Saturday, December 12, 2009

مولانا تاجور نجیب آبادی احسان دانش کے حوالے سے

مولانا تاجور نجیب آبادی احسان دانش کے حوالے سے
مولانا تاجور کو ایک دفعہ فیروز پور سے سردار اودے سنگھ شائق نے خط لکھا کہ یہاں ایک مشاعرہ ہے۔ آپ لاہور سے کچھ اچھے شاعر لے کر آجائیں تو مجھے سہولت ہوجائے گی۔ مولانا لاہور سے کئی شاعروں کو لے کر چل پڑے۔ ریل گاڑی جب فیروز پور کے قریب پہونچی تو مولانا کوکسی بات پر ملال ہوا۔ میں نے مولانا سے کہا ”آپ نے میری توہین اس لئے کہ آپ مجھے اپنے شاگرد کے مشاعرہ میں لے جارہے ہیں لہٰذا اب میںاس مشاعرے میں شرکت نہیں کروں گا اور ابھی دوسری ٹرین سے واپس لاہور چلا جاﺅں گا یہ بار احسان میرے لئے ناقابل برداشت ہے۔“ گاڑی فیروز پور کے اسٹیشن پر رکی۔ سب شعراءاتر کر اسٹیشن سے باہر چلے گئے لیکن میں گاڑی سے اتر کر لاہور جانے والی ٹرین کے انتظار میںایک بنچ پر جا بیٹھا۔ اس وقت میرا عالم یہ تھا کہ جیسے ایک اعلیٰ معیار کا مغنی اجنبی ماحول میں قدر ناشناسی سے اکتا کر اپنے ساز کے تاروں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر توڑ رہا ہو۔ مولانانے باہر جاکر جب مجھے نہ دیکھا تو پوچھا :”احسان کہاں ہے؟ اس کو بھی لاﺅنا۔“ مشاعرے کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں مشاعرے میں شریک نہیں ہوں گا۔“ یہ میرا اور مولانا کا معاملہ ہے۔ آپ لوگ اس میں دخل نہ دیں۔“ مولانا خود میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے اس وقت یہ شتر غمزے نہ کر۔ اٹھ میرے ساتھ چل۔“ میں نے کہا ....” مولانا، میں اپنی ذلت کے لئے مشاعرے میںنہیں آیا۔ آپ کے شاگرد کا مشاعرہ ضرور ہے لیکن میرے لئے اس قیمت پر مہنگا ہے کہ میں اپنی توہین سن کر بھی مشاعرے میںشمولیت کاتوسوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور آپ سے بھی ہمیشہ کے لئے ترک تعلق بہتر ہوگا۔ مولانا نے مسکراکر کہا ”ترک تعلق تو بہت ہی اچھی بات ہے جس بات کو میں خود کہنے والاتھا، وہ تو خود کہہ رہا ہے، لیکن اب تو مشاعرے میں چل۔ کمبخت! یہ تو میری عزت کا سوال ہے۔“ جب میں نے دیکھا کہ مولانا واقعی بہت پریشان ہیں تو میں نے کہا۔اچھا ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ یہاں میرے پاس بنچ پر بیٹھ کر ترنم سے ایک غزل سنائیں۔“ مولانا نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا ”یہ تو ہر گز ممکن نہیں۔“ میں نے کہا ”اگر یہ ممکن نہیں تو میں لاہور جاﺅں گا اور مشاعرے میں شرکت نہیں کروں گا۔“ مولانا : ارے بے وقوف تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں کالج میں استاد ہوں اور یہاں نہ جانے مخلوق خدا میں مجھے کون کون جانتا ہے؟ یہ لوگ کیا کہیں گے؟ میں نے کہا”مشاعرے میں جب آپ غزل پڑھیں گے اس وقت لوگ کیا کہیں گے، وہ تو تعداد میں یہاں سے زیادہ ہوں گے۔ اور پھر ریل چلی گئی اب تو پلیٹ فارم بھی ویران سا ہورہا ہے۔“ مولانا : ”ابے گدھے وہ تو مشاعرہ ہوگا، وہاں کوئی حرج نہیں ۔ یہ ضد نہ کر۔“ میں : ”مولانا یہ فیصلہ تو یوں ہی ہوگا۔“ مولانا جھلا کر چل دیئے اور تانگے میں سوار ہوگئے لیکن تھوڑی دور چل کر تانگے کو رکوایا اور اکیلے واپس آئے کہنے لگے”خبیث ! بتا کون سی غزل گاﺅں؟“ مولانا نے بنچ پر بیٹھ کر دھیمے سروں میں اپنی غزل سنائی جس کا ایک شعر یہ ہے تو اگر خدا بھی ہے، میں تجھے نہ مانوں گا بندگی کسی کی ہو، بندگی نہیں اچھی میں نے مولانا کے ہاتھ چوم لئے اور کہا ”میں تو آپ کا خادم ہوں ، میرا طرہ امتیاز جو ہے وہ سب آپ کی توجہ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم، اگر آپ خود نہ آتے تب بھی میں مشاعرے میںسر کے بل پہونچتا۔ “ چنانچہ میں مولانا کی معیت میں مشاعرے میں گیا اور بخیر و خوبی مشاعرہ انجام کو پہونچا۔ مولانا سے جب کوئی میری برائی کرتا تو وہ ہاں میں ہاں ملادیتے اور کہتے ارے بھائی ! وہ کوئی پڑھا لکھا انسان تو ہے نہیں۔ مزدوروں میں زندگی گزاری ہے۔ ان ہی میںاب تک اٹھتا بیٹھتا ہے۔ وہ سوسائٹی کے لحاظ سے محنت کش طبقہ کا آدمی ہے۔ آپ اس سے مہذب لوگوں جیسا برتاﺅ کیوں چاہتے ہیں؟ اس سے تو جہاں تک ہوسکے، بچ کے رہنا چاہئے وہ دل میں بات نہیں رکھتا۔ فوراً بک دیتا ہے۔ میں بھی اس کی رات دن کی گستاخیوں اور بے باکیوں سے تنگ ہوں۔ اس کو شعرا و ادبا کی صحبتیں بھی بھلی معلوم نہیں ہوتیں۔ یہ شکاری جانور کی طرح دانشوروں کی سوسائٹی سے بھی نفرت کرتا ہے میں نے اسے بڑے اخلاقی درس دیئے۔ مگر وہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی معاشرت سے باہر کی گفتگو جانتا ہی نہیں او ر نہ اس میں کسی اور بلندی کی طرف جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ تویہ ایک کالا بلا ہے جو خود بخود مجھ سے ہل گیا ہے مگر اس کو سدھایا نہیں جاسکتا۔“ لیکن جب کوئی میری شاعری کے بارے میں تنقید ی رخ سے گفتگو کرتا ہے تو وہ فوراً برہم ہوجاتے اور کہتے ”احسان دانش کی زندگی اور کج خلقی کے متعلق جو کہہ دو اس کو درست سمجھ لوں گا مگر جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق ہے وہ میرے اور آپ کے دونوں کے بس کا نہیں، وہ دور نکل چکا ہے یہ تو اس کی شرافت ہے کہ اپنی حدود میں ہے ورنہ جہاں وہ شاعری میں ہے وہ مقام ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا۔ رہا عیوب کا سوال ،وہ کرم کتابی ہے خود سنبھل جائے گا۔اسے مطالعہ کرنا آتا ہے اور بڑے اچھے مضبوط دل و دماغ کا مالک ہے۔ ہاں! یہ بھی بتادوں کہ اس سے الجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔وہ گالی بھی طبع زاد دیتا ہے اور مار دھاڑ کے معاملے میں بھی فن بنوٹ کا ماہر ہے۔ وہ اگر شاعر نہ ہوتا اور ماحول سازگار نہ مل جاتا تو شاید پھانسی پر چڑھ چکا ہوتا اس میں ایک کچلی ہوئی بغاوت اور زخمی غیرت بولتی ہے جس کو وہ اپنی شاعری کا نام دیتا ہے اس کی خاندانی شرافت اور اسلامی تہذیب کی دیواریں اسے روکے ہوئے ہیں ورنہ اب تک کیا سے کیا ہوجاتا۔“ بعض اوقات قدرت انسان کو انہیں حالات سے دوچار کرتی ہے جس سے وہ گریزاں اور خائف رہتا ہے۔ چنانچہ یہی معاملہ مولانا تاجور کے ساتھ بھی ہوا۔ موصوف موت کا نام سن کر لرزتے تھے اور بہت کم جنازوں میں شرکت کرتے تھے قدرت کو شائد ان کی یہ بات نہ بھائی، چنانچہ پندرہ دن کے اندر اندر ان کے دو نوجوان لڑکے راہی ملک عدم ہوئے۔ دوسرے لڑکے کی موت پر تو وہ ایک کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور جنازے کے ساتھ تک نہیں گئے۔ چند لوگوں نے ہی مل کر اس کو سپرد خاک کیا۔ دو جوان بھائیوں کی برابر قبریں اور ان کے ارد گرد کی فضا مجھ پر ایسی طاری ہوئی ”دو قبریں“ کے عنوان سے میں نے ایک نظم کہی جو میرے کلام کے ایک مجموعے میں شامل ہے۔ اس نظم کاایک شعر ہے۔ یہ پھول اپنی لطافت کی داد پانہ سکے کھلے ضرور مگر کھل کے مسکرانہ سکے یہ شعر کچھ ایسا عام ہوگیا ہے کہ آج قبرستانوں میں کئی قبروں پر کندہ ملتا ہے اس حادثہ کے بعد مولانا تاجور پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ نہ تو روتے تھے اور نہ کسی سے بولتے تھے۔ کبھی دیوار پر ٹکٹکی لگی ہوتی ہے تو کبھی چھت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جب انہیں اسی عالم میںکئی دن ہوگئے تو مجھے خطرہ ہوگیا کہ کہیں بچوں کا صدمہ مولانا کو نہ لے بیٹھے۔ عزیزوں اور دوستوں نے ان کا سکوت بہت توڑنا چاہا ۔مگر وہ غم سے پتھر ہوگئے تھے۔ بڑی مشکل سے دس بیس باتوں میں سے کسی ایک کا جواب ہاں، ہوں میں دے دیا تو دے دیا ورنہ مستقل خاموشی! جیسے ان کے سامنے کچھ مناظر تھے جنہیں وہ مسلسل تکتے رہتے تھے۔ جدھر نظر جم گئی جم گئی ۔ حالانکہ مولانا مجھ سے بڑے بے تکلف تھے لیکن ایک دم ایسے بدل گئے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے بالکل واقف ہی نہیں اور کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ آخر میں نے ایک دن سوچا کہ یوںکام نہیں چلے گا ۔گستاخ اور بے ادب تو میں اول بھی ہوں اور آخر بھی ۔ یہ سکوت توڑنا نہایت ضروری ہے چنانچہ میں نے اپنے ایک عزیز دوست سروپرکاش دامن اور مولانا کے ایک معتقد راج بلدیو راج سے کہا کہ مولانا کی یہ خاموشی خطرناک ہے۔ اگر مولانا سے ہمارا کوئی تعلق ہے تو ان کے اس سکوت کوتوڑنا درکار ہے، ورنہ مولانا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، کیا کیا جائے؟ میں نے جواب دیا ، علاج صرف ایک ہے جس طرح میں کہوں بے فکری سے اس پر عمل کرتے چلے جاﺅ اور کسی اچھے ہوٹل میں دو تین حسین عورتوں کا انتظام کردو۔ کسی بہانے سے مولانا کو لے کر چلیں گے۔ مولانا کو کمرے میں بٹھا کر ہم تم باہر آجائیں گے اور دوسرے دروازے سے ان عورتوں کو اندر بھیج دیں گے اور ان سے کہہ دیں گے کہ کسی طرح مولانا کا سکوت توڑیں۔ وہ خود زمین بنالیں گی عورتیں اس فن سے خوب واقف ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ گئے اور شہر سے باہر ایک اعلیٰ قسم کے ہوٹل میںانتظام کر آئے ۔میں نے مولانا سے جاکر کہا کہ ایک سیاح آیا ہوا ہے اور اس کا لیکچر ہے ”اسلام کا روحانی پہلو“ شہر کے معززین وہاں آئیں گے۔ مجھے ابھی ابھی ایک آدمی تاکید کرکے گیا ہے میرا خیال ہے کہ اس سیاح کے پاس مصارف ختم ہوچکے ہیں کیونکہ اس کے بیوی بچے بھی اس کے ساتھ ہیں لیکچر تو ظاہر ہے بڑا علم افروز ہوگا لیکن پھرشاید کچھ مدد کے لئے بھی چندے کی صورت میں کوئی بات نکلے۔ مولانا نے پہلے تو انکار کے لئے انگلی ہلائی لیکن جب میں نے ذرا ترشی سے اصرار کیا تو مولانا نے بیگم سے پندرہ روپئے منگواکر کیسے میں ڈال لئے اور طوعاً و کرہاً ساتھ ہولئے۔ ہوٹل میں لے جاکر میں نے مولانا کو ایک کمرے میں بٹھادیا اور کہا کہ وہ پروفیسر صاحب ابھی شہر سے نہیں آئے، کچھ انتظار کرنا پڑے گا مگر کوئی بات نہیں آپ کے لئے چائے کا انتظام کرتا ہوں ۔ مولانا نے تلخی سے کہا ”تو مجھے سب سے پہلے کیوں لے کر آگیا۔“ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چائے کے بہانے سے باہر نکل آیا اور دو چار قدم چل کر پھر واپس ہوا اور مولانا سے کہا ”ہاں جی آدمی تو جمع ہیں۔ مگر ہم لوگ تو اب چائے پی کر ہی چلیں گے۔ ابھی تو شاید برابر والے کمرے میں ان کے بیوی بچے بھی ہیں۔ وہ تنہا کہیں گئے ہیں۔ اب آنے ہی والے ہوں گے۔“ میں نے مولانا کو مطمئن کر دیا اور خود باہر آگیا دوسری طرف سے دامن نے ان عورتوں کو کمرے میں داخل کردیا۔ مولانا سمجھے یہ اس سیاح پروفیسر کی اہلیہ وغیرہ ہیں۔ چنانچہ مولانا نے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اورزور سے کہا، بہن یہاں تو میں بیٹھا ہوں۔“ انہوں نے کہا ”جی ہاں! آپ ہی سے تو ملنے کو جی چاہتا ہے چنانچہ مولانا کے ایک پہلو میں ایک اور دوسرے پہلو میں دوسری بیٹھ گئی اور دونوں نے باری باری ان کے سینے سے سینہ ملا دیا۔ پھر ایک بولی ”مولانا آپ مجھے پسند کرتے ہیں یا نہیں؟“ مولانا: میرا دل رکا جارہا ہے آپ علاحدہ ہوکر بیٹھیں۔“ اس نے مولانا کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”دل کیسے رک سکتا ہے جب یہاں چلانے والے موجود ہیں۔“ مولانا اٹھنے لگے تو دونوں نے پکڑ کر بٹھا لیا اور ایک نے گال سے گال ملا دیا، اس وقت مولانا کے چہرے کا یہ عالم تھا جیسے کوئی کسیلی دوا مولانا کے حلق سے اتر رہی ہو۔ ہم لوگ بار بار آئینہ سے دیکھ کر مولانا کی گھبراہٹ کے مزے لے رہے تھے ۔ پھر ہم برابر کے کمرے میں آگئے جہاں سے ان عورتوں کو بھیجا گیا تھا اوروہ اس قدر کم فاصلے پر تھا کہ معمولی آواز بھی ہمیں سنائی دیتی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ مولانا بہت ہی برافروختہ ہیں تو میں چائے والے ملازم کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ پھر کیا تھا مولانا مجھ پر برس پڑے اور میں خاموش کھڑا سنتا رہا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی خاموشی ٹوٹی۔ جب مجھے برا بھلا سنتے سنتے دیر ہوگئی تو میں نے کہا ”مولانا چائے پیجئے“ مولانا نے کہا ”ہرگز چائے نہیں پیوں گا“ میں نے بغیر سوچے جواب دیا کہ حضرت اس کا بل تو آئے گا اور میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں مولانا نے فوراً جیب سے پندرہ روپئے نکال کر میرے اوپر پھینک دیئے اور کہا.... ”بے حیاً ڈوب کے مرجا، شرم نہیں آتی۔ لے، بل ادا کردے ۔ابلیس!“ میں نے کہا ”حضور شرم تو آئے گی لیکن آج کی حرکات آپ کی بیگم سے ضرور کہوں گا اور ایسے ایسے حاشیہ لگادوں گا کہ ہفتوں جنگ بند نہ ہو۔ مولانا نے کہا ”نہیں ۔ نہیں۔ ایسی بات وہاں نہ کہنا، وہ کیا کہیں گی، پھر تیرا آنا جانا بھی بند ہوجائے گا۔ خبر دار!“ ”آنا جانا تو میں خود بند کردوں گا۔ ہوٹلوں کی عورتوں میں اب آپ ہی رہیں گے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ بات میں آپ کی بیگم سے چھپاﺅں۔“ آخر انہیں کسی نہ کسی دن معلوم تو ضرور ہوجائے گا اور آپ کے پیٹ میں توکبھی بات کھپتی ہی نہیں اس وقت مجھے ایک برا اور غیر مخلص انسان خیال کریں گی۔ اس لئے میں ان سے ہرگز یہ بات نہیں چھپا سکتا۔ ابھی جاکر پہلی بات ہی یہ ہوگی۔“ مولانا نے دس روپئے اور نکال کر میرے اوپر پھینکے اور کہا” مجھے یہاں سے باہر تو نکال دے، خبیث!“ میں نے کہا ”مولانا میرے تو چالیس روپئے صرف ہوئے ہیں ان روپیوں سے کیا کام چلتا ہے۔؟“ مولانا نے کہا میں سب ادا کردوں گا، گھر تک تو چل ،اتنا بھی اعتبار نہیں ہے کیا....؟“ ”اچھا ابھی چلتے ہیں ذرا چائے تو پی لیں۔“ ”ارے ظالم میرا کوئی شاگرد ادھر ادھر ہوا تو کیا کہے گا؟“ مولانا میںبھی تو آپ کا شاگرد ہوں اور یہاں مجھ جیسا ہی کوئی شاگرد آیا ہو گانا۔“ ”تو بہ توبہ تو تو بابا استاد ہے۔ شاگرد نہیں۔ بس یہاں سے جلدی چل۔“ بمشکل مولانا نے آدھی پیالی زہر مار کی اور جلدی جلدی ہوٹل سے نکلے دامن نے تانگے والے کو آواز دی۔ اور ہم چاروں تانگے میں بیٹھ گئے۔ تانگے والے نے پوچھا کہاں چلوں سرکار۔“ کسی ایسے ہوٹل میں چلو جہاں مولویوں کا زنگ اتار ا جاتا ہو۔“ مولانا بولے ”نہیں ۔نہیں فرنگ چلو، فرنگ!“ میں نے کہا ”یہ مولانا تو یوں ہی کہا کرتے ہیں کسی اچھے ہوٹل میں چلو۔“ یہ سن کر مولانا نے میری طرف گھور کر دیکھا اور تانگے سے کودنے کو تیار ہوگئے۔ میں نے مولانا کے قدم پکڑ لئے اور دست بستہ معافی مانگی۔ گھر کے سامنے تانگہ رکا تو مولانا کی جان میں جان آئی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ گھر میں پہونچے تو چار پائی پر دراز ہوگئے جب ذرا سانس ٹھکانے آئی تو میں نے کہا” مولانا بڑی محنت کی ہے اب تو چائے پلوائیے۔“ مولا نا بولے” احسان تو شیطان ہے شیطان ! آج معلوم ہوا تو تو بڑا ہی آوارہ ہے۔ تیری دوستیاں تو آوارہ لوگوں سے ہیں۔ آوارہ لوگوں سے ۔توبہ توبہ، مجھے اس کل کے لڑکے نے کیسا جل دیا ہے۔ الامان و الحفیظ۔“ مولانا کی علمی خدمات اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ان کے حریف بھی معترف ہیں لیکن اس زبانی اعتراف کے باوجود ہمیشہ ان کی کاٹ ہی کرتے رہے اور وہ اپنی جگہ ان کے اوچھے حربوں کواوٹتے رہے۔ شکایت زبان تک نہیں لائے انہوں نے کئی بار اہم اہم عنوانات سے کام کرنا چاہا لیکن مقامی مخالفتوں نے انہیں سانس تک لینے کی مہلت نہ دی اور رات دن پریشان رکھا۔ ان پریشانیوں کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے اور اگر کبھی ان کے بکھرے ہوئے مضامین کو اکٹھا کر لیا گیا تو ایک بڑا ادبی کارنامہ ہوگا۔ جہاں تک ادباءو شعراءکے طبقہ سے مجھے استفادہ کا موقع ملاہے اس سے اندازہ ہے کہ ایسے استاد بہت کم پیدا ہوتے ہیںاور جہاں تک مقامی حریفوں کی دشمنی کا تعلق ہے وہ بھی اس معیار کی ہے کہ بعض بعض لوگوں نے تو ایسے ایسے الزام تراشے جس سے عوام بھڑک اٹھیں اور قتل و غارت کی نوبت آجائے لیکن خدا اپنے نیک بندوں کی خود مدد کرتا ہے چنانچہ ان کی تمام تہمتیں صدا بہ صحرا ہوکر رہ گئیں۔ بعض بعض تو مولانا کے انتقال کے بعد بھی اپنی دشمنی سے بعض نہیں آئے۔ سنا ہے کسی نے اب یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا نے انہیں زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ مولانا تاجور کے متعلق یہ ایسا الزام ہے جسے شاید خدا بھی نہ بخشے۔ مولانا کے علم کے اعتبار سے فاضل دیو بند تھے اور پنجاب یونیورسٹی سے بھی عربی میں سند فضیلت حاصل کی تھی۔ وہ شرافت اور اتقا میں بڑے منہمک اور مرتاض تھے ان کے متعلق یہ گمان کرنا بھی صداقت کا خون کرنا ہے۔ میںاس شاعر کے لئے دعاکرتا ہوں خدا اسے معاف کرے جس نے مولانا پر الزام تراشا ہے۔ میں نے تو جب پہلی بار یہ خبر سنی تو کانپ گیا اور سوچنے لگا کہ شاید اس شخص کے سامنے موت نہیں ہے جو چند روزہ زندگی کے لئے خدا سے نہیں ڈرتا اور دوزخ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔

No comments: