Wednesday, December 9, 2009

ذوق کی شاعرانہ عظمت از ڈاکٹر تنویر احمد علوی

ذوق کی شاعرانہ عظمت
ڈاکٹر تنویر احمد علوی
اٹھارہویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور انیسویں صدی کا دور آغاز مغلوں کے عہد زوال اور شہر دہلی کے سیاسی انحطاط کا زمانہ تھا سیاسی انتشار کے ساتھ ذوق کے زمانہ زندگی سے پیشتر شہر دہلی ایک ادبی اور تہذیبی مرکز کے طور پر برا بر ٹوٹتا جارہا تھا اور لکھنو انیسویں صدی کے نصف اول میں دہلی کی تہذیب و شہریت کا ایک حریف بنتا ہوا نظر آتا تھا اس لئے زبان دانی قدر شناسی کے پیمانے بھی دھیرے دھیرے بدلتے جارہے تھے۔ ۰۰۸۱ءمیں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا قیام عمل میں آیا یہاں انگریزوں کی رہنمائی اور نگرانی میں دہلی اور لکھنو کے ادیبوں اور شاعروں نے مل کر جو کام کیا اس نے بھی آگے چل کر زبان و ادب کی نئی تشکیل میں ایک خاص کردار ادا کیا اس سے ان کوشسوں کو فروغ پانے کا موقع ملا جو منتشر تھیں اور مستشرقین جن کے لئے کوشش کچھ پہلے سے کرتے آرہے تھے یہاں اردو کی لسانی او رادبی تدریس کے امکانات سامنے آئے۔ لغات و قواعد کی ترتیب عمل میں آئی بعض تذکرے لکھے املا کے قاعدے مرتب ہوئے بعض اہم کتابوں کو ٹائپ کے حروف میں چھاپا گیا۔ لسانیاتی بنیادوں پر بھی کچھ اہم کام ہوا اور اردو زبان علاقائی اور ملکی جڑوں کو تلاش کیا گیا۔ ادھر دہلی کے مقابلہ میں لکھنو نے ریاستی امن و انتظام اور خوشحالی و فارغ البالی کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کرنا شروع کردیا اور دہلی کے ادیب شاعر عالم اور عامی بھی وہاں پہونچنے لگے تو آصف الدولہ اور ان کے جانشینوں کے زمانہ کی فضا میں لکھنو کے ان لوگوں کو نئی ادبی نسل سے تعلق رکھتے تھے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کا اپنا ایک شہری وجود اپنی ایک تہذیبی شناخت اور ادبی انفرادیت بھی دھیرے دھیرے قائم ہورہی ہے۔ شروع میں یہ احساس کچھ لسانی اور ادبی امتیازات پر مبنی تھا جس کے نقوش زیادہ گہرے نہیں تھے۔ میر انشاءاللہ خاں کی معروف کتاب دریائے لطافت کی بعض بحثوں سے اس کا اندازہ ہوتا ہے میر سے منسوب یہ قطعہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میںانتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے جن کو فلک نے تاک کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے یہاں تو جو کچھ ہے وہ ایک زیریں لہر کے طور پر ہے۔ لیکن میر کا اہل لکھنو کے سامنے یہ کہنا کہ میرے کلام کے لئے سند یا قلعہ معلی کی زبان ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اہل دہلی قلعہ کی زبان اور محاورہ کا احترام کرتے تھے اسے فی الجملہ سند مانتے تھے لیکن ان کے نزدیک زبان کی صحت اور حسن استعمال کا معیار جامع مسجد کی سیڑھیاں اور ان کے آس پاس کا علاقہ تھا جس میں سید اڑہ اور محلہ کابلی دروازہ خاص طور پر شامل تھا اسی محلہ کابلی دروازہ کے کسی گوشہ میں ذوق مرحوم کی پیدائش ہوئی تھی اور یہیں انہوں نے ایک عالی خاندان رئیس کے زیر سایہ پرورش پائی تھی۔ وہ خود ایک غریب باپ کے بیٹے تھے اور ایک ایسے نو مسلم خاندان کے چشم و چراغ جس کے پاس اپنی کوئی علمی ادبی اور تہذیبی روایت نہ تھی وہ ہر طرح کے خارجی سہاروں سے محروم تھے ذوق مرحوم اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وجیہ و شکیل نہ تھے بلکہ نسبتاً پستہ قد و قامت اور کم صورت تھے۔ ایسے کسی شخص کو اس عہد کی شہری شخصیت بننے کے لئے بہت غیر معمولی ذاتی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کااظہار اس طرح ممکن تھا کہ وہ زبان دانی علمی لیاقت اور شعر و شاعری میںامتیاز پیدا کریں۔ طبقہ اشراف میں یہ چیزیں بہت مقبول تھیں با محاورہ زبان بولنے اور روز مرہ کے صحیح اور فصیح استعمال کو لازمہ شرافت خیال کیا جاتا تھا جس کا ایک وسیلہ شعر و سخن سے خصوصی دلچسپی تھی۔ ابتدا ئے عمر ہی سے وہ شعر کہنے لگے تھے شروع میں اپنی مکتب نشینی کے زمانہ کے استاد حافظ غلام رسول شوقسے اصلاح لیتے تھے پھر اپنی طبیعت کے جودت اور اپنی فکر کی جدت کے زیر اثر ان سے غیر مطمئن ہوئے تو شاہ نصیر جیسے استاد سخن کی طرف رجوع کیا جو مشکل بھاری ردیف اور قافیہ کے ساتھ بے تکلف بلکہ بے تحاشہ غزل کہنے میں بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ شہزادہ ابو ظفر کے استاد سخن تھے اور قلعہ کے ماسوا شہر میں بھی بہت سے نو عمر شاعر اس فن میںان کے شاگرد تھے۔ شاہ نصیر کی شعری شخصیت دہلی کی روایت شعر میں ایک نئی نمود کا پتہ دیتی ہے۔ ان کا تعلق اس شہر کے ایک صوفی خاندان سے تھا وہ شاہ صدر جہاں کے پوتے اور شاہ غریب اللہ کے بیٹے تھے لیکن اپنے باپ دادا کے درویشانہ مزاج اور فقیرانہ چلن کو خیر باد کہہ کر انہوں نے شعر و شاعری کے ذریعہ دنیا داری سے واسطہ پیدا کیا۔ مال و زر اور جاہ و ثروت سے بے نیازی کا رویہ ان کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتا وہ تو بظاہر ان کی طلب میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور شمالی ہند کے دوسرے شہروں کے علاوہ جہاں وہ استادانہ معرکوں اور شاعرانہ مقابلوں میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ مہاراج چند ولال کے بلاوے پر دوبارہ دہلی سے دکن کا سفر اختیار کرتے ہیں اور بالآخر وہیںان کا انتقال ہوتا ہے ۔ذوق ان کی شاگردی تو اختیار کر لیتے ہیں لیکن ان کی استادانہ روش اور دہلی کے مشاعروں میں اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا احساس رفتہ رفتہ انہیں اپنے استاد سے دور کر دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ شاہ نصیر کے مقابلہ میں ان کی علمی واقفیت بھی زیادہ ہے اور شاعرانہ صلاحیت بھی۔ اس لحاظ سے اپنے استاد کے مقابلہ میںذوق ایک خاص امتیاز رکھتے تھے کہ شروع ہی سے وہ ایک قصید ہ نگار تھے جو شاعرانہ فکر و فن کے نقطہ نظر سے ایک بڑی بات تھی۔ انہیں شاہ نصیر کے دہلی سے کچھ وقت کے لئے چلے جانے کے بعد شہزادہ ولی عہد کی استادی کا شرف بھی حاصل ہوچکا تھا اور انہوں نے مشق سخن اور مطالعہ فن شعر کے ذریعہ علم معانی و بیانی کے رمز و کنایہ سے بھی واقفیت بہم پہونچائی تھی غرض کہ ان کے یہاں ”اکتساب“ کا پیمانہ زیادہ لائق توجہ اور قابل تعریف تھا۔ دہلی میں شاعرانہ مقابلہ اور استادانہ معرکہ آرائی کی فضا پہلے سے موجود تھی۔ انشا اور عظیم جیسے شاہ نصیر کے پیش رو اس کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ لیکن اس زمانہ میںایسے مقابلوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی اور دن بدن بڑھتی جارہی تھی ذوق کواسی ادبی ماحول میں جینا اور انہیں معرکوں میںاپنی کامیابی اور شہرت کی راہیں ہموار کرنا تھیں۔ چنانچہ ان کی بہت سی غزلیں اور بعض قصیدے انہیں شاعرانہ معرکہ آرائیوں کا عکس پیش کرتے ہیں۔ ایسے کچھ شعر ملاحظہ ہوں ہرگام پر رکھے ہے یہ وہ ہوش نقش پا ہوخاک عاشقاں نہ ہم آغوش نقش پا افتاد گاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو دامان خاک ہوتا ہے روپوش نقش پا اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں بول اٹھے منھ سے ہر لب خاموش نقش پا رکھ دل جلوں کی خاک پہ تو بافراغ پا سوز دروں وہی ہے پہ ہوں گے نہ داغ پا تو باغ میں رکھے ہے جو اے رشک باغ پا پھر آئے واں خزاں تو وہیں ہوویں داغ پا تو کہے غنچہ کہ آس لب پہ دھڑی خوب نہیں چپ کہ منھ چھوٹا سااور بات بڑی خوب نہیں سامنے سے مرے ٹلتا نہیں مغز کھاتا مرا دوچار گھڑی خوب نہیں فتنہ سرکش ہے جبھی تک کہ تری آنکھوں نے دست مژگاں سے کوئی دھول جڑی خوب نہیں ابرو پہ اس کے خال ہے کیا زاغ شوخ چشم سمجھا ہے اپنی شاخ نشیمن ہرن کی شاخ دکھلائی اس کے سرمہدنبالہ دار نے آنکھوں سے ہم کو نرگس ہاروت فن کی شاخ ایسی ہی کچھ غزلوں میں ذوق کی یہ غزل بھی تھی جس کی زمین ”ہمدوش“ ”نقش پا“ اور آغوش نقش پا تھی اور جس میں ذوق نے سودا جیسے بڑے استاد کی غزل پر غزل کہی تھی جسے دیکھ کر شاہ نصیر نے اپنے استادانہ غصہ کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تم سودا سے بھی اوپر اڑنے لگے استاد اور شاگرد کے درمیان یہ کشاکش اس معاصرانہ چشمک ہی کی ایک صورت ہے جس سے اس دور کی ادبی فضا بے حد متاثر تھی۔ اس لئے تجربے کی صحت اور جذبے کی صداقت پر زور دینے کے بجائے فقروں کی بر جستگی محاورہ کی درستی اور بندش کی چستی پر زیادہ توجہ مبذول رہتی تھی۔

No comments: