Wednesday, December 9, 2009

اُردو ادب میں احتشام حسین کا مقام از پروفیسر اسد علی خاں

حتشام حسین ایک ہمہ جہت دانشور تھے۔ اردو ادب میںان کے کئی حوالے ہیں۔ انہوںنے شاعری بھی کی ہے۔ افسانے بھی لکھے، سیاحت نگاری میںایک نئے اسلوب کو روشناس کرایا، لسانیت پر بھی توجہ دی۔ تبصرے بھی کئے اور مقدمہ نگاری بھی کی۔ ترجمے بھی کئے اور ادبی موضوعات پر تقریریں بھی کیں۔ ان کا کوئی حوالہ کم معیار یا غیر معتبر نہیں ہے۔ تاہم اردو میںان کا معتبر ترین حوالہ تنقید ہے۔ اور وہ نقاد کے طور پر یہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ احتشام حسین کا اردو میں کیا مقام ہے؟ اس مقصد کے لئے ہمیں تین بنیادی باتوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ ۱۔ احتشام حسین کی تنقید ،ان سے پہلے کی تنقید اور ان کے ہم عصروں کی تنقید سے کس طرح مختلف ہے؟ کون سی چیزیں ہیں جو ان کی تنقید کو انفرادیت بخشتی ہیں اور ہم عصر تنقید سے بھی ممتاز کرتی ہیں؟ ۲۔ کیا ان کی تنقید نے اردو ادب و تنقید پر کوئی دور رس نتائج مرتب کئے؟ ۳۔ دوسرے دانشوروں اور نقادوں کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہیں تین امور کا جائزہ لینے کے بعد ہم احتشام حسین کااردو ادب میں مقام متعین کر سکتے ہیں۔ احتشام حسین نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور شاعری بھی کی۔ مگر جلد ہی اپنی پوری توجہ تنقید کو دینے لگے۔ ایک عامیانہ خیال یہ ہے کہ تنقید کا راستہ وہی اختیار کرتا ہے جو تخلیق کے میدان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ لیکن احتشام حسین پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان کے انتہائی ابتدائی دور کے افسانوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار بننے کی راہ پر گامزن تھے اور یہی راستہ اختیار کرتے تو ان کا شمار منفرد افسانہ نگاروں میں ہوتا۔ انہوں نے جو شاعری کی اس میںانسانی دکھ اور عوامی مصائب کی پر چھائیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے تنقید کی طرف مائل ہونے کی ایک وجہ تو خود یہ بتائی کہ وہ اپنے طلبا پر صرف اپنے ہی خیالات ٹھونسنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ انہیں ادب و تنقید کے شعبوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے تنقید کاسنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر اسی پر پوری توجہ دینے لگے،احتشام حسین کے مزاج میں عجز و انکساری ہے وہ اپنے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں اس لئے ان کے اندر جھانکنا یاان کے ذہن کو صحیح طور پر پڑھنا بڑا کٹھن کام ہے تاہم ان کے بعض خطوط اور سیاحت نامے میںایسے اشارے مل جاتے ہیں جن سے ان کی انسان دوستی نرم دلی اور خلوص کے پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ احتشام حسین انسانوں کے دکھوں کو کم کرنے کے خواہش مندتھے کیونکہ وہ خود بھی دکھی تھے۔ تخلیقی عمل سے معاشرے کی بے انصافیوں اور انسانوں کے دکھوں کی عکاسی تو کی جاسکتی ہے مگر اس طرح معاشرے کو تبدیل کرنے کاعمل بہت سست ہوتا ہے۔ احتشام حسین کو اپنا تنقیدی عمل، تخلیقی عمل سے زیادہ پر اثر نظر آیا ہوگا کہ اس طرح براہ راست بات کی جاسکتی ہے اور خوبیوں اور برائیوں کوظاہر کیاجاسکتا ہے ان کا تنقید نگاری کی طرف آنا ایک شعوری کوشش ہے یہاں اس بات کاذکر بے محل نہ ہوگا کہ کارل مارکس نے جوانی کی ایک خاص حد تک شعر و شاعری کی رقص و موسیقی سے رغبت رکھا لیکن جب انسانی علوم نے اس کے دل و دماغ کو روشن کیا تو اس نے نہ صرف سب کچھ چھوڑ دیا بلکہ اپنی شاعری کو نذر آتش کردیا تھا۔ اب ایک اور سوال پیداہوتا ہے کہ احتشام حسین نے مارکسی تنقید کی طرف ہی کیوں توجہ دی؟ اس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ تنقید کا مطالعہ احتشام حسین نے اس وقت شروع کیا جب ترقی پسند ادب کی شروعات تھی اور جو تخلیقات ترقی پسند ادب کے تحت وجود میں آئیں وہی احتشام حسین کی تنقیدی تحریروں کا بطور خاص محور بنیں۔ نسختاً انہیں اصولوں کی بھی تلاش ہوئی جو ترقی پسند ادب کو ادبی ضابطوں کے تحت پیش کر سکیں اس لئے انہوں نے سب سے پہلے ادب کے نظریاتی مباحث اور خصوصاً ترقی پسند ادب کے نظریات کا مطالعہ کرنے اور ترقی پسند نظریہ کے اصولوں کو منضبط کرنے کی فکر کی۔ اس میں شک نہیں کہ جب احتشام حسین نے تنقید لکھنی شروع کی تب روایتی تنقید جعفر علی خاں اثر کی زبان دانی اختر علی تلہری کی لغت نمائی اور نیاز فتح پوری کے تاثرات تک محدود تھی۔ تاہم احتشام حسین نے جدید اور ترقی یافتہ طریقہ تنقید اختیار کیا ۔ وہ دوراصل میں بین الاقوامی سطح پر علمی ،فکر، سیاسی اور ادبی تبدیلیوں سے پوری طرح آگہی اور ہم آہنگی کادور بن چکا تھا۔ روس کے سوشلسٹ انقلاب نے بر صغیر کی فضا پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے تھے اور یوں عام ادبی فضا انقلاب آفرینی کے آتشیں نغموں سے گونج رہی تھی۔ مروجہ تاثراتی اور رنگین بیانی کے پیمانے غیر تنقیدی رویوں میں شمار ہونے لگے تھے۔ مولانا حالی نے جس تنقیدی رویے کی بنیاد مقدمہ شعر و شاعری میں رکھی تھی اس میں سماجی شعور تھا مگر بعد میں رومانوی وفور اور تاثراتی انداز تنقید میں نمایاں ہوتا گیا۔ لیکن ۰۳۹۱ءکے لگ بھگ تبدیل شدہ حالات فکر و تخلیق کے بدلے ہوئے انداز اور سماجی علوم کی نئی جہت کے زیر اثر مولانا حالی کے تنقیدی انداز کی اہمیت پھر سے محسوس ہونے لگی اور ادب کو سماج کے پس منظر میں دیکھنے اور پرکھنے کے نئے ڈھنگ نے مقدمہ شعر و شاعری میں ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کی فضا سازگار کرنی شروع کی۔ احتشام حسین کا ذہن عقلیت پسند تھا اور جذباتی حیثیت سے ان کی زندگی کا محور انسان دوستی تھا۔ ان دونوں باتوں نے ان کو مارکسی تنقید کو قبول کرنے پر آمادہ کیا لیکن احتشام حسین کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عقلی دیانت، اپنے ذہنی توازن اور انفرادی قوت امتیاز کو زندہ رکھا اور مارکسی کے فلسفے کو انہوں نے نہ تو آنکھ بند کرکے قبول کیا نہ عام ترقی پسند نقادوں کی طرح انہوں نے جہاں جہاں ضرورت ہوئی مارکسی تنقید کی خامیوں کی نشاندہی کی اور جہاں تک ممکن ہوسکا انہوں نے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ۔مثلاً وہ ایسے مارکسی نقادوں کی تائید نہیں کرتے جو معاشی ارتقا سے میکانکی طور پر ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنے والے اور تاریخی جبریت کے اصول پر ادیب کو اس کی سماجی ذمہ داری سے معذور قرار دیتے ہیں۔ احتشام حسین ادیب کو ایک باشعور اور فاعل مختار انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اس سے یہ امید کرتے ہیں کہ انسانی سماج کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں وہ بھر پور حصہ لے۔ اس طرح وہ ادیب کو جدوجہد کرتی ہوئی انسانیت کاایک رکن سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی بھلائی میںہی ادیب کی بھلائی بھی ہے۔ مزید بر آں عام تنگ نظر مارکسی نقادوں کی طرح احتشام حسین ہر دور کی ادبی تخلیقات کو جامد اصولوں سے ناپ کر ان کی قدر و قیمت متعین کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ ہر دور کے ادیب کا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے مخصوص حالات کے مطابق اپنے رویہ کا تعین کرے۔ ادب کی تخلیق میںاگر معاشرے اور سماج کا دخل ہے تو وہ کسی ایک بندھے ٹکے اصول کا پابند نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ تاریخ کے دھارے کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سماج کے اصول بھی تو بدلتے رہتے ہیں احتشام حسین مارکسی تنقیدکی خوبیوں اور خامیوں پرگہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے تنقیدی عمل میں دیانتداری کے ساتھ اپنی متوازن رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔ احتشام حسین نے جب تنقید نگاری شروع کی تو اس وقت کی ادبی فضا میں بحران کی سی کیفیت تھی۔ ایسے دور ذمہ داری کے ساتھ ادب اور شاعری شاعری کو صحیح معنوں میں عوامی کردار ادا کرنے کے خطوط پر ڈھالنے کی تنقیدی و علمی کوشش کی ذمہ داری قبول کرنا اور اسے واقعتاً آخری دم تک نبھانا کس درجہ کا کٹھن کام ہوسکتا ہے۔ اس کااندازہ احتشام حسین کے ابتدائی دس پندرہ برس کے تنقیدی مضامین پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جس انہماک علمی گہرائی اور گیرائی سے مارکسی اصولوں کی سوجھ بوجھ اور ان کی روشنی میں متذکرہ بالا نوع کی الجھی ہوئی ادبی صورت حال کو جذباتیت اور اندھی تقلیدی روش کی بھول بھلیوں سے نکال کر سماجی ذمہ داری سنبھالنے کی راہ پر ڈالا وہ فی الواقعہ کسی اکیلے فرد کا نہیں ایک پورے ادارے کا کام تھا۔

No comments: