Saturday, January 8, 2011

معین احسن ملال سے جذبی تک کاسفر از ڈاکٹرنسرین رئیس خاں

بقول جذبی :

” وہ زمانہ بڑا عجیب تھا، ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ جلسہ ہوتا تھا اور جب کوئی ادبی ہستی علی گڑھ آتی تھی تو اس کے اعزاز میں اس کی نشست ضرور ہوتی تھی۔ ان ادبی جلسوں میں مقالے، افسانے، غزلیں، نظمیں غرض جو بھی ادبی تخلیق پیش کی جاتی تھی ان پر حاضرین بزم دیر تک گفتگو کیا کرتے تھے جن ممتاز ادبی شخصیتوں نے ان جلسوں کو زینت بخشی ان کے نام یہ ہیں۔ حیات اللہ انصاری، اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجیب، قاضی عبد الغفار بابائے اردو مولوی عبد الحق لیکن بد قسمتی سے انجمن کی ادبی فضا باہمی اختلافات کا شکار ہوگئی۔“جذبی شاعری میںاستادی شاگردی کے قائل نہیں ان کا باضابطہ کوئی شاگرد نہیں البتہ انہوںنے اپنے دوستوں کو مشورے دیئے ہیں ان کے کلام پر اصلاح بھی کی ہے۔ مگر وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں کہتے ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے سیاست سے شعر و ادب کو ملا دیا۔ ۸۵۹۱ءمیںجب میرا مجموعہ کلام ”فروزاں“ چھپا تو میں نے اس کے دیباچے میںاپنے خیالات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا اس وقت ترقی پسند تحریک میں شاعر اور ادیب محدود ہوکر رہ گئے تھے۔

جذبی کو اپنے معاصر شعراءمیں مجاز، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین ، مجروح سلطانپوری اور خلیل الرحمن اعظمی کا کلام پسند ہے۔ مجروح سلطانپوری کو وہ اس دورکا سب سے بہتر شاعر سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے ۔

غزل کہنے کا سلیقہ میری نظر میں اگر ہے تو وہ مجروح میں ہے۔ گو کہ مجروح نے کم کہا ہے لیکن اس میں وہ ساری چیزیں سموئی ہیں جو کہ ایک اچھی شاعری میں ہونا چاہئے۔“

اصناف سخن میںجذبی کو غزل زیادہ پسند ہے لیکن وہ نظم کی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ وہ شاعر کی طبیعت کو تخلیق کے مطابق آزاد رکھنا چاہتے ہےں کسی صنف کا اسے پابند نہیں کرنا چاہتے، ان کے نزدیک جذبے اور کسی کیفیت کااظہار کسی وقت ایک ہی مصرع میںہوجاتا ہے اور ایسا بھر پور ہوجاتا ہے کہ دوسرے مصرع کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مثلاً میر کا یہ مصرع

اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزرگئے

یا فیض احمد فیض کی نظم صبح آزادی کا یہ مصرع

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

یہ دونوں مصرعے اپنی اپنی جگہ شاعر کے تجربے کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں،ایک ہی مصرع میںسارا تاثر اس طرح سمٹ آیاہے کہ اس کی وضاحت کے لئے دوسرے مصرعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس بات کی توضیح کے لئے جذبی کے مجموعے کلام ”فروزاں“ کے دیباچہ کا یہ اقتباس کافی ہوگا۔

میں ہنگامی ادب کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ادھر ایک واقعہ ہوا اورادھر ایک نظم تیار ہوگئی۔ یہ اس وقت تو ممکن ہے جب کہ ذہن پہلے سے اس کے لئے تیار ہو بلکہ شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اسی کو ہضم کرنا اور رچانا بچانا بھی کہتے ہیں۔ اس کے لئے بعض اوقات کا فی مدت درکار ہوتی ہے۔ جو حضرات ہضم کرنے اور رچانے بچانے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں ان کے یہاں گہرائی اور گیرائی کے بجائے جذباتیت اور سطحیت کا پیدا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور بات یاد آگئی ، یہ زمانہ سیاسی ہنگاموں کا زمانہ ہے، ہر چھوٹا بڑا شاعر کچھ سیاسی شعور بھی رکھتا ہے لیکن ہمارے بعض ترقی پسند شاعر کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ یہ حضرات اپنی جماعت کی وفاداری کی رو میں صرف وہی دیکھتے اور سوچتے ہیںجو کہ ان کی اپنی جماعت دیکھتی اور سوچتی ہے اس طرح وہ صرف اپنی جماعت کے نقیب بن جاتے ہیں۔

انہیں اس سے غرض نہیں کہ ان کی جماعت کی پالیسی غلط ہے یا صحیح۔ اس رویے سے ایک قسم کا ادبی انتشار پیداہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ۷۴۹۱ءکا زمانہ لیجئے جب ہندوستان آزاد ہوا تھا اس وقت بعض شاعروں نے اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق آزادی کی مدح میں نظمیں لکھی تھیں لیکن چند ماہ بعد جب ان کی جماعت کی پالیسی میں تبدیلی ہوئی تو یہی شاعر ”فریب آزادی“ کے عنوان سے نظمیں کہنے لگے۔ یہ نظمیں پہلی نظموں کی طرح بالکل بے جان تو نہیں تھیں لیکن پڑھنے والے یقینا اس پریشانی میں پڑ گئے کہ پہلی بات درست ہے یا دوسری آزادی کو آزادی سمجھیں یا فریب آزادی۔

میرا خیال ہے کہ اگر وہ ابتدا ہی میںاپنے دل و دماغ سے کام لیتے اور اپنے ذاتی رد عمل پر بھروسہ کرتے تو شاید ہی یہ تضاد پیداہوتا ۔سیاست میں مصلحت کو بہت کچھ دخل ہے۔ لیکن مصلحت پر شعر کی بنیاد تو نہیں رکھی جاسکتی مصلحت جزوی صداقت ہوتی ہے اور شاعری کامل صداقت چاہتی ہے۔ اور اس کامل صداقت ہی سے وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو شعر کی جان ہے۔ مصلحت کی بنا پر جب کبھی کچھ کہا گیا ہے اسے ادب کے بجائے صحافت کے دامن میں جگہ ملی ہے۔

آج کچھ کہنا اور کل اس کی نفی کردینا، صحافت میں تو ممکن ہے مگر شعر ادب میں نہیں۔ شعر و ادب کے لئے ایک مربوط نظام فکر کی ضرورت ہے ایسا نظام فکر جو عقیدہ بلکہ ایمان بن چکا ہو۔ ادھر کچھ عرصہ سے ترقی پسندوں میں ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے جو بڑی حد تک تنگ نظری پر مبنی ہے۔ ہمارے شاعر و ادیب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ حسن و عشق کاذکر ترقی پسندی کے مذہب میں وہ گناہ ہے جو شاید ہی بخشا جائے ۔ ترقی پسندی صرف سیاست کا نام ہے۔ اس کے علاوہ ادب میں جو چیز بھی آئے گی غیر ترقی پسند ہوگی، یہ رجحان اگر جڑ پکڑ گیا تو ہمارے ادیبوں کی دنیا مختصر سے مختصرہوتی چلی جائے گی۔ مانا کہ سیاست بڑی حقیقت ہے۔ لیکن سیاست کا اثر ہماری زندگی کے کسی شعبہ پر نہیں پڑتا جنسی اور معاشرتی مسائل سے سرمایہ داری کے بھیانک چہرے کی نقاب پورے طور سے نہ اٹھ سکے گی ۔رہے حسن و عشق کے خالص انفرادی جذبات سو ان کے متعلق صرف یہ عرض کروں گا کہ ازل سے آج تک یہ دلوں کو گرماتے رہے ہیں اور گرماتے رہیں گے۔

جذبی ہمارے عہد کے بہت ممتاز شاعر و ادیب ہیں۔ وہ خاموش مزاج اور گوشہ نشین شخص ہیں۔ محفلوں میں شرکت اور مباحثوں میں شمولیت ان کے مزاج کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپیاں، ادبی مطالعہ اور فکر و فن سے تعلق رکھتی ہیں۔

انہوں نے ابتدائے عمر سے لے کر اس زمانہ حیات تک زندگی کی راہ پر سفر کیا ہے۔ اس میں وہ قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کہیے کہ وہ چراغ جلاتے ہوئے گزرے ہیں یہ ان کی شاعرانہ فکر و نظر کے چراغ ہیں۔ان کی ادبی سوچ اور تخلیقی حسیت پر ان کی اپنی تعلیم و تربیت وسائل معاش اور طرز معاشرت کا بھی اثر پڑا ہے کہ وہ بھیڑ کے ساتھ رہنے والوں میں نہیں ہیں۔ شروع ہی سے انہوں نے اپنی شناخت الگ قائم کی۔ اپنے دور کی عصری آگہی اور شعر و شعور سے تو کوئی شاعر بھی بے نیاز انہ نہیں گزر سکتا تو جذبی کیسے گزرتے۔ انہوں نے جوش، اقبال، حالی، اور حسرت غرضیکہ ان تمام ممتاز شخصیتوں کاایک گونہ اثر قبول کیا جو ان کے دور کے اہم حوالوں میں شامل تھے۔ حالی گزر چکے تھے لیکن حالی کا مطالعہ دیر تک اور دور تک رہنما روشنی کے طو ر پر ان کے ساتھ رہا۔

میر کا اثر بھی انہوں نے قبول کیا۔ ان کے لہجے کی نرمی، طبیعت کی درد مندی اور دوسروں سے الگ رہنے کا رویہ یوں بھی ان کو میر سے قریب لے آتا ہے۔ ان کی زندگی میں میر کی طرح ناکامیاں اور جذباتی یا حسیاتی سطح پر نا مرادیاں کچھ زیادہ شامل رہیں۔ جن کی وجہ سے ان کی زندگی کا سوز و گداز ان کی غزل میں شامل ہوگیا اگر چہ وہ فانی کے انداز میں اپنی کسی محرومی پر ماتم کرتے نظر نہیں آتے۔ شروع میں انہوں نے ملال تخلص اختیار کیا۔ وہ بھی ان کی الم پسندی کی نشاندہی کرتا ہے یہ سوز حیات ان کے یہاں ساز حیات بھی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے غم کے اندھیروں میںاپنے شوق وذوق ، اپنے جذبے، اپنے حوصلے اور اپنی انفرادی شخصیت کا قدم قدم پرسہارا لیا ہے جو شعور حیات کے بغیر ممکن نہیں اور اسی نے ان کے شاعرانہ لہجے کو زیادہ حسین و دل آویز بنایا ہے۔

جذبی کی زندگی ان کے ذہن ان کی تہذیبی فکر اور ادبی حسیت پربہت کم لکھا گیا ہے کہیں کہیں کچھ تعارفی تحریریں یا نیم تنقیدی اور نیم تحسینی مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ بھی خال خال جو جذبی کی شخصیت کے ساتھ ادبی نا انصافی ہے۔

راقمہ نے جذبی کو جب اپنے خصوصی مطالعے کے لئے انتخاب کیا تو کچھ باتیں پہلے سے بھی ذہن میں تھیں۔ خاص طور پر ان کا یہ حوصلہ کہ انہوں نے کبھی بھی زمانے سے شکست نہیں کھائی۔ وہ عملی زندگی میں بھی اپنے سہارے پر کھڑے رہے اور ادبی سفر میں بھی ان کے سامنے بہت سے موڑ آئے لیکن انہوں نے وقتی طور پر کسی سے کوئی تاثر قبول کرکے اپنی راہ عمل کا کوئی ایسا تعین نہیں کیا جس کے بعد وہ کسی گروہ سے وابستہ ہوجاتے اور اس کی ادبی تائید اور تحسین کے ساتھ ان کی شخصی امیج میں کوئی اضافہ ہوتا۔ ان کے اپنے قدم اپنی ہی زمین پررہے اور زندگی کی راہ انہوں نے اپنے ہی قدموں سے چل کرطے کی۔

مجھے ان کے لب و لہجے میں جو غزلیت کا عنصر ملا ۔اس میں سادگی سنجیدگی اور اثر آفرینی زیادہ دل کو لبھانے والی بات تھی اور بہت سے انسان ایسے ہوں گے جو میری ہی طرح ان کے لہجے میںاپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہوں گے کہ آخر زندگی اس کے ناروا سلوک اور ناسازگار ماحول میں خود کواگر زندہ رکھا جائے تو کیسے اور اپنی شخصیت پر اعتماد کا اظہار کیا جائے تو کس طرح ۔

جذبی اپنے زمانے کے بہت سے ذہین ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کے دوست رہے ہیں، جس زمانے میں بہت سی اچھی شخصیتیں جمع ہوں اس دور میں اپنی انفرادیت کوقائم رکھنا ایک بڑی بات ہے۔ راقمہ نے جذبی کو ان کے کلام کی اسی روشنی میں دیکھا اور پرکھنے کی سعی کی ہے۔

ان کی زندگی اور اس کے مختلف مدارج جس میں تعلیم و تربیت خانگی حالات خاندانی کوائف ملازمت کا دور دوستی، ہمدردی، خلوص، اتفاق اور نا اتفاقی سبھی چیزیں شامل ہیں، ان سے متعلق معلومات کے لئے راقمہ نے دوبارعلی گڑھ کا سفر کیا ۔جذبی صاحب سے باتیں کی اور جو کچھ وہ فرماتے اور مختلف سوالوں کے سلسلے میں وضاحت کرتے رہے،ان سب کو ریکارڈ کیا۔ تاکہ جب میںاس پر لکھنے کے لئے بیٹھوں تو میری زبان قلم پر آنے والے الفاظ زیادہ تر جذبی صاحب کے اپنے الفاظ ہوںاور جو بات جس لہجے میں کہی گئی ہے میںاس کو اسی ماحول اور پس منظر میں سمجھ سکوں۔

اس کے لئے میں نے مختلف وقتوں میں اپنے اساتذہ سے بھی باتیں کیں ان میںزیادہ تر وہ دانشور تھے جو جذبی صاحب کو جانتے تھے۔ ان کے طالب علم رہ چکے تھے۔ یا دوست تھے۔ میں نے جذبی صاحب کی بہت سی تحریروں کو پڑھا جن تک میری رسائی ہوئی اور اپنا بہت سا وقت ان شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کے مطالعہ میں گزارا جو جذبی صاحب کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ ترقی پسند تحریک اور اس سے وابستہ ممتاز شاعر بھی آجاتے ہیں۔

غزل جذبی تک پہونچنے سے پہلے حالی سے اقبال تک یا پھر یہ کہئے کہ فیض و فراق تک اپنا سفر حیات طے کر چکی تھی۔ اس میں جذبی بھی آکر شامل ہوگئے۔ اسی طرح جب ہم جذبی کی نظم پر غورکرتے ہیں تو اس میں جدید اردو نظم کی راہ ارتقا کے کئی موڑ ملتے ہیں اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتی جدید غزل کا مطالعہ نو کلاسیکی غزل کے مطالعہ کے بغیر نا مکمل کہا جاسکتا ہے۔ اسی لئے راقمہ نے اس میں لکھنو کے ان اساتذہ کو بھی شامل کیا جنہوںنے اس صدی کے نصف اول میں غزل کو نئے رنگ آہنگ سے آشنا کیا ہے۔

No comments: