Wednesday, December 9, 2009

ہندی کے کچھ ترقی پسند ادیب بھی اردو کے مخالف

ڈاکٹر علی باقر زیدی

اردو کی مخالفت اگر فرقہ پرستوں کی جانب سے ہوتی ہے تو باعث حیرت نہیں لیکن اگر ان لوگوں کی جانب سے کی جاتی ہے جو خود کو ترقی پسند سیکولر اور ہر طرح کے تعصب (خواہ مذہبی ہو یا لسانی)سے اپنے کو مبرا کہتے ہیں تو نہ صرف حیرت بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بطور مشقے از خردارے، دو واقعات پیش ہیں: ۹۲اکتوبر ۹۰۰۲ءکو لکھنو یونیورسٹی کے مالویہ سبھا گار میں مشہور صحافی آنجہانی اکھلیش مصرا سمرتی راشٹریہ پری سنواد" کی جانب سے بھارت میں راجیہ سماج اور انسانی حقوق کے عنوان کے تحت ایک سیمنار جسٹس حیدر عباس رضا کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس سیمنار میں آنجہانی مصرا کی ادبی سماجی اور صحافتی خدمات کا تعارف ایک صاحب نے کرایا تھا انہوں نے اپنی تقریر میں بڑے وثوق کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ تحریک آزادی میں سب سے اہم خدمات ہندی زبان کی تھیں اور اس کے مقابلے میں دوسری زبانوں کی خدمات بہت کم تھیں۔ مذکورہ حضرت نے یہ غیر مصدقہ بات کس مصلحت سے کہی یہ تو وہی جان سکتے ہیں لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ تحریک آزادی کے دوران اردو زبان نے جو بے مثال خدمات انجام دیں اس سے وہ ناواقف نہیں۔ بہر حال ان کا یہ بیان تاریخی صداقت کے بر عکس ہے اس لئے کہ آزادی کی تحریک کو مہمیز کرنے اور دلوں میں سرفروشی کی تمنا پیدا کرنے میںاردو اخبارات اور ان کے مدیران کے کارنامے اور قربانیاں آج بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر اس زمانے میں دہلی سے ایک معیاری اخبار "دہلی اردو اخبار" نکلتاتھا جس کے مدیر مولوی محمد باقر تھے۔ اس اخبار پر بغاوت کا الزام لگا کر حکومت بر طانیہ نے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی اور اس کے مدیرمولوی محمد باقر جن کی عمر اس وقت ۷۷ برس کی تھی انہیں ۶۱ستمبر ۷۵۸۱ءکو گولی سے اڑا دیا۔ چنانچہ تحریک آزادی کا جو پہلا مجاہد صحافی شہید ہوا وہ اردو اخبار کا مدیر تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اردو کے اخبارات تھے جنہیں تحریک آزادی کی چنگاریوں کو شعلہ بنانے کے جرم میں برٹش حکومت نے ضبط کر لیا اور ان کے مدیران کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مثلاً پنجاب سے ۶۰۹۱ءمیں نکلنے والا سردار اجیت سنگھ وغیرہ کا اخبار "ہندوستان" شانتی نرائن بھٹناگر ، لالہ لاجپت رائے، دینا ناتھ، اور ظفر علی خاں وغیرہ مدیران کا اخبار "سوراجیہ" ان اخبارات کے مدیران کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں بلکہ ان میں سے کچھ کو کالے پانی کی سزا بھی ہوگئی تھی۔ پنجاب سے کئی اور اہم اردو کے اخبارات نکلتے تھے مثلاً منشی محبوب علی خاں کااخبار پیسہ، لالہ بانکے لال کا اخبار جھینگ سیال، اور میرٹھ سے نکلنے والا اخبار "منتخبہ ہند" ۔بیسویں صدی کے آغاز تک آتے آتے ملک کے گوشے گوشے سے اردو کے اخبارات نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی کا اخبار، اردوئے معلی، ظفر علی خاں کا اخبار "زمیندار" لاہور سے شائع ہونے والا پہلا سیاسی ماہنامہ آزاد سیدرضا حیدر کا دہلی سے نکلنے والا اخبار جامع العلوم' راجہ رام موہن رائے کا بنگال سے نکلنے والا اخبار "مراة الاخبار" جام جہاں نما دہلی سے سجاد ظہیر کااخبار "عوامی دور" و نیا زمانہ، مولاناابو الکلام آزاد کااخبار "الہلال" و "البلاغ" اور پنڈت جواہر لال نہرو کا لکھنو¿ سے نکلنے والا معیاری اخبار "قومی آواز" ان سب اردو اخبارات کا ایک ہی نصب العین تھا یعنی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا۔ چنانچہ ان اخبارات کو بھی برٹش حکومت کی پابندیاں جھیلنی پڑیں اور ان کے مدیران کو بھی ظلم و ستم برداشت کرنے پڑے۔ تحریک آزادی میںصرف اردو کے اخبارات اور ان کے مدیران ہی شامل نہیں تھے بلکہ اردو کے شعرا نے بھی بڑھ چڑھ کر عملی طور پر حصہ لیا تھا اور انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی تھیں مثلاً علی سردار جعفری ،رام پرشاد بسمل، مولانا حسرت موہانی، جگر مراد آبادی، اختر شیرانی، احمق پھپھوندوی، درگا سہائے سرور جہان آبادی، گوپی ناتھ امن، محمد علی جوہر، انور صابری، جمیل مظہری، مخدوم محی الدین ،شورش کاشمیری، سکھدیو پرشاد بسمل، وغیرہ ۔ان کے علاوہ بہت سے ایسے شعراءبھی تھے جنہوں نے عملی طور پر تو تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن ان کی انقلابی نظموں نے مجاہدین آزادی کے دلوں میں سرفروشی کا شعلہ جوالہ ضرور پیدا کردیا تھا مثلاً برج نرائن چکبست ،تلوک چند محروم، روش صدیقی، احسان دانش، حفیظ جالندھری، آنند نرائن ملا، ساغر نظامی، غلام ربانی تاباں، اسرار الحق مجاز ،کیفی اعظمی اور راہی معصوم رضا وغیرہ ۔لہٰذا یہ کہنا کہ تحریک آزادی میں ہندی کے مقابلے دوسری زبانوں کی خدمات کم تھیں تاریخی صداقت سے انحراف ہے۔ بر سبیل تذکرہ اب دوسرے واقعے کا بھی حال سنئے: ماہنامہ نیا دور جون ۹۰۹۱ءکے شمارے میں ڈاکٹر قمر رئیس کے سلسلے میں ص ۸۱پر مذکورہ صاحب لکھتے یہں کہ ان کی (ڈاکٹر قمر رئیس)شفقت کا زیادہ تابناک اور کسی حد تک حیران کن پہلو میرے سامنے جب آیا، جب لکھنو¿ میںاختتام پذیر انجمن اور تحریک کی گولڈن جبلی تقریبات میں پیدا شدہ تنازعہ کے بعد ان سے ملنے ان کے گھر گیا۔ اس تنازعہ کاان پر بہت اثر پڑا تھا۔ ایک طرح سے کانفرنس میںصف آرائی کا ماحول تیار ہوگیا تھا میں مخالف صف میں تو نہیں تھا لیکن ان کے ساتھ بھی نہیں تھا۔" تنازعہ کیا تھا؟ اور کانفرنس میں صف آرائی کا ماحول کیوں پیداہوا اس کی وضاحت مذکورہ حضرت نے نہیں کی۔ بات در اصل یہ تھی کہ ۵۸۹۱ءمیں رویندرالیہ میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین کی بین الاقوامی گولڈن جبلی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کانفرنس میں پاس ہونے والے مجوزہ مسودے میں ڈاکٹر قمر رئیس نے یہ تجویز بھی شامل کردی تھی کہ یہ کانفرنس حکومت اتر پردیش سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے بس پھر کیا تھا اک ذرا سی بات پر برسوں کے یا رانے گئے۔ کانفرنس میں ہنگامہ شروع ہوگیا، کچھ لوگ نعرے بازی کرنے لگے اور کچھ کانفرنس کے اجلاس کا بائی کاٹ کرکے باہر نکل آئے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ بزرگ ترقی پسند ادیب کانفرنس کو بدنامی اور ناکامیابی سے بچانے کی کوشش میں بھی لگ گئے چنانچہ علی سردار جعفری ،ملک راج آنند، اور سبط حسن وغیرہ (جس میں کچھ ہندی ادیب بھی شامل تھے)پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں دوسری سرکاری زبان کا لفظ ہٹاکر یہ تجویز پیش کردی کہ یہ کانفرنس حکومت اتر پردیش سے یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اردو زبان و ادب کو فروغ دیا جائے بہر حال کسی طرح کانفرنس کو ناکامیابی سے بچا تو لیاگیا لیکن معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے دن جب ڈاکٹر قمر رئیس اپنی رہائش گاہ سے کانفرنس میں شرکت کے لئے آرہے تھے تو انہیں راستے میں سیاہ جھنڈے دکھائے گئے اور ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس سانحے کے بعد دوسرے دن شام کو بھیشم ساہنی کی صدارت میں چار باغ مسلم مسافر خانہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں رام لعل، ڈاکٹر قمر رئیس، ڈاکٹر سید محمد عقیل رضوی، ڈاکٹر محمود الحسن، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، اور یہ خاکسار (جو اس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنو کا سکریٹری اور رام لعل صدر تھے)شریک تھے۔ بہر حال کافی غور و خوض کے بعد اس قابل مذمت افسوس ناک اور تکلیف دہ حادثے پر بجز کف افسوس ملنے کے اور کچھ کرنا نامناسب بھی نہیں سمجھا گیا اس لئے کہ دیکھا جو میں نے مڑ کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

No comments: