Wednesday, December 9, 2009

فیض: حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا نقیب


از زرقا مفتی
دستِ تہِ سنگ کے کلام میں یاسیت اور کسی حد تک بے بسی کارنگ غالب ہے۔ بیزار فضا، در پئے آزار صباہے یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے وہ تیرگی ہے رہِ بتاں میں چراغِ رخ ہے نہ شمعِ وعدہ کرن کوئی امید کی لاو کہ سب درو بام بجھ گئے مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے یہ عجب قیامتیںہیں تری رہ گزر میں گزراں نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم ، نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی اس مجموعے میںکچھ نظمیں اضطرابی کیفیت کی آئینہ دار ہیں، کہاں جاوگے، پاس رہو، رنگ ہے دل کامرے، شہرِیاراں۔ ایک نظم خوشا ضمانتِ غم اہلِ وطن کی محرومیوں کا نوحہ ہے۔ ہر ایک خانہ ویراں کی تیرگی پہ سلام ہر ایک خاک بسر خانماں خراب کی خیر ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام ہر ایک دیدہ پر نم کی آب و تاب کی خیر فیض صاحب کی شاعری میں دو عشق نظر آتے ہیں ایک روایتی عشق اور ایک وطن سے عشق، اکثر مقامات پر وہ وطن کو ہی محبوب بنا کر مخاطب ہوتے ہیں۔ فیض صاحب اپنے وطن کو طبقاتی تضادات سے پاک دیکھنا چاہتے تھے وہ اشتراکی نظام کے قائل تھے اور زندگی بھر اپنے نظریئے پر قائم رہے اس راہ میں ان پر غداری کے الزامات بھی لگے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اورانہوں نے جلا وطنی بھی اختیار کی۔ جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔میری کوتاہ نظری کا قصور کہئے یا پھر فیض صاحب کے اولین کلام کے سحر کوموردِ الزام ٹھہرائیے سرِ وادی سینا میں مجھے چند نظمیںہی پسند ہیں سرِ وادی سینا کا انتساب عوام اور اس کے دکھوں کے نام ہے نظم کا عنوان ہے۔۔آج کے نام آج کے نام اور آج کے غم کے نام آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا ........ ان اسیروں کے نام جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام وہ جو خوشبو ئے گل کی طرح اپنے پیغام پہ خود فدا ہو گئے ہیں سرِ وادی سینا سے میری دوسری پسندیدہ نظم ہے لہو کا سراغ کہیں نہیں ہے کہیںبھی نہیں ہے لہوکا سراغ نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخی لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں نہ خاک پہ کوئی دھبا نہ بام پہ کوئی داغ کہیں نہیں ہے کہیںبھی نہیں ہے لہوکا سراغ ان کے علاوہ یومِ آزادی پر لکھی گئی ان کی دعا آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں ........ آیئے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی زہرِ امروز میں شیرینی فردا بھر دے وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے ایک غیر معروف سی نظم ہے فرشِ نومیدیِ دیدار جس میں دل میں جلتی بجھتی آرزووں کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی میری پسندیدہ نظموں کے علاوہ حذر کرو میرے تن سے ، بلیک آوٹ ، سپاہی کا مرثیہ ، دلدار دیکھنا ، یہاں سے شہر کو دیکھو ایسی نظمیں ہیں جو بار بار پڑھی جا سکتی ہیں۔ شامِ شہرِ یاراں میں بہت سی سحر انگیز نظمیں او ر غزلیات شامل ہیں کچھ تراجم ہیں اور کچھ پنجابی کلام ہے۔ شاید ہم میں سے بہت سے فیض کی پنجابی شاعری سے واقف نہ تھے۔شامِ شہرِ یاراں کی پہلی نظم ہے جس روز قضا آئے گی شاید فیض صاحب نظم لکھتے وقت خود کو عمر کے آخری پڑاومیں محسوس کر رہے تھے۔ اس نظم کا آخری بند نقل کر رہی ہوں کس طرح آئے گی ، جس روز قضا آئے گی شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اولِ شب بے طلب پہلے پہل مرحمتِ بوسہ لب جس سے کھلنے لگیں ہر سمت طلسمات کے در اور کہیں دورسے انجان گلابوں کی بہار یک بیک سینہ مہتاب کو تڑپانے لگے ایک اور نظم سے چند سطورملاحظہ کیجئے:: جس راہ چلے جس سمت گئے یوں پاوں لہو لہان ہوئے سب دیکھنے والے کہتے تھے یہ کیسی ریت رچائی ہے یہ مہندی کیوں لگائی ہے وہ کہتے تھے کیوں قحطِ وفا کا ناحق چرچا کرتے ہو پاوں سے لہو کو دھو ڈالو اک حرف کی تلاش میںفیض نے ایک دلنشیں نظم کہی ہے۔ آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی دل نشیں حرف کوئی ، قہر بھرا حرف کوئی حرفِ الفت کوئی دلدار نظر ہو جیسے عمر کے آخری پڑاومیں بھی فیض صاحب درِ امید کے دریوزہ گر بنے رہے ہم کہ ہیں کب سے درِ امید کے در یوزہ گر یہ گھڑی گزری تو دستِ طلب پھیلائیں گے شامِ شہر ِ یاراں کا تذکرہ فیض صاحب کی نظم’بہار آئی‘ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ ’مرے درد کو جو زباں ملے‘،’ اے شام مہرباں ہو‘، ’ہم تو مجبور تھے اس دل سے‘ اور ’ سجاد ظہیر کے نام ‘ اثر انگیز نظمیں ہیں۔اس مجموعے میں کچھ غزلیں بھی شامل ہیںجن میں سے میری پسند کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے تجھے پکارا ہے بے ارادہ جو دل دکھا ہے بہت زیادہ وہ آئے پرسش کو پھر سجائے قبائے رنگیں ادائے سادہ حیراں ہے جبیں آج کدھرسجدہ روا ہے سر پر ہیں خداوند، سرِ عرش خدا ہے یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا تین آوازیں ایک ایسی نظم ہے جس میں مجھے اقبال کی نظموں کا رنگ نظر آیا تاہم یہ نظم حقیقت سے بہت قریب اور تلخ ہے۔ یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے‘ خود احتسابی کی کیفیت میں لکھی ہوئی ایک یادگار نظم ہے۔ دلِ من مسافر خود ساختہ جلاوطنی میں لکھی ہوئی نظم ہے بے حد سادہ اور بے حد پ اثر۔ مرے دل مرے مسافر میں کچھ دلنشیں غزلیں شامل ہیں ان سے کچھ اشعار نقل کررہی ہوںملاحظہ کیجئے: گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب کون کرتا ہے وفا عہدِ وفا آخر شب سہل یوں راہ زندگی کی ہے ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے وہ نشاطِ آہِ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا فیض صاحب کی آخری نظموں میں ’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘ اور ’عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا ‘ یادگار ہیں موت کی دستک پہچان کر شاید انہوں نے یہ شعر کہا ہوگا اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے اور آ ج شب کوئی نہیں ہے آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی اور مکیں کوئی نہیں ہے آخر میں یہ دو اشعار شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خوان بن کر ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے

No comments: