر میں لکھی تھی مگر وہ کہیں شائع نہیں ہوئی۔ ان کی پہلی تخلیق جو شائع ہوئی وہ ”بی چوہیا“ کی کہانی تھی جو اس دور کے بچوں کے مشہور ہفتہ وار رسالے ”پھول“ لاہور میں چھپی تھی اور اس کے پانچ سال بعد ان کی تخلیق ”یہ باتیں“ لاہور کے مشہور رسالے ”ہمایوں“ میں شائع ہوئی۔ تقسیم ملک کے بعد وہ لگ بھگ ڈیڑھ عشرہ پاکستان میں سکونت پذیر رہیں۔ ۰۵۹۱ءمیں وہ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات میں انفارمیشن افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں۔ پھر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس اتاشی کے عہدے پر مامور کی گئیں۔ ڈاکو مینٹری فلموں کے پرڈیو سر اور ”پاکستان کوارٹرلی“ کی ایکٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ کچھ مدت پاکستان ایئر لائنز سے بھی وابستہ رہیں۔ اسی اثناءمیں ان کا شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا“ منظر عام پر آگیا۔ جس پر پاکستان میں بحث و تنازعہ کا ناگوار سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ چھٹے دہے کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کو خیر باد کہہ کر ہندوستان آگئیں اور پھر زندگی کے آخری دم تک یہیں سکونت پذیر رہیں۔ ”آگ کا دریا“ جس کی وجہ سے انہیں پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی اور جسے اردو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے، بر صغیرکی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ تقسیم اور اس کے اثرات مابعد نے بر صغیر کے اکثر صاحب قلم حضرات کے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہندی میں امرت لال ناگر نے ”بوند“ اور ”سمندر“، یشپال نے ”جھوٹا سچ“ ،درون ویر کوہلی نے ”واہ کیمپ“ ، ہرش درشن سہگل نے ”ٹوٹی ہوئی زمین“ ، کملیشور نے”لٹے ہوئے مسافر“ ، راہی معصوم رضا نے ”آدھا گاﺅں“ جیسے ناولوں کی تخلیق کی تو پنجابی میں کرتار سنگھ دگل نے ”آندراں“ ،”نونہہ تے ماس“ اور ”چولی دامن“ ، امرتا پریتم نے ”ڈاکٹر دیو“ ،”آلہنا“ اور ”پنجر“ ،سریندر سنگھ نرولہ نے ”دین تے دنیا“ اور ”دل دریا“ ،نریندر پال سنگھ نے ”امن دے راہ“ اور ”اک راہ اک پڑاﺅ“ ،سوہن سنگھ سیتل نے ”تو تاں والا کھوہ“اورنرنجن تسنیم نے ”جدوں سویر ہوئی“ اور بنگلہ میں پربودھ کمار سانیال نے ”آشو بانو“ ، ”بسو نے “ ، آلو ہمارا آلو“ ،سنیل گنگو پادھیائے نے ”ارجن “ اور مانک بندو پادھیائے نے ”سبھار جننی“ نیز انگریزی میں چمن لال چمن نے ”آزادی “، گور چرن داس نے ”اے فائن فیملی “ اور خشونت سنگھ نے ”اے ٹرین ٹو پاکستان“ وغیرہ پیش کئے۔ اسی طرح اردو میں عبد اللہ حسین کے ناول ”اداس نسلیں“، شوکت صدیقی کے ”خدا کی بستی“ خدیجہ مستور کے ”آنگن“ اور جمیلہ ہاشمی کے ”تلاش بہاراں“ کا بھی یہی موضوع تھا لیکن جو شہرت و مقبولیت قرة العین حیدر کے ناول ”آگ کا دریا“ کو ملی وہ کسی زبان کی ادبی تخلیق کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس ناول کے بارے میں جھوٹی سچی افواہیں بھی پھیلیں۔ اس پر پاکستان میں سنسر کئے جانے اور پابندی لگنے کی افواہ شاید اس لئے پھیلی کہ مصنفہ نے کئی جملے اور پیرا گراف پروف ریڈنگ کے دوران نکال کر ناول اسی طرح پریس میں چھپنے کےلئے بھیج دیا جس سے سنسر کئے جانے کا شک پیدا ہوتا تھا۔ ان افواہوں کا ذکر کرتے ہوئے خود قرة العین حیدر نے لکھا : ”اس ناول کے متعلق افسانہ طرازی اور افواہوں کا سلسلہ اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ اس کی تردید اب میرے بس کی بات نہیں رہی۔ حال ہی میں قدرت اللہ شہاب مرحوم کا ”شہاب نامہ“ شائع ہوا جس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اس کتاب میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں: ”مارشل لا لگتے ہی ایک روز صبح سویرے قرة العین حیدر میرے یہاں آئی۔ بال بکھرے ہوئے ،چہرہ اداس ،آنکھیں پریشان، آتے ہی بولی: اب کیا ہوگا۔ تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے۔ عینی نے بڑے کرب سے پوچھا....آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، آنسو چھپانے کے لئے اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور ایک ٹھنڈی سانس بھرکر کسی قدر لاپروائی سے کہا: ارے بھئی روز بھونکنا کون چاہتا ہے۔ لیکن بھونکنے کی آزادی بھی تو عجیب نعمت ہے، میرا اندازہ ہے کہ سنسر شپ کے تخیل ہی سے اس کے ذہن کو بڑا شدید جھٹکا لگا۔ کچھ عجیب نہیں کہ اسی جھٹکے کے رد عمل نے اس کے قلم کی باگ ڈور ”آگ کا دریا“ کی طرف موڑ دی ہو۔ بخوف طوالت پورا اقتباس نہیں دیا۔ شہاب صاحب بے حد نیک اور شریف انسان ہیں۔ غلط بیانی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا لیکن ان کے حافظے نے یقینا ان کو دھوکا دیا کیونکہ یہ ساری منظر نگاری افسانہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ میں بال بکھراکر، آنکھو ں میں آنسو بھر کر سرد آہیں نہیں کھینچتی۔ بھونکنا وغیرہ میرا طرز گفتگو نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ”آگ کا دریا “ میں نے ۶۵۹۱ءمیں شروع کیا، ۷۵۹۱ءمیں ختم ہوا۔ مارشل لا ۸۵۹۱ءمیں نافذ ہوا اس وقت ناول کا مسودہ لاہور میں تھا اور دسمبر ۹۵۹۱ءمیں مکتبہ جدید نے اسے شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن کے آخری صفحے پر تصنیف کا سنہ موجود ہے۔ لہٰذا سنسر شپ کے ’ذہنی جھٹکے‘ نے میرا قلم ’آگ کا دریا‘ کی طرف نہیں موڑا۔“ افواہوں کے علاوہ اس ناول کی مخالفت اور موافقت میں لا تعداد مضامین لکھے گئے۔ سراج رضوی نامی ایک ادیب نے اس کی مخالفت میں مضمون کے علاوہ ایک ناول ”سنگم “ بھی لکھا۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود بابائے اردو مولوی عبد الحق اس ناول پر پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ”آدم جی ایوارڈ“ دینے کے حق میں تھے۔ مگر جب قرة العین حیدر کو معلوم ہوا تو انہوں نے خود کو ججوں کی کمیٹی میں شامل کر والیا اور یہ انعامات شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ پر دیا گیا۔ اس ناول میں لگ بھگ ڈھائی ہزار سال کے پس منظر کو ناول کے وسیع کینوس پر پھیلا کر بر صغیر کے تہذیب و تمدن ،تاریخ ،فلسفے اور رسم و رواج کی مختلف رنگوں میں ایک ایسی تصویر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے جو ہمارے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ”آگ کا دریا“ کی کہانی بدھ مت کے عروج اور برہمن واد کے زوال سے شروع ہوتی ہے۔ اور یہ تین ادوار میں منقسم ہے مگر اس کے کچھ کردار گوتم ،ہری شنکر، چمپا اور نر ملا تینوں ادوار میں موجود ہیں اور وہی تینوں ادوار میں ربط تسلسل قائم رکھنے اور کہانی کو مربوط کرنے کا وسیلہ ہیں جو بدھ مت اور برہمن واد کے ٹکراﺅ سے شروع ہوکر کانگریس اور مسلم لیگ کے ٹکراﺅ تک پہونچتی ہے اور آخر کار تقسیم کے المیے پر ختم ہوجاتی ہے۔ مگر مصنفہ نے اس المیے کو اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ کسی شخص ،قوم یا ملک کا المیہ بننے کے بجائے ایک انسانی المیے کی شکل اختیارکر جاتا ہے۔ ڈھائی ہزار سال کے طویل عرصے پر پھیلے اس ناول میں بر صغیر کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کو بڑے ہی خیال انگیز اور دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ابتدائی حصے میں ہم گوتم، نیلمبر اور ان کے ماضی کے ہندوستان کے سماجی اور تہذیبی نظریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ گوتم ایک مفکر اور ذہین فنکار ہی نہیں ایک انسان دوست بھی اور اس کا دوست ہر ی شنکر ایک حقیقت پسند نوجوان ہے۔ تیسرا کردار چمپا کا ہے جو گوتم کی طرح ہر دور میں موجود ہے۔ یہ ایک علامتی کردار ہے جو ہر دور میں متحرک نظر آتا ہے۔ پہلے دور میں وہ چمپک، دوسرے دور میں چمپا، تیسرے میں چمپا بائی اور آخری دور میں چمپا احمد کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ ناول کا بہت ہی زوردار کردار ہے جو غیر معمولی طور پر متاثر کرتا ہے ۔چمپا مصائب اور تکالیف کی شدت سے ٹوٹنے اور بکھرنے کے بجائے ہر حال میں اپنے وجود کو زندہ اور سالم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ناموافق او ر ناسازگار حالات کا مقابلہ بڑی ہمت و جرات سے کرتی ہے جب کہ کم ہمت کمال رضا جیسا قوم پرست نوجوان نا امیدی اور مایوسی کے عالم میں نہ چاہتے ہوئے بھی بالآخر پاکستان میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ چمپا ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اور پاکستان جانے سے انکار کردیتی ہے حالانکہ وہ لندن کی تعلیم یافتہ ہے اور اسے وہاں اچھی سے اچھی ملازمت مل سکتی ہے۔ وہ پاکستان ہجرت کرنے والے اپنے ساتھی کمال رضا سے مخاطب ہے: ”میں بالآخر بنارس واپس جارہی ہوں۔ تم کو یاد ہے میں نے کیم کے کنارے بوٹ ہاﺅس میں تم سے کہا تھا ، میں واپس جانا چاہتی ہوں، کوئی ساتھ لے جانے والا نہیں۔ اب میں نے دیکھا کہ کسی دوسرے کا سہارا ڈھونڈنا کس قدر زبردست حماقت تھی۔ میں خود ہی بنارس لوٹتی ہوں ۔جانتے ہو! میرے آبائی شہر کا نام کیا ہے ؟ شو پوری:ہاں مسرتوں کا شہر۔ اس ملک کو دکھ کا گڑھ یا مسرتوں کا گھر بنانا میرے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مجھے دوسروں سے کیا مطلب؟ اس نے اپنے ہاتھ کھول کر انہیں غور سے دیکھا۔ رقاصہ کے ہاتھ، آرٹسٹ یا لیکھک کے ہاتھ؟ نہیں....یہ صرف ایک عام اوسط درجے کی ذہین لڑکی کے ہاتھ ہیں جو اب کام کرنا چاہتی ہے۔ وہ خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر بعد مسجد سے ظہر کی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ اس نے غیر ارادی طور پر دوپٹے سے سر ڈھانپ لیا۔ ’کمال !‘ کچھ دیر بعد اس نے کہا: مسلمانوں کو یہاں سے نہیں جانا چاہئے تھا۔ تم کیوں نہیں دیکھتے کہ یہ تمہارا اپنا وطن ہے اس نے بے بسی سے انگلیاں مروڑ یں.... اور تم کیوں چلے گئے ۔کیا میں تمہارے یہاں آجاﺅں تو مجھے ایک سے ایک عہد نہ مل جائے گا؟ دیکھومیں پیرس۔ کیمبرج اور لندن سے کتنی ڈگریاں لائی ہوں۔“ چمپا کا ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ ایک بہت ہی جرات مندانہ قدم ہے جو اس کی مستحکم قوت ارادی اور ہمت کی عکاسی کرتا ہے۔

قائداعظم ‘ جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ


ڈاکٹر صفدر محمود…

میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ءکو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا‘ اُنہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظمؒ کی منظوری کے بعد آزاد کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ اٹھارہ ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ءکو حکومت پاکستان نے قومی ترانے کےلئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کر دیا گیا۔ اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیراس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ میں نے اُن سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظمؒ پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ اُن سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے‘ بالکل بے بنیاد اورناقابل یقین دعویٰ ہے۔ لیکن میں اُن کی بات بلاتحقیق ماننے کےلئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (BLOGS) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کر کے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو کنفیوژ کیا جا سکے۔ ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
میں سچ کی تلاش میں جن حقائق تک پہنچا ‘اُن کا ذکر بعد میں کروں گا پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا‘ وہ 1918ءکو عیسٰی خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اُس نے 1937ءمیں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اُس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کر لی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔
وکی پیڈیا WIKIPEDIA اور ALL THINGS PAKISTAN کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنے ”دوست“ جگن ناتھ آزاد کو 9/ اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کےلئے پانچ دن دئیے‘ جو اس نے لکھ دیا۔ قائداعظمؒ نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے جگن کو 1979ءمیں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اُسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظمؒ سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ قائداعظمؒ کسی کو ترانے لکھنے کےلئے کہیں اور پھر کابینہ‘ حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اُسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ اُن کا اردو فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابلِ یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظمؒ نے عمر کا معتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا‘ اُنکے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات‘ مسلم لیگی سیاستدان وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت اُن کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیر معروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار جئے ہند کے ملازم تھے‘ اُن کی قائداعظم سے دوستی تو کُجا‘ تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کےلئے ٹھوس شواہدکی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے راہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظمؒ کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔وہ مسلمانانِ ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 47ءسے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ اُن کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہو گا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ءمیں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مِل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظمؒ کے ملاقاتیوں کی تفصیل لکھی ہے‘ جس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظمؒ کی کراچی آمد سات اگست شام سے لےکر پندرہ اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کی تین جون 1947ءوالی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میری تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب سات اگست 1947ءکو قائداعظمؒ بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو اُن کے ساتھ اُن کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اِس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کر سکتا ہے۔ جب قائداعظمؒ کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی اُنکے ساتھ تھے اور پھر ساتھ بھی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن اُن تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب اُن تک پہنچا۔
جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تُلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظمؒ سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی اُن کا نام قائداعظم سے سُنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے کہ جگن ناتھ آزاد کو قائداعظمؒ نے بلایا۔ اگست 1947ءمیں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور اُن کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں اُن کی کراچی میں قائداعظمؒ سے ملاقات کا تصور بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبالؒ کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں اُنہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اُنہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ءمیں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے اب آئیے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف…. ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ءتک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا۔ 14 اور 15/ اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کےساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صدا گونجی تو اسکے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے‘ پاکستان مبارک ہو
اُن دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15/ اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا ….ع
توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14/ اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے چودہ اگست سے 21 اگست 1947ءتک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ اُنہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو کا رسالہ آہنگ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948ءسے چھپنا شروع ہوا۔ اٹھارہ ماہ تک آزادی کے ترانے کے بجنے کی خبر دینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اوراپنے موقف سے تائب ہو جائیں۔ میں اس بحث میںالجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ءتک نشر ہوتا رہا تو پھر اُسکا کسی پاکستانی کتاب کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اُسکے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظمؒ کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو اُنہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکر کیوں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب آنکھیں ترستیاں ہیں (1982ئ) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اُس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کا ذکر موجود نہیں۔ لیکن نغمے اور ترانے میں بہت فرق بھی ہے۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کےلئے ملی نغمہ لکھا جو ہو سکتا ہے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ ترانہ نہ تھا جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظمؒ سے ملے‘ نہ اُنہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی اُن کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظمؒ بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ انکے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد اُن سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے۔
نواے وقت