Wednesday, December 9, 2009

مولانا حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری از ڈاکٹر شفیق اعظمی

مولانا حسرت موہانی بڑی ہمہ گیر اور رنگا رنگ شخصیت کے مالک تھے وہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی، سیاسی مفکر بھی تھے اور ایک باغی انسان بھی۔ انہوں نے قطعات بھی کہے ہیں او ررباعی بھی، سیاسی نظمیں بھی لکھی ہیںاور عشقیہ غزلیں بھی، لیکن میرے خیال میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی عشقیہ شاعری کی ہے۔ حسرت کی عشقیہ شاعری ماﺅرائی نہیں بلکہ ارضی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو جھوٹی دربار داری اور روایتی باتوں سے پاک کیا اور اسے حقیقت اور فطرت کا آئینہ بنایا۔ ساتھ ہی اسے عشق و محبت کی ہر ادا سے آشنا کیا۔ ان کا محبوب کوئی تخیلی معشوق نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے کا فرد ہے، جس میں آپ اور ہم سانس لے رہے ہیں اور وہ اس وقت کے بعض شعرا کے محبوب کی طرح کوئی نو خیز لڑکا بھی نہیں ہے بلکہ ان کے من مندر میں رہنے والا محبوب صنف نازک سے تعلق رکھنے والی کوئی لالہ رخ لڑکی ہے۔ حسرت کی عشقیہ شاعری اس اعتبار سے بھی دوسرے شاعروں سے مختلف ہے کہ ان کے یہاں یاسیت فراریت اور قنوطیت نہیں پائی جاتی، اس کے بر عکس ان کی غزلوں میں، شگفتگی ،رعنائی اور صحت بخش رجائیت ملتی ہے۔ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری ایک ایسی جھیل کی مانند ہے جس میں خوشی اور مسرت کے ان گنت پھول کھلے نظر آتے ہیں اس میں جذبات کی اصلیت اور احساسات کی صداقت کا پر تو نظر آتا ہے۔ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری میں جو بھی عناصر ملتے ہیں ان کا تعلق ہمارے سماج سے ہے اور یہی اردو شاعری کو حسرت کی دین ہے اس بات کا سراغ بھی ملتا ہے کہ حسرت کو اوائل عمری ہی میں عشق ہوگیا تھا انہوں نے حسن کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور اس کی ہر ہر سحر کاری کے شکار ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جو تغزل ملتاہے عشق کی جو سرمستی پائی جاتی ہے وہ تخیلی یا تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی دنیا سے تعلق رکھتا تھا اس لئے ان کے تغزل میں نسوانی حسن اپنی تمام تر دلربائیوں کے ساتھ موجود ہے اور عشق و محبت اپنی تمام تر نزاکت و لطافت کے ساتھ ایک ایک شعر میں رچی بسی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں کیا ہو یہ آج پوچھیں گے اس نازنیں سے ہم تجھ ساکہیں جو ڈھونڈ نکالیں کہیں سے ہم حسن بے پردہ کو خود بیں و خود آرا کر دیا کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا میں تو سمجھا تھا قیامت ہوگئی خیر پھر صاحب سلامت ہوگئی عشق نے ان کے سکھادی شاعری اب تو اچھی فکر حسرت ہوگئی نہ ہوگی شفا چارہ گر دیکھ لینا نہ جائے گا درد جگر دیکھ لینا نہ بھولے گا وہ وقت رخصت کسی کا مجھے مڑ کے پھر اک نظر دیکھ لینا چونکہ ان کا عشق حقیقی اور گھریلو قسم کا تھا اس لئے ان کی شاعری میںواقعیت بھی پائی جاتی ہے ان کی شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ واقعیت پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہوجانا مرا اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً اور دو پٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لئے وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاﺅں آنا یاد ہے ان کی غزل کو ہم رسمی یا تخیلی ہرگز نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں حقیقت کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔انہیںاپنی خالہ زاد بہن نسیمة النسا سے عشق ہوگیا تھا اور ان کی شادی بھی ماموں زاد بہن سے ہوئی تھی اس لئے یہ قیاس کیا جاتاہے کہ یہ غزل انہیں دونوں خاتون میں سے ایک کی مرہون منت ہے۔ پوری کی پوری غزل حسرت کی حیات معاشقہ کی غماز نظر آتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دوپہر کی دھوپ میں کوٹھے پر عاشق کو بلانے کے لئے آنا وہ بھی ننگے پاﺅں نہایت ہی فطری ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں پیکریت بھی جگہ جگہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملتی ہے۔ جو خاصے کی چیز ہے یہاں پر بطور مثال کچھ اشعار پیش کرنا بے محل نہ ہوگا بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دباکر چھوڑا سر کہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پاﺅں کہیں ان کا سونا بھی کس شان کاسونا دیکھو کھول کر بال جو سوتے ہیں وہ شب کو حسرت گھیر لیتی ہیں انہیں زلف معنبر کیاخوب غصے سے ادائے ناز ان کی گرمی میں ہے لطف چاندنی کا نہ چھیڑ دیکھ انہیں محوخواب رہنے دے خدا کے واسطے یہ اضطراب رہنے دے اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام چونکہ ان کا محبوب ارضی ہے اس لئے محبوب کے مختلف اعضائے جسمانی اور مختلف قسم کے بناﺅ سنگار کا ذکر کرنا ناگزیر تھا۔ انہوں نے اپنے محبوب کے ایک ایک عضو کی خوبصورتی کو بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں بڑی رعنائی پیداہوگئی ہے۔ کہتے ہیں دل خون ہوئے جاتے ہیں ارباب نظر کے رکھتی ہے قیامت کا تری سرخی لب رنگ چاند کی رات میں پھولوں کا یہ زیور کیا خوب رنگ لائے گا ترا حسن معطر کیا خوب کہیں کہیں معاملہ بندی کے اشعار بھی ملتے ہیں گستاخ دستیوں کا نہ تھا مجھ میں حوصلہ لیکن ہجوم شوق نے مجبور کر دیا عشق و محبت میں کبھی کبھی بد گمانیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال بھی ان کی شاعری میںموجود ہے۔ توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہوجائےے بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائےے رات کو جب محبوب کی یاد ستاتی ہے تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں شب کا یہ حال ہے کہ تری یاد کے سوا دل کو کسی خیال سے راحت نہیں ہوتی مایوس ہوچلا تھا تسلی سے حال دل پھرتونے یاد آکے بدستور کردیا ان کے اشعار میں نفسیاتی جھلکیاں بھی جگہ جگہ ملتی ہیں مثال کے طور پر دو شعر کافی ہوں گے۔ آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے مائل شوق مجھے پاکے وہ بولے ہنس کر دیکھو تم نے جو چھوئے آج ہمارے گیسو غرضیکہ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری میں جو دلکشی اور رعنائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محبوب سے قربت اور اپنائیت کاجو احساس حسرت کے یہاں ملتا ہے وہ کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ہے۔

No comments: