Wednesday, December 9, 2009

فورٹ ولیم کالج کی اردوخدمات از شجاعت علی سندیلوی



فورٹ ولیم کالج کی اردوخدمات
شجاعت علی سندیلوی
آسان اور عام فہم اردو نثر کے آغاز اورارتقا میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کواولیت بھی حاصل ہے اور اہمیت بھی۔ یہ کالج ۰۰۸۱ءمیں اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں نووارد انگریزوں کو یہاں کی زبان اور معاشرت سے واقفیت ہوجائے کیونکہ: ”برطانوی قوم کے مقدس فرض، ان کے حقیقی مفاد، ان کی عزت اوران کی حکمت عملی کا اب یہ تقاضا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی سلطنت کے حدود میں عمدہ عمل داری قائم کرنے کے لئے مناسب اقدام کئے جائیں۔“اور عمدہ عمل داری قائم کرنے کےلئے لارڈ ویلز نے سب سے اہم اور مفید کام فورٹ ولیم کالج کاقیام سمجھا، اس نے تعلیم کا ایک وسیع منصوبہ بنایا اور نصاب تعلیم میں ریاضی ، تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس، معاشیات ، مغربی اور مشرقی زبانیں ، قوانین وغیرہ کو داخل کیا اور ان کے لئے علاحدہ علاحدہ پروفیسر مقرر کئے۔ ہندوستانی زبان کے شعبہ کا صدر، مشہور مستشرق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو مقرر کیا گیا۔ گلکرسٹ کو ہندوستانی زبان (اردو)سے خاص لگاﺅ تھا درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا تجربہ ، فورٹ ولیم کالج میںآنے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ وہ ہندوستانی (اردو) زبان کو ہندوستان گیر سمجھتا تھا۔ ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر جانے اور رہنے کے بعد وہ لکھتا ہے: ”جس گاﺅں اورجس شہر سے میرا گزر ہوا وہاں اس زبان کی مقبولیت کی جو میں سیکھ رہا تھا مجھے ان گنت شہادتیں ملیں۔“ ہندوستانی زبان کے شعبہ کی یہ خوش قسمتی سمجھنا چاہئے کہ اس کا سربراہ ایک ایسا شخص تھا جو ہندوستانی زبان اور تعلیم کا ماہر، تصنیف و تالیف کادل دادہ، اردو کی ترقی و ترویج کا شائق ،علم دوست تجربہ کار، دانش ور اور دانش مند تھا بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق کے الفاظ میں: ”بلا مبالغہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو احسان دلی نے اردو شاعری پرکیا تھا اس سے زیادہ نہیں تواسی قدر احسان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے۔“ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گلکرسٹ کی بدولت فورٹ ولیم کالج اور اس کا ہندوستانی شعبہ اردو کی لسانی اور ادبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔گلکرسٹ مشکل سے چار برس تک ہندوستانی شعبہ کا صدر رہا اس قلیل مدت میں اس نے شعبہ کو بڑی ترقی دی۔ درس و تدریس کے علاوہ اس نے تصنیف و تالیف کا باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے شعبہ میں مصنفین، مترجمین کی تقرری کی۔ منشی اور ماتحت منشی بھی رکھے ، چھاپہ خانہ کھولا ،اردوٹائپ سے طباعت شروع کی ،عام اور بے پڑھے لکھے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور نووارد انگریزوں کو اردو کالب و لہجہ ، تلفظ سمجھانے کے لئے قصہ خواں مقرر کئے جو دلچسپ قصے سناکر اردو بولنے اور پڑھنے کے لئے رغبت دلاتے تھے۔ ہندوستانی مصنفین کو ان کی بہترین تصنیف پر انعام دیئے جانے کی کالج کونسل سے سفارش کرکے انعام دلایا۔ ایسے مصنفین کو بھی انعام دلایا جوکالج سے وابستہ نہیں تھے۔ کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دیئے جانے کی راہ نکالی، کتابوں کے فروخت کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہندوستانی شعبے میں، اس عہد کے نامور اردو، ہندی ادیبوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میر بہار علی حسینی، میر امن، غلام غوث، میر حیدر بخش حیدری، تارنی چرن متر کندن لال، کاشی راج وغیرہ ۴۱ حضرات کا تقرر کیا گیا۔ میر بہادر علی حسینی چیف منشی اور تارنی چرن مترا سکنڈ بالترتیب دو سو اور سو روپئے ماہوار اور بقیہ منشی ۰۴ روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ جیسے جیسے اردو شعبہ کاکام بڑھتا گیا اورطلباءکی تعداد میںاضافہ ہوتا گیا۔ مزید منشیوں کا تقرر ہوتا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک خوش نویس ، ایک ناگری نویس ، ایک بھاکا منشی اور ایک قصہ خواں کی بھی خدمات حاصل کی گئیں ۔طالب علموں کو کالج کے اوقات کے علاوہ تعلیم دینے کے لئے سندی منشی بھی مقرر کئے گئے جن کے اخراجات طالب علم ہی برداشت کر تے تھے۔اس طرح ۲۰۸۱ میں ہندوستانی شعبے کے عملے کی تعداد ۸۴ تک پہونچ گئی تھی جن میں شیر علی افسوس، مرزا علی لطف، مظہر علی خاں ولا، کاظم علی خاں جوان خلیل خاںاشک، نہال چند لاہوری، بینی نرائن جہاں، مرزا جان طیش، اکرام علی، للو لال جی وغیرہ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ سے اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور اردونثر کو مقبول عام بنایا۔ گلکرسٹ کی کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی شعبہ اور ہندوستانی زبان (اردو) ہر اعتبار سے ترقی کرے، اس کاادب بھی ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کی طرح ممتاز درجہ حاصل کرکے خاص وعام میں مقبول ہوجائے اس کوخوب سے خوب تر بنانے کی دھن تھی زبان کی توسیع و اشاعت کے سلسلے میں اس نے کالج کونسل کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا، کونسل نے سنی ان سنی کردی۔ گلکرسٹ کوجب یہ یقین ہوگیا کہ وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تو ۳۲فروری ۴۰۸۱ءکو اس نے استعفا دے دیا۔ کالج کے ذمہ داروں نے اس کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ منظور کر لیا۔ گلکرسٹ کا عہد ، ہندوستانی شعبے خصوصاً اردو کے لئے، تصنیف و تالیف اور تعلیم کے اعتبار سے ، انتہائی اہم اور مفید تھا۔ اس کی سر پرستی اوررہنمائی میں، آسان اردو نثر لکھنے کی ابتدا ہوئی،اسی نے اردو کے مشاہیر اہل زبان کی خدمات حاصل کیں اور ان سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن میںسے بعض ہمیشہ زندہ رہیں گی۔“ وہ خود بھی صاحب قلم تھا اور اس نے زبان ، قواعد زبان ، اورلغت وغیرہ پراعلیٰ درجہ کی کتابیں لکھیں۔ اس نے ہندوستانی زبان کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے، ان کی کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کی سفارش پر غور کرکے منظور کر لیا اس کے زمانے میںچوالیس کتابوںپرانعامات دیئے گئے۔ گلکرسٹ کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہواکہ اردو میں مختلف موضوعات پرکتابیں لکھی گئیں یاترجمہ کی جانے لگیں ۔ گلکرسٹ کے چلے جانے کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ فورٹ ولیم کالج نے اپنے مختصر زمانے میں جو لٹریچر پیدا کردیا اورجتنی کتابیں تصنیف ، تالیف اور ترجمہ کرادیں، پورے ملک میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں اور زبان و اسلوب کے لحاظ سے تو ایک کتاب بھی ایسی نہی ہے جو ان کتابوں کی طرح عام فہم اور مفیدہو۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین سے زیادہ تر ایسی کتابیں لکھوائی گئیں جو عام دلچسپی یعنی، تعلیمی ،اصلاحی، اخلاقی، تاریخی ہوں۔ جن سے ہندوستان کے مذہبی، سماجی، معاشی، حالات معلوم ہوں، زبان عام فہم ،دلچسپ اور رواں ہو۔ اسلوب ،سیدھا سادا اور سلجھاہوا ہو۔ میر امن کے الفاظ میں کہ گلکرسٹ نے فرمایا: ”قصے کو ٹھیٹ ہندوستانی زبان میں جو اردو کے لوگ ، ہندو، مسلمان، عورت ، مرد ، لڑکے ، بالے، خاص و عام، آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔ “ میر امن نے باغ و بہار کے دیباچے میں یہ لکھا ہے : فورٹ ولیم کالج کی کتابوں میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت ، میر امن کی اسی کتاب کو نصیب ہوئی، متعدد غیر ملکی زبانوں ، انگریزی، فرانسیسی، پر تگالی، لاطینی میں ترجمے ہوئے۔ میر امن کی زبان دلی کی ٹکسالی زبان ہے ، روز مرہ اور محاورہ کی چاشنی بیان کی سادگی و دلکشی ، منظر نگاری ، قومی و ملکی خصوصیات نے، باغ و بہار کو سدابہار بنادیا ہے ،باغ و بہار کے بعد میر امن نے دوسری کتاب گنج خوبی لکھی لیکن اس کو باغ و بہار جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ میر امن کے علاوہ چند دوسرے مشہور لکھنے والے اور ان کی مقبول اور اہم کتابیں حسب ذیل ہیں: حیدر بخش حیدری (آرائش محفل، گلزار دانش اور شعرائے اردو کا تذکرہ گلشن ہند) مظہر علی خاں ولا (سنت گلشن ۔ تاریخ شیر شاہی) میر بہادر علی حسینی (اخلاق ہندی) مرزا علی لطف (تذکرہ گلشن ہند)میر شیر علی افسوس (باغ اردو) میرزا کاظم علی جوان (شکنتلا ڈرامہ) خلیل خاں اشک (داستان امیر حمزہ)نہال چند لاہوری (مذہب عشق) بینی نرائن جہاں (دیوان جہاں۔اردو شعراءکا تذکرہ) للو لال جی (سنگھاسن بتیسی) ان چند کتابوں سے ہی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے مختصر مدت میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں، وہ ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔پونے دو سو برس سے زیادہ زمانہ گزر جانے کے باوجود فورٹ ولیم کالج کی بیش تر کتابیں آج بھی زبان و بیان کی شیرینی و دل کشی میںاپنا جواب نہیں رکھتیں۔ فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات کااختصار یہ ہے : (۱)فورٹ ولیم کالج ، غیر ملکیوںکا پہلا کالج ہے جس نے ہندوستانی زبان کی تعلیم و ترقی ،ترویج و اشاعت کی طرف توجہ دی اور اس غرض سے اس نے ہندوستانی زبان کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا۔ (۲)ہندوستانی زبان کے مشہور ادیبوں کی خدمات حاصل کیں اور ان سے کتابیں لکھوائیں۔ (۳)دوسری زبانوں کی کتابوں کے تراجم کرنے کا اہتمام کیا۔ (۴)کتابوں کی طباعت و اشاعت کے لئے پریس قائم کیا اورٹائپ سے چھپائی کاانتظام کیا۔ (۵)کالج نے قصے کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ دوسرے مفید اور دلچسپ موضوع کی بھی کتابیں۔ (قواعد ) لغت ،تاریخ، تذکرہ، مذہب ،اخلاق وغیرہ لکھوائیں۔ (۶)عمدہ کتابوں پر انعامات دینے اور کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کا آغاز کیا۔ (۷) اردو نثر کو سلیس ، عام فہم بنانے پر خاص توجہ دی۔ سچ تو یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کو، زندگی ، توانائی ،عطا کی اور اسی کی بدولت آسان نثر نگاری کا رواج ہوا۔ (۸)ہندوستان میں یہ پہلا علمی و ادبی ادارہ تھا جس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کوبھی اپنا نصب العین بنایا۔ (۹)فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کے ایسے اعلیٰ نمونے پیش کئے اور اتنی بے مثل کتابیں لکھوائیں کہ جن سے اردو ادب کے سرمائے میں قابل قدر اضافہ ہوا۔



No comments: