Saturday, January 8, 2011

نذیر احمد کے ناولوں میںپلاٹ و کردار از سید محمد تقی


ناول میںپلاٹ کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے تقریباً تمام نقاد متفق ہیں لیکن پلاٹ ہے کیا اس کی نوعیت و خصوصیت کیاہے اس پر مختلف رائیں پیش کی گئی ہیںاور مختلف ناول نگاروں اور ناول کے نقادوں نے پلاٹ کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں ۔ہڈسن کہتا ہے ”وہ واقعات جواشخاص قصہ کو پیش آئیں اوروہ افعال جو اس سے سرزد ہوں مجموعی حیثیت سے پلاٹ کہلاتے ہیں۔ ایلس پیری پلاٹ کی تعریف یوں کرتاہے۔ پلاٹ نام ہے ان واقعات کا جو اشخاص قصہ کو پیش آئیں مگر ایڈ گر ایلس پو کے خیال میںجاذبیت اور دلچسپی کے علاوہ واقعات میں لگاﺅ اور تعلق ہونا ضروری ہے تینوں رائیں ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں لیکن تینوں مل کر پلاٹ کی اہمیت اور حیثیت متعین کرتی ہیں۔مذکورہ بالا قیود اور تعریفوں کے لحاظ سے اگر نذیر احمد کے ناولوں کو جانچا جائے تو ان کے ناول کسی طرح کسی دوسرے ناول نگار کے کارناموں سے پیچھے نہیں رکھے جاسکتے اور رام بابو سکسینہ کی یہ رائے غلط نہیں معلوم ہوتی کہ نذیر احمد نے معمولی واقعات زندگی کو ایک منظم پلاٹ کی صورت میں دلچسپی سے بیان کیا ہے۔مولانانذیر احمد کے ناولوں میں بھی ان کے اشخاص قصہ سے حرکات و افعال سرزد ہوتے ہیں ان کو زندگی میں طرح طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اس لئے پلاٹ کامقصد تو ہڈسن اور یلسپری کے مطابق یہیں پورا ہوگیا رہی دلچسپی تو وہ اس سے ظاہر ہے کہ ان سب ہی ناول وقت کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور درجنوں بار شائع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میںان کے ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن سب سے اہم چیز جس کی طرف ایڈ گر ایلس پونے اشارہ کیاتھا یعنی واقعات کی ترتیب میں فطری تعلق کا ہونا وہ بھی نذیر احمد کے ناولوں میں بدرجہ اتم ملتا ہے اور اشخاص قصہ اپنے عمل سے واقعات کو مرتب کرتے چلے جاتے ہیں۔

مولانا نذیر احمد کے ناولوں کے پلاٹ کبھی منظم ہوتے ہیں کبھی غیرمنظم بعض اوقات وہ پلاٹ تیار کرنے میںکاوش نہیں کرتے بلکہ اکثر تو یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ پہلے انہوں نے اشخاص قصہ لے لئے اور ان کے افعال و حرکات سے جو واقعات پیدا ہوان کو یکجا کرکے پلاٹ تیار کر لیا مثال کے لئے مراة العروس کو دیکھئے اس میںانہوں نے پہلے اکبری کو لیااور اس کے خراب چال چلن سے جو واقعات پیداہوئے ان کو یکجا کرکے اس کے خلاف نیک چال چلن اور سلیقہ شعار لڑکی اصغری کو لیا۔ اور دونوں کو ملا کر یہ ناول تیار کر لیا ایسے ناول غیر منظم پلاٹ کہے جاسکتے ہیں مگر بر عکس ان کے اور ناول مثلاً محضات توبة النصوح اور ابن الوقت وغیرہ منظم پلاٹ رکھتے ہیں۔

اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کراگر ہم ادب اردو کے اسکاٹ مولانا عبد الحلیم شرر کی طرف نگاہ اٹھائیں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ ان کے اکثر ناولوں کے پلاٹ غیر منظم ہیں چند بہترین ناولوں ایام، عرب ،فتح اندلس، فردوس بریں وغیرہ کو چھوڑ کردیکھا جائے تو بعض ناولوں کے پلاٹ کی ترتیب بھی درست نہیں، مگر مولانا نذیر احمد کی وہ ہستی ہے کہ جس نے سب سے پہلے پلاٹ کی ترتیب اور اس سے واقعات کا لگاﺅ اوراشخاص قصہ کے تعلق کو سمجھ لیا اور جانے بوجھے روز مرہ کے واقعات پرقصہ کی بنیاد رکھ کر قصہ کی ترتیب میںکسی قسم کے احتمال کی گنجائش باقی نہ رکھی۔پلاٹ اور اشخاص قصہ ایک حد تک ایک دوسرے پرمنحصر ہوتے ہیں کبھی پلاٹ اشخاص قصہ کے حرکات اور افعال کا مجموعہ ہوتا ہے اور کبھی اشخاص قصہ واقعات ناول کے مطابق لے لئے جاتے ہیں۔ نذیر احمد کے بعض ناولوں میںاشخاص قصہ کے مطابق واقعات لئے گئے ہیں۔ مگر ان کے چند اچھے ناولوں میں واقعات کے مطابق اشخاص قصہ کا ارتقا ہوتا رہا ہے۔

ہر ناول میں اشخاص قصہ کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہئے کیوں جب وہ زیادہ تعداد میںموجود ہوتے ہیں تو پڑھنے والے کوالجھن میںڈال دیتے ہیں۔ نذیر احمد نے اس کا بہت خیال رکھا۔ وہ اپنے ناولوں سے کوئی اصلاحی مقصد پورا کرنا چاہتے تھے اور محض قصہ گڑھنے کی فکر میں نہیں رہتے تھے۔ اس لئے انہوںنے کرداروں کی مناسب تعداد رکھی ہے اور کہانی کے سمجھنے یا اس کے مقصد کے جاننے میں کوئی الجھن واقع نہیں ہوتی۔ ان کے بر عکس سرشار کے بعض ناولوں میں کیر کٹر ضرورت سے زائد ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے قصہ کی دلچسپی میں کمی ہوجاتی ہے۔

نذیر احمد ہمیشہ دو اشخاص قصہ کو ایک دوسرے کا ضد لیتے ہیں جن میںایک کو عیوب کا شکار اور دوسرے کو سعاد ت مندی کا پرستار بناکر تمام عیوب کو ظاہر کردیتے ہیں ان کامقصد سوسائٹی کے عیوب کودور کرناہے اس لئے وہ دو اشخاص قصہ ایسے لیتے ہیں جو سماج کے دور جحان کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی ان میںسے ایک نیک ہوتا ہے دوسرا بد وہ برے کام کے برے نتیجے دکھلا کر نیک اور سلیقہ شعار کو عزت اور نیک نامی بخشتے ہیں۔ تاکہ وہ لوگ جو کہ ان بری چیزوں کا شکار ہورہے ہیں اس کو چھوڑ دیں اور صراط مستقیم کی طرف متوجہ ہوجاویں۔ یہ ہے وہ اخلاقی تعلیم جس کو جاں اڈنگٹن اسمنڈ کہتا ہے۔ ہرین لطیف کو اعلیٰ رتبہ پہونچنے کے لئے اس میںاخلاقی جزو کا پایاجانا بیحد ضروری ہے۔سرشار میںیہ جزو بہت کم ہیں۔ یعنی رام بابو سکسینہ کے الفاظ میں ان میں فلسفیت اور اخلاق آموزی کی کمی ہے۔

نذیر احمد کے ناول جارج الیٹ کے ناولوں کے طرز پر ہیں وہ جہاں کہیں بھی لوگوں کو بیہودہ باتوںکو چھوڑ کر مذہب کی طرف رجوع ہونے کی دعوت دیتے ہیں وہاںاخلاق پر ضرورت سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ عبد القادر صاحب دنیائے افسانہ میںیوں رقم طراز ہیں کہ ”ان میں وہ عیوب چن چن کر بتلائے جاتے ہیں جو شریف گھرانوں میں عام طور سے دیکھے جاتے ہیں۔ اسٹیونس کے ناول ٹریزر آئی لینڈ کی طرح ہر قسم کے مخرب اخلاق عنصر حتیٰ کہ حسن و عشق و محبت سکھانے والی ہو۔ مولانا پر یہ الزام رکھنا کہ ان کے ناول حسن و عشق سے بھی خالی ہے کیوں کہ عام مشرقی خیال کے مطابق یہ بات نہایت مذموم تصور کی جاتی ہے کہ صنف نازک کے ہاتھوں میںایسی کتاب دی جائے جو اس کو عشق سے بالکل خالی ہیں صرف بیجا نہیں بلکہ زیادتی ہے۔ الزام تراشی کا یہ محض ایک بہانہ ہے کہ چونکہ ان کے ناول صنف نازک کے ہاتھ میں جانے والے تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنے اشخاص قصہ کو حسن و عشق کا پرستار نہیںبنایا۔ مولانا کا معیار حسن ہی دوسرا ہے۔ جوموجودہ زمانے کے معیار کے مطابق نہیں مگر کچھ بھی ہو یہ ناول نگار کی خصلت و عادت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چاہے جس چیز کا معیار اپنے لئے مقرر کر لے۔ انہوں نے حسن کے متعلق اپنے خیالات فسانہ مبتلا رویا ئے صادقہ، اور الحقوق و الفرائض میںبیان کئے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ حسن کی ننگی تصویریں کتابوں کے صفحوں پر ظاہر ہوں اور مخرب اخلاق ثابت ہوں۔

نذیر احمد کی کردار نگاری کے متعلق عبد القادر صاحب یوں رقم طراز ہیں” کردار نگاری میںبعض جگہ اس قدر نفسیاتی طریقہ سے کام لیا گیا ہے کہ انگریزی ناول نگار جارج الیٹ کے ناول یاد آجاتے ہیں، معلوم ہوتا کہ جارج الیٹ کی طرح ان کی بڑی عمر نے ان کے مختلف سوسائٹی کے مطالعہ کا نہایت عمدہ موقع دیا تھا۔ دونوں اپنے ناولوں میں ایک خاص مذہبی اعتقاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اب رہا کرداری ارتقا تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ناولوں کے اشخاص قصہ میں کردار ی ارتقا گو کمی کے ساتھ ہے مگر موجود ضرور ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی سماجی حالت کے اس پہلو کو لیا ہے جس میںحالات کے بدل جانے کی وجہ سے ہر طرح کی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اور نذیر احمد ایک مذہبی مصلح کی طرح ان کے دور کرنے کی انتہائی کوشش کرتے رہے۔ یہ ضرور ہے کہ اعلیٰ پایہ کے مغربی ناولوں کی طرح ان کے اشخاص قصہ کم ارتقائی منازل طے کرتے ہیں۔ نصوح اور اس کے خاندان کو لیجئے کلیم کو دیکھئے مرتے مرگیا اپنے کردار کی خصوصیت پر قائم رہا۔ سلیم کے کیرکٹر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے چال چلن پر ضرور اثر پڑا اور اس کی حالت آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی گئی جو اس کے کردار کا ارتقا ظاہر کرتا ہے توبة النصوح میں نصوح کی مستقل مزاجی دیکھئے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے لئے طرح طرح کے سامان کرتا ہے۔ کلیم کا مرتے وقت تک پیچھا کرتا ہے اور صبر کے ساتھ اس خیال پرکاربند رہتا ہے کہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر ضرور آجائے گا۔ مراة العروس میں اکبر ی خانم اپنی ماما کے خلاف کس قدر صبر و استقلال سے کام لیتی ہے جب کہ روزانہ ایک نہ ایک جھوٹ بات وہ اس کے خلاف کہتی ہے ۔ عبد القادر صاحب لکھتے ہیں ”یہی پہلاشخص نظر آتا ہے جس نے اردو افسانوں میں کردار نگاری کا اضافہ کیا۔

ناول کی ایک خصوصیت یہ ہونا چاہئے کہ پڑھنے والے کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ در اصل شخص قصہ کے اوپر کس طرح کے جذبات کااثر ہے اور ان کا کیا مطلب ہے۔ اگر غصہ ہے تو تیور اور طرز گفتگو فوراً ظاہر کر دیں گے اگر خوشی ہے تو چہرہ کی بشاشت سے نمایاں ہوجائے گی۔ نذیراحمد کے ناول اس خصوصیت کے لئے خاص طور پر مشہور ہیں۔ ان کے اشخاص پر جو جذبات طاری ہوتے ہیںوہ فوراً ان کی کیفیت اور تیور سے ظاہر ہوجاتے ہیں جس کی حالت کو پڑھنے والا سمجھ کر اپنی توجہ اس طرف مبذول کردیتاہے خواب میں نصوح کی حالت اوراس کے بعد کی حالت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے دل پر اس خواب کا کیا اثر تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے گھر کے تمام اشخاص قصہ کی حالت درست کرنے میںاس کی مستقل مزاجی اور دل کی بیچینی اس کے دلی جذبات کابہت عمدہ نمونہ ہے۔ مراة العروس میں اصغری خانم کے دل کی حالات اور اس کی خادمہ یاماما کا جلنا ہم پر بخوبی عیاں ہے ۔مبتلا کا ہریالی کے واسطے دیوانہ ہونا کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے اس کا ہریالی کو ماما بناکر گھر میں داخل کرنا اس کی انتہائی محبت و الفت کی دلیل ہے۔

سرشار کے ناولوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی جذبات نگاری میں نذیر احمد سے پیچھے رہ گئے ہیںاس کا اعتراف رام بابو سکسینہ صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان میں جذبات کی بھی کمی ہے اسی وجہ سے ان کی تصانیف میں تصاویر درد و غم کا پتہ نہیں ان کی جذبات نگاری جہاں کہیں ہوتی ہے مصنوعی معلوم ہوتی ہے اور ادھر ادھر کے قول و اشعار سے اس کمی کو وہ پورا کردیتے ہیں۔

جب کوئی شخص افسانہ یاناول لکھتاہے تو اس کے پیش نظر کوئی خاص مقصد ضرور ہوتا ہے۔ یہی حال نذیر احمد کا بھی ہے۔ انہوں نے متعدد ناول لکھے اور ہر ناول کاایک نہ ایک مقصد تھا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ یہ ناولیں انہوں نے اپنی لڑکیوں کے لئے لکھی تھیں لہٰذا اخلاقی مقصد کو مد نظر رکھا، اور اگر ان کا کچھ مقصد تھا تو صرف لڑکیوں کو اخلاقی تعلیم دینا بعض اشخاص کی یہ رائے ہے کہ مولانا نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی حالت اور ان کے مذہب کی باتیں بیان کی ہیں اس لئے دوسری قوم کےلئے مفید نہیں ہوسکتیں۔

No comments: