Wednesday, December 9, 2009

خلیق ابراہیم خلیق-کچھ ذاتی تاثرات از شبیر علوی


خلیق ابراہیم خلیق کے بارے میں ان سے قربت اور رفاقت کے باوجود کچھ لکھنا یا کہنا میرے لئے اب بہت مشکل ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں اول تو یہ کہ ان کے ذاتی حالات خاندانی پس منظر اور علمی و ادبی کوائف سے زیادہ تر لوگ بخوبی واقف ہیں کیونکہ اپنی خود نوشت منزلیں گرد کی مانند“ میں انہوں نے سب کچھ خود ہی ”درج گزٹ“ کردیا ہے اور ناگفتنی کوئی ایسی ہے ہی نہیں جس کا انکشاف کرکے میں کسی فساد خلق کا مرتکب ہوسکوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں زندگی کے اس دور میں ہوں جب یادگار باتوں پر بھی گردش زمانہ کی تہیں جم جاتی ہیں پھر بھی دو تین تاثرات پیش کرنے کی کوشش کروں گا جن سے ممکن ہے خلیق صاحب کی بھر پور زندگی پر کسی نئے زاویے سے روشنی پڑ سکے یا کم از کم یہی ہو کہ ان کے مخلصوں کو قدرے دلچسپی ہو،میری اس کوشش کی وجہ یہ ہے کہ مدتوں سے خلیق صاحب سے ربط و ضبط رہا ہے کسی زمانے میں ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی رہے ہیں ہم دونوں، پھر بھی اصل کوشش یہ ہوگی کہ کسی طرح کے غلویا غلط بیانی کاالزام نہ عائد ہوسکے۔ میں نے سب سے پہلے خلیق صاحب کو ۶۴۹۱ءاور ۷۴۹۱ءکے ہنگامہ خیز دور میں دیکھا۔ وہ زمانہ بر صغیر کی تاریخ میں انتہائی اضطراب و ہیجان کا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کی منزل قریب تھی اور مسائل حاضرہ کے مبصر یہ تسلیم کر چکے تھے کہ ملک کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل ناگزیر ہے ۔ اصل میں ابنائے وطن نے مسلم مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں ایسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہر ہ کیا کہ عام مسلمان ایک علاحدہ ملک کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ان حالات کاذکر خلیق صاحب کی خود نوشت میں موجود ہے)اس ہنگامی دور میں ایک اہم لڑائی تو مسلمانان ہند ۶۴۹۱ءکے انتخابات میں جیت چکے تھے مگر دوسری اہم جنگ ذرائع نشر و اشاعت کے میدان میں تھی کانگریس پارٹی کے پاس دولت کی کبھی کمی نہ رہی۔ چونکہ اسے انگریزوں اور خاص طور پر ماﺅنٹ بیٹن کی حمایت حاصل تھی، اس لئے وسائل کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ مسلم لیگ کے پاس نشر و اشاعت کے وسائل تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ دو چار ہی اردو اخبارات تھے جو مسلم لیگ کے موقف کے حامی تھے۔ ایسے اخباروں میں لکھنو کے روزنامہ ”تنویر“ کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ اخبار انتخابات کے ہنگاموں میں نکلا تھا اور اس کی پشت پناہی کل ہند مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے بعض نمایاں ارکان کررہے تھے یوپی مسلم لیگ کے صدر اور کل ہند مسلم لیگ کے صدر لیڈر چودھری خلیق الزماں اور ان کے بھائی مشفق الزماں پوری طرح تنویر کی پشت پر تھے۔ میں ان دنوں انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا لیکن مسلم لیگ کے سرگرم کارکنوں میں تھا۔ الہ آباد میں پاکستان کی راہ میں تن من دھن لٹانے والوں کی ٹولی میں بھی تھا لیکن ۷۴۹۱ءمیں ہم لوگ لکھنو آگئے میں نے بی اے میں داخلہ لیا۔ چونکہ مسلم لیگ کے اعلیٰ کارکن مجھ سے واقف تھے اس لئے مجھے تنویر میں کام کرنے کا موقع مل گیا میں یونیورسٹی جاتا تھا مگر باقی وقت تنویر کے شعبہ ادارت میں مصروف رہتا تھا۔ بیگم زاہدہ خلیق الزماں ہمارے والد کے قدر دانوں میں تھیں۔ اس لئے طالب علم ہونے کے باوجود مجھے اخباری کام کرنے کا موقع ملنے میں کچھ زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ چونکہ تنویر صوبے کا واحد پاکستان دوست روزنامہ تھا اور کل ہند مسلم لیگ کے حلقوں میںاس کی پہونچ تھی۔ اس لئے اس کی ساکھ اور دھونس بہت تھی اور بڑے اچھے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اور پڑھے لکھے حضرات اس کے شعبہ ادارت میں تھے۔ ان میں کئی حضرات نے مجھ ایسے طالب علم کو دیکھ کر خاصی ناک بھوں چڑھائی۔ ان جہاندیدہ اور تجربہ کار صحافیوں کے لئے یہ بات خاصی ناراضگی کا سبب تھی کہ ایک معمولی طالب علم ان کا برابر کا رفیق کار ہے۔ اس دبی دبی سی ناراضگی اور مخالفت کی فضا میںایک صاحب نے جو ہمارے والد مرحوم سے واقف تھے آگے بڑھ کر مجھے اپنایا اور باقاعدہ اپنے حلقہ احباب میں شامل کر لیا۔ ان صاحب کے نام خلیق ابراہیم خلیق تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد حالات اور بھی دگر گوں ہوگئے۔ مغربی یوپی ،دہلی اور مشرقی پنجاب میں عام فسادات نے زندگی اتھل پتھل کردی۔ گاندھی کے قتل سے حالات مسلمانوں کے لئے اور بھی ناموافق ہوگئے اور مسلمان بڑی تعداد میں گھر بار چھوڑ کر پاکستان جانے لگے۔ دلی کے تقریباً تمام اردو رسائل اور اخبارات پاکستان منتقل ہوگئے لکھنو میں تنویر جمارہا لیکن خلیق الزماں اور ان کے ساتھیوں کے ترک وطن سے اخبار کی حالت بہت سقیم ہوگئی اور موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے پاکستان دشمن مولویوں کی ایک ٹولی نے خرید لیا ۔ نئے مالکوں کو جو گاندھی اور نہرو کو مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے تھے اور مولانا آزاد کا کلمہ پڑھتے تھے اخبار چلانے یا صحافت کا ذرا بھی تجربہ نہ تھا۔ یہ لوگ کسی چنگی کے محکمے میں منشی گیری یا ڈاک خانوں کے سامنے بیٹھ کر عرضی نویسی بھی کرنے کے اہل نہ تھے اس بات کا اندازہ لگانے کےلئے یہی کافی ہے کہ ایک ملا جی ماہانہ چندے کو ماہواری کہتے تھے۔ حالات بد سے بد تر ہوتے گئے اور خلیق ابراہیم صاحب کا ایک ذمہ دار عہدے پر رہنا ناممکن ہوگیا۔ وہ مجبوراً اخبار سے الگ ہوگئے۔ تھوڑی ہی مدت بعد ہم لوگوں کو بھی بہت ڈھٹائی سے جھوٹے الزامات لگاکر الگ کر دیا گیا۔ چونکہ ہم لوگ مسلم لیگی رہے تھے اس لئے صحافیوں کی یونین نے جو اخباری ملازمین کی صلاح و فلاح کا دم بھرتی ہے ہمارے معاملے میں کسی طرح کا احتجاج نہ کیا۔ تنویر کے نالائق مالکوں کا خیال تھا کہ نیم خواندہ ملا اور پاکستان کے ازلی دشمن اخبار کو چلالیں گے مگر مرغی پالنے والوں سے ہاتھی کیا سنبھلتا اخبار نے سسک سسک کر دم توڑ دیا خیر ہم سے کیا مطلب بقول شاعر بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا اس کی بلا سے بوم رہے یا ہما رہے بس قابل ذکر بات یہی ہے کہ تنویر کے زمانہ ادارت میں خلیق ابراہیم صاحب سے جو مراسم قائم ہوئے وہ اب تک الحمد للہ قائم ہیں۔ میںزندگی کے مختلف حوادث سے دوچار ہوتا ہوا مشرقی پاکستان چلاگیا۔ جہاں میں نے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ (لکھنو میں میں نے صرف بی اے پاس کیا تھا)اس کے ساتھ مختلف ملازمتیں بھی کرتا رہا۔ تھوڑے دنوں بعد مجھے ایجوکیشن سروس میں لے لیا گیااور اس میں سرکاری (خاص طور پر فوجی)اسکولوں اور کالجوں میں افسرمدرس کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہاں کی چھاﺅنی کے تمام سرکاری ملازمین کو ہندوستانی جنگی قیدی بنا لیا گیا اور میں بھی مع بیوی بچوں کے تقریباً دو سال تک مختلف جنگی قیدی کیمپوں میںاذیتیں اور ذلتیں سہتا رہا۔ (یہ داستان اتنی دلخراش ہے کہ میری ہمت نہ ہوسکی کہ قلم بند کرسکتا) جب میں رہا ہوکر پاکستان پہونچا تو کوئٹہ کے فیڈرل گورنمنٹ کالج میں پرنسپل ہوگیا۔ ان تقریباً پانچ برسوں میں خلیق صاحب سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ والد مرحوم کے خطوط سے علم ہوا کہ خلیق صاحب بمبئی میں جدوجہد کررہے تھے مگر ذاتی مجبوریوں کی بنا پر مع والدین و بھائی بہنوں کے پاکستان ہجرت کرگئے ہیں۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہوکر بہت خوشی ہوئی مگر اس بازیابی کے دور میں بھی ایسے زمانے گزر گئے جب ہم ایک دوسرے سے بے خبر رہے۔ اسی کے ساتھ ایسے دن بھی آئے جب ہم نے ایک دوسرے کی میزبانی کا لطف بھی اٹھایا۔ ڈھاکہ میںدو ایک بار خلیق صاحب کاآنا ہوا تب تک ہمیںبہت سی باتیں یادتھیں اور ہم لکھنو کے شب و روز کے تذکرے کرتے تھے لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد عام ذہنوں پرجواثرات ہوئے ان سب کا زیادہ مضر اثر ان لوگوں پر پڑا جو جنگی قیدی رہے تھے۔ ان دو برسوں نے ہم سب کا حافظہ اس طرح متاثر کیاکہ معمولی معمولی باتیں تو کیا اس دور کے اہم واقعات بھی ٹھیک سے یاد نہیں رہ گئے ہیں۔ آج پچاس ساٹھ برس کی مدت گزر جانے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اس تمام مدت میں ہم دونوں کے تعلقات کی عام نوعیت کیا رہی؟ ”تنویر“ میں خلیق صاحب مجھ سے سینئر تھے عمر میں بھی اور تعلیم میں بھی۔ اس کے علاوہ ۹۴۔۸۴۹۱ءکے زمانے میں بھی وہ ایک باقاعدہ معروف اور جانے پہچانے ادیب و شاعر تھے۔ جب ہم دونوں نے ایک ہی ساتھ اپنے معیاروں آدرشوںاور ترجیحات کی شکست و ریخت دیکھی بے روزگاری جھیلی مفلسی کے عبرت ناک ادوار سے گزرے پریشانیوں میں پھنسے اور اپنوں اور غیروں کے لعن طعن سہے تو فطری طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے۔ ہمارے اعزہ کی نظر میں خلیق صاحب کاان کے رفیقوں اور ساتھیوں کا اور خود میرا بھی سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ ہم زندگی کو حقیقت پسند ترقی پسند اور بین الاقوامی سطح پر سماج واد اور کمیونزم کے نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ گویا ایک طرح سے خاندان کی ناک کٹوانے کے برابر تھا، (ان دنوں کمیونسٹ ہونا ثقہ بزرگوں کی نظر میںایسا مکروہ فعل تھا جیسے کسی شریف خاندان کامیاں پوت آوارہ و مجنوں ہوجائے)۔ ہر چند کہ ہم دونوں میں کوئی نظریاتی ادبی علمی یا سماجی اختلاف نہیں تھا مگر پھر بھی یہ لکھتے ہوئے قلم کا نپتا ہے کہ انقلابی و سیاسی عقائد رکھنے کے باوجود ہم دونوں ہی سرکاری ملازمت کرنے پر مجبور ہوئے اور اسی سے سبکدوش ہوئے پھر بھی ہماری تالیف قلب بعض نمایاں ادبی اشخاص کے مقابلے میںزیادہ قابل ملامت نہیں ٹھہرائی جاسکتی ہے۔

No comments: