Wednesday, December 9, 2009

اُردو ادب میں احتشام حسین کا مقام از پروفیسر اسد علی خاں

کلیم الدین احمد کو اردو کے اہم نقادوں میں سے ہیں اور قدماءکے بارے میں ان کا لہجہ متین اور سنجیدہ ہے لیکن دور حاضر کے بعض ادیبوں پر رائے زنی کرتے ہوئے ان کے انداز میں پھکڑ پن پیداہوگیا ہے۔ تاہم ”جہاں تک احتشام حسین کی نقادانہ شخصیت کا تعلق ہے وہ اپنی نظریاتی بساط پر اتنی مضبوط ہے کہ اس پر ایسے جھونکوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔“ نظریاتی اعتبار سے کلیم الدین احمد ترقی پسند تحریک کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ترقی پسند شاعری ادب و تنقید میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور مجنوں گورکھپوری کے بارے میں بھی ان کا رویہ اچھا نہیںرہا اور احتشام حسین کے معاملے میں تو وہ حد سے بڑھ گئے۔ اس طرح ان کے ایسے غیر ذمہ دارانہ اعتراضات کی حیثیت بہت گھٹ کر محض نکتہ چینی کی سی رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے احتشام حسین پر یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ ادیب و شاعر سے عمرانی اور معاشی شعور اور عمل کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کہیں کسی ادیب یا شاعر میں شعور کی کمی ہو تو: ”اس کو ایک نقص کی طرح نمایاں کرتے ہیں اور اگر کسی ادیب اور شاعر کے یہاں اس شعور کی فراوانی پاتے ہیں تو اس کے ادبی اور فنی نقائص سے بڑی حد تک صرف نظر کرتے ہیں۔ غالب اور اقبال پر ان کے مطالعات اور سردار جعفری اور سجاد ظہیر کے متعلق ان کے تبصرے ان کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔“ غالب اور اقبال کے بارے میں احتشام حسین کے نظریات کا تفصیلی مطالعہ کیا جاچکا ہے۔ جہاں وہ ایک متوازی رائے قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر سب نقاد غالب اور اقبال کے مطالعات میں صرف ان کی خوبیوں کو ہی اجاگر کرتے رہے ہیں تو پھر بار بار ان خوبیوں کو دہرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نیا نقاد ان خوبیوں کو اگر تسلیم نہیں کرتا تو وہ اس کے لئے دلائل پیش کرتا ہے اور جن خامیوں کو دیگر نقاد وں نے نظر انداز کیا ہے ان کی جانب اشارہ کرتا ہے تاکہ صحیح رائے قائم کی جاسکے۔ یہی احتشام حسین نے غالب اور اقبال کے سلسلے میں کیا ہے۔ اگر پرانی باتیں ہی دہرانی ہیں تو پھر نئے مضامین لکھنے اور نئے مطالعے کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے!! جہاں تک سردار جعفری اور دیگر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا تعلق ہے عبد المغنی کا یہ اعتراض بھی درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ احتشام حسین نے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں پر بھی تنقید کی ہے ۔ اس کی تصدیق ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے ایک مطالعے میں بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں: ”بحیثیت نقاد نثر نگار احتشام حسین کا کام بہت دشوار تھا ان کے لئے ترقی پسند کے اصل مفہوم کو خود سمجھ لینا یا قطرے میں دجلے کو دیکھ لینا ہی کافی نہ تھا۔ بلکہ دوسروں کو دکھانا اور سمجھانا بھی ضروری تھا۔ احتشام حسین نے یہ مشکل فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔ صرف غیروں کو نہیں اپنوں کو بھی ترقی پسند کے اصول مفہوم اور اس کی غرض و غایت سے آشنا کیا۔ انہیں ان کی بے راہ روی پر ٹوکا راہ راست پر لگایا اور تحریک کی شیرازہ بندی کو بہر حال برقرار رکھا۔ ترقی پسند تحریک کے سب سے بلند قامت شاعر سردار جعفری اور مجروح سلطانپوری کو اگر احتشام حسین بر وقت نہ ٹوکتے رہتے تو ان کی ابتدائی شاعری کا رنگ اور بعد کی شاعری کے بھی بعض اجزا بتاتے ہیں کہ ان کی شاعری محض نو مسلم کا جوش ثابت ہوتی۔ محض نعروں اور مارکسیت و اشتراکیت کے بارے میں نظریاتی پسند کا شکار ہوکر رہ جاتی لیکن احتشام حسین کی تعمیری اور مخلصانہ تنقید نے انہیں بچا لیا۔“ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس سلسلے میں دونوں شاعروں کے ایک ایک شعر کی مثال دیتے ہیں۔ سردار جعفری کا شعر ہاتھ سے میرے، میرا قلم چھین لو اور مجھے ایک بندوق دے دو اور مجروح کی ایک غزل کا مصرع اب بتوں پہ وہ ساعت آپڑی کہ اے مجروح آج زخم سر بہتر دل پہ چوٹ کھانے سے احتشام حسین کی ناقدانہ بصیرت نے ان اشعار کو خام اور ناقص ٹھہرایا۔ ان کے بارے میں انہوں نے واشگاف انداز میں رائے دی کہ کسی شاعر یا ادیب کے لئے فنکاری ترک کرکے میدان جنگ میں چلے جانا اور قلم کو پھینک کربندوق اٹھالینا، خیالی اور رومانی تصور کا نتیجہ ہو تو ہو انقلابی شعور کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ قلم کے مقابلے میں بندوق ایک کمزور ہتھیار ہے اور اسے قلم سے زیادہ طاقت ور جاننا قلم اور صاحب قلم دونوں کے منصب سے بے خبری کا سراغ دیتا ہے۔ مجروح کے شعر کو بھی انہوں نے گو خوبصورت کہا مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ جس نے دل پر چوٹ نہیں کھائی وہ سر پر چوٹ کیسے کھائے گا؟ سر پر چوٹ کھانے کے لئے دل پر چوٹ کھانا ضروری ہے ! ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ : ”اس طرح کے ایک دو نہیں سیکڑوں مقامات پر احتشام حسین نے گرفت کی اور ترقی پسند تحریک کے ارکان کو راہ سے بے راہ ہونے سے بچایا۔“ حقیقت تو یہ ہے کہ نقاد کا کام محض تعریف و تنقید ہی نہیں تبصرے بلکہ ادب اور فن کی اصلیت حسن اور اثر کو بھی آلودگی اور ثبوت کے حوالے سے ہر تصویر کے دو رخ دکھائے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا۔ بد قسمتی سے اردو تنقید میں ”تنقید برائے تنقید“ کا رجحان محض ذاتی شہرت اور فوری پہچان کا کلیہ سمجھا جاتا رہا ہے اور جتنے بڑے نقاد یا ادیب پر جتنی بے سرو پا تنقید کی جائے گی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی ہی زیادہ ان کو اہمیت حاصل ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ رویہ اور تصور کسی سنجیدہ بالغ نظر اور صحیح الدماغ شخص کا نہیں ہوسکتا۔ ظہیر صدیقی نے بھی احتشام حسین پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں ان میں خاص اعتراضات یہ ہیں کہ: ”احتشام حسین جب اپنے اصول تنقید وضع کرتے ہیں تو وہ مارکسی نظریات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جب مارکسی نظریات کی باتیں کرتے ہیں تو ان کا اصول دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کون سی مصلحت ہے جس کے تحت وہ اپنے اصول تنقید اور ادب کے تجزیے میں توافق اور توازن نہیں پیدا کر سکے۔“ یہ اعتراض تقریباً ویسا ہی ہے جیسا پروفیسر راجندر ناتھ شیدا اور سلیم احمد نے آگے چل کر کیا۔ گویا اصلی اعتراض یہ ہے کہ مارکسی نظریات تو کچھ اور ہوتے ہیں لیکن احتشام حسین تنقید کرتے وقت صرف مارکسی نظریات ہی نہیں بلکہ دیگر اصول اور نظریات بھی استعمال کرتے ہیں۔ گویا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ بات پہلے واضح کی جاچکی ہے کہ احتشام حسین نے کبھی بھی مارکس کے مکمل نظریات کو کلی طور پرنہیں مانا۔ وہ مطالعاتی اور تاریخی مادیت کے تو قائل تھے مگر انہوں نے جو نظام تنقید اختیار کیا اس کی ترکیب میں دیگر سماجی علوم سے بھی استفادہ شامل کیا۔ یہی تنقید بعد میں سائنٹفک تنقید کہلائی اور احتشام حسین نے نہ صرف اسے اردو ادب میں متعارف کرایا بلکہ اسے کامیابی سے اپنی عملی تنقید میں برتابھی۔جہاں تک رومانیت ، جمالیات اور جنسیت کا تعلق ہے تو مارکس نے ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی ترقی پسند تحریک کے رہنماﺅں نے انہیں رد کیا تھا۔ نہ صرف احتشام حسین بار بار ان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں بلکہ ترقی پسند تحریک اور سجاد ظہیر نے بھی ان کی افادیت کو تسلیم کیا۔ تاہم رومانی نظریے جمالیات کو جمالیاتی نظریے اور جنسیت کو فرائڈ کے نظریات کی روشنی میں احتشام حسین نے کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ ان کے عمرانی اور معاشی پہلووں پر زور دیتے تھے۔ ڈاکٹر سید نواب کریم نے تو براہ راست مارکس کے ماننے والوں پر تنقید کرتے ہوئے خود مارکس پر بھی تنقید کی ہے: ”افسوس تو یہ ہے کہ خود مارکس کے تصور حیات کے باریک پہلووں کو مارکس کے نام نہاد پجاریوں نے نہیں سمجھا اور اس کو الٹے سیدھے معنی پہناکر اس کی غلط تعبیریں پیش کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مارکس کی عظمت ایک فلسفی اور اقتصاری مفکر کی حیثیت سے ناقابل تردید ہے لیکن ادب سے متعلق اس کے خیالات کوکوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ وہ نہ ادیب تھا اور نہ ادب کا نقاد۔“ سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر سید نواب کریم کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ وہ مارکس کی تحریروں سے براہ راست واقف نہ تھے۔ انہوں نے جو کچھ ادھر ادھر سے دیکھا اور پڑھا اس کی بنیاد پر انہوں نے درج بالا بات کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارکس کا بنیادی فلسفہ ہی یہی ہے کہ تمام علوم جن میںادب ،ثقافت، مصوری اور دیگر فنون لطیفہ میں شامل ہیں بلا واسطہ طور پر یا بالواسطہ طور پر معاشی اور عمرانی تغیر ذرائع پیداوار میں تبدیلی یا ذرائع پیداوار پر دست رس رکھنے والوں کے معاشی اور عمرانی حالات میں تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ ان سب کی بنیاد کا اگر کھوج لگایا جائے تو ان کی جڑیں اقتصادی اور سماجی کشمکش میں پیوست نظر آئیں گی۔ یہاں اس نظریے کی وضاحت کا موقع نہیں البتہ اگر مارکس اور ان کے پیرو کار دانشوروں اور انقلابیوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا جائے توساری بات واضح ہوجائے گی۔ ڈاکٹر سید نواب کریم نے اگر مارکس اینگلز لینن اسٹالن ماﺅزے تنگ کم ال سنگ ہوچی منہ، چی گویرا، فیڈرل کاسترو گورکی اور لونا چر سکی کا سائنسی مطالعہ کیا ہوتا تو وہ یہ بات کرتے ہوئے ضرور کچھ سوچتے ۔مارکس ماﺅزے تنگ ہوچی منہ چی گویرا تو شاعر بھی تھے۔ اور ماﺅزے تنگ اور ہوچی منہ کی نظموں کا اردو میں بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے۔لینن نے گورکی سے ادب اور ادیبوں کے بارے میں طویل بحثیں کیں۔ لینن ادب و ثقافت کے متعلق نظریات جو مارکس کے نظریات ہی کی تفسیر ہیں۔ کتابی شکل میں بھی موجود ہیں۔ ماﺅزے تنگ اور کم ال سنگ نے ادب و ثقافت ،فنون لطیفہ کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ چی گویرا کی ڈائری تو بہت مشہور ہوئی مگر اس کے علمی و ادبی اور فلسفیانہ مضامین پر بہت کم لوگوں کی نظر پڑی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو علمی زندگی پر بہت کم لوگوں کی نظر پڑی ہے، یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو عملی زندگی میں برتنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان مفکرین کے خطوط میں بھی ان کے ادب فن کے بارے میں نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے تجربات نئے علوم کامیابی اور ناکامی کے مرحلوں نے ان نظریات پر گہرا اثر ڈالا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ بہتر ہوتے گئے لیکن بنیادی طور پر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان سب تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اگر جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کی روشنی میں دیگر متعلقہ کتب کا مطالعہ کر لیاجائے تو تنقید کرنے میں توازن قائم ہوسکتا ہے اور تنقید برائے تنقید سے بچا جاسکتا ہے۔

No comments: