Wednesday, December 9, 2009

اقبال کا مرد مومن از ڈاکٹر سلیم اختر

قبال کے افکار میں ”مرد مومن“ یا ”انسان کامل“کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ اس کے لئے وہ ” مرد حق“ ”بندہ آفاقی“ ”بندہ مومن“ ”مرد خدا“ اور اس قسم کی بہت سی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں حقیقتاً یہ ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں جو اقبال کے تصور خودی کا مثالی پیکر ہے۔ نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں اور عالم تم ، وہم و طلسم و مجاز عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب وکار آفریں ، کار کشا ، کارساز کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں غرض یہ مثالی ہستی اقبال کو اتنی محبوب ہے کہ باربار اس کا ذکر کرتے ہیں اس سلسلہ میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان میں سے اہم یہ ہیں کہ اقبال نے مرد مومن کے تصور کو کہاں سے اخذ کیا ہے؟ ان کے مرد مومن کی صفات کیا ہیں؟ ان کا یہ تصور محض تخیلی ہے یا کوئی حقیقی شخصیت ان کے لئے مثال بنی ہے۔ ان سوالات کا جوابات ان کے کلام کے گہر ے مطالعے کے بعد دیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں مختلف آرا ءملتی ہیں کہ اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیاہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام مختلف اور متضاد آراءکے پیش نظر ضروری ہے کہ مرد مومن کے متعلق بات کرنے سے قبل ان افکار کا جائزہ لیا جائے جو مشرق اور مغرب میں اقبال سے قبل اس سلسلہ میں موجود تھے۔ اور اقبال نے ان سے کس حد تک استفادہ کیا اس کا انداز ہ بھی ہم بخوبی لگا سکیں گے۔ مسلمان مفکرین نے بھی انسانِ کامل کے تصور اور اس کے روحانی ارتقاءکے بارے میں بحث کی ہے۔ ”بعض لوگ اس قدر سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے ہوتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ گویا یہ لوگ غیب کی باتوں کو ایک باریک پردہ کی آڑ سے دیکھ لیتے ہیں۔ جب انسان اس بلند درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ ملائکہ کی سرحد میں داخل ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسی شخصیت عالم وجود میں آجاتی ہے جو انسانی شخصیت سے بلند ہوتی ہے اور اس میں اور فرشتوں میں بہت تھوڑا فرق رہ جاتا ہے۔ ”انسان کامل یا مرد مومن کی زندگی، جو آئین الہٰی کے مطابق ہوتی ہے ، فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیاءکی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہو جاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کامل غرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ ، اس کا کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ انسانِ ربانی کی پیدائش ہے۔“ ”عبدالکریم الجیلی“ نیٹشے مشہور جرمن فلسفی ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر انسان کے تصور کو پیش کیا ہے۔ نیٹشے اوائل عمری میں خدا کا منکر تھا۔ بعد میں اسے ایسے انسان کی تلاش کی لگن ہوگئی جو سپر مین ، فوق البشر یا مرد برتر کہلا سکے۔اس بارے میں وہ کہتا ہے۔ ” فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔ نیٹشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوس نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت و برداخت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کے لئے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے اور وہ اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے اور اس کے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔بقول پروفیسر عزیز احمد ”نیٹشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں۔ قوت فراست اور تکبر“ اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔ اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی رو میں ہے ساری خدائی بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ” اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نےابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اس کی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازوکا نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزﺅں کو پورا کرنے کے لئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔ وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جد ا کرتا ہے اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق سید وقار عظیم اپنی کتاب ”اقبال شاعر اور فلسفی“ میں اس بارے میں لکھتے ہیں، " اقبال نے اس اندرونی کیفیت ، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے اور اسے خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاءمیں سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔" مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام اقبال جسے ”مستی کردار “کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے یقین ِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے ابنائے زمانہ کے حق میں اس کا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتاہے۔ اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل پاک باز وہ رزم گاہ ِ حیات میں شمشیر بے نیام ہوتا ہے تو شبستان محبت میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ نرم نہیں ہو سکتا۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے۔ اسے نہ جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان مردِ مومن کا ایک امتیازی وصف فقر و استغنا ہے۔ وہ نیٹشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسم نہیں بلکہ اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسلام کو ”فقر غیور“ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ درویشی، فقر اور قلندری پر اقبال نے بار بار زور دیا ہے اور اسے تکمیل ِ خودی کے لئے لازمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی ہے۔ ان کے ہاں فقر کا کیا درجہ ہے اور مرد مومن کی زندگی میں اس کا کیا مقام ہے اس کا اندازہ مندرجہ زیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔ نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی فقر ارتقائے خودی سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کامل کے فقر اور فقر کافر(رہبانیت) میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ کیوں نہ ہو۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے علاوہ اقبال کے مرد مومن میں عدل ، حیا ، خوفِ خدا، قلب سلیم ، قوت ، صدق ، قدوسی ، جبروت ، بلند پروازی ، پاک ضمیری ، نیکی ، پاکبازی وغیر ہ شامل ہیں۔قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ سمر قند یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن! قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان ، قیامت میں بھی میزان اور ان تمام صفات کا حامل انسان وہ ہے جو حاصل کائنات اور مقصود کائنات ہے۔انسان کامل یا مرد مومن کے لئے اسلامی معیار ہمارے سامنے ہیں اس کے علاوہ مشرقی اور مغربی مفکرین کے ہاں انسان کامل کا جو تصور ملتا ہے۔ ان سے اقبال کے مرد مومن کا کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کو اپنے لئے معیار بنایا ہے۔ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر اقبال نے اسی کو اپنا یا ہے۔جبکہ مسلمان مفکرین میں عبدالکریم الجیلی کے افکار سے اقبال نے اثر قبول کیاہے۔ جیلی نے انسان کامل کے روحانی ارتقائکے تین مراحل مقرر کئے ہیں۔ اقبال نے بھی تربیت خودی کے تین مراحل رکھے ہیں۔جہاں تک نیٹشے کا تعلق ہے تو یہ رائے درست نہیں کہ اقبال نے اپنے مردمومن کا تصور نیٹشے کے مرد برتر سے اخذ کیا ہے۔ اقبال کا انسان کامل اخلاق فاضلہ کا نمونہ ہے اور اپنی زندگی میں اعلیٰ قدروں کی تخلیق کرتا ہے۔ برخلاف اس کے نیٹشے کا فوق البشر کسی اخلاق کا قائل نہیں ، خیر و شر کو وہ محض اضافی حیثیت دیتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہ منکر خداہے اور اس کے ہاں فوق البشر کے لئے بھی خدا کا کوئی تصور نہیں اس کا قول ہے کہ ”خدا مرگیا “ تاکہ فوق البشر زندہ رہے۔ مندرجہ بالا تمام تفصیلی بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال انسان کامل کے تمام مشرقی و مغربی تصورات سے واقف ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن ان کے مرد مومن کی صفات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے اس تصور کی بنیاد صرف اسلامی تعلیمات پر ہی رکھی۔ ان کی تصور خودی میں فرد کے لئے مردمومن بننا اور جماعت کے لئے ملت اسلامیہ کے ڈھانچہ میں ڈھلنا ایک اعلیٰ نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تصور محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے کےونکہ اسلام کے عروج کے زمانہ میں ایسی ہستیاں موجود رہی ہیں۔اب یہ بات بلا خوف کہی جا سکتی ہے کہ اقبال کا انسان کامل، مسلمان صوفیاءکے انسان کامل اور نیٹشے کے مرد برتر سے مختلف ہے اور اپنی مخصوص شخصیت ، منفرد کردار ، نرالی آن بان کے باعث وہ دوسروں کے پیش کردہ تصورات کی نسبت زیاد ہ جاندار ، متوازن ، حقیقی اور قابل ِ عمل کردار ہے۔

No comments: