Saturday, January 8, 2011

میر اور سودا از پروفیسر آل احمدسرور

میر کی بے دماغی مشہور ہے وہ اپنے معاصرین میں سے دو چار کے سوا کسی کو خاطر میں نہیںلاتے تھے مشاعروں میںاچھے اچھے شاعروں کے کلام پر سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے ان کے متعدد معاصرین اسی وجہ سے ان سے جلتے تھے۔ قدرت اللہ قائم بقا احمد علی خان یکتا سعادت یار خاں ناصر مصحفی سب نے ان کی نازک مزاجی نخوت اور غرور کاذکر کیا ہے میر خود کہتے ہیں

حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ

دل سوزش دروں سے جلتا ہے جوں چراغ

سینہ تمام داغ ہے سارا جگر ہے داغ

ہے نام مجلسوں میں مرا میر بے دماغ

از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار

ایک غزل میں کہتے ہیں

سر کسی سے فرو نہیں ہوتا

صرف بندے ہوے خدا نہ ہوے

ان کا ایک مقطع ہے

ہر لحظہ بد مزاجی رہتی ہے میر تم کو

الجھاﺅ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

انہوں نے دلی کے ایک مشاعرے میں ”ازدر نامہ“ کے عنوان سے ایک مثنوی سنائی جس میںاپنے آپ کو ایک بڑااژدہا ثابت کیا اور اپنے معاصرین کو گرگٹ ،لومڑی، گیدڑ، کیڑے مکوڑے بتایا۔ اس کے دو چار شعر ملاحظہ ہوں

یہ موذی کئی ناخبر دار فن

نئی ناگنیں جن کے ٹیکوں پہ پھن

نہیں جانتے ہوں میں مارسیاہ

زمانہ ہے آتش کا میری نگاہ

میری آنکھ سے زہر ٹپکا کیا

جلا آگے میرے کبھو کب دیا

میری ان گزندوں کی محبت ہے یہ

طرف ہوں مرے ان کی طاقت ہے یہ

میری قدر کیا ان کے کچھ ہاتھ ہے

جو اللہ ہے میرا میرے ساتھ ہے

کہاں پہونچیں مجھ تک یہ کیڑے حقیر

گیا سانپ پیٹا کریں اب لکیر

اس کے متعلق آزاد نے آب حیات میں لکھا ہے غلطی سے مثنوی کو قصیدہ لکھ گئے ہیں۔ اس قصیدے کا نام ”اجگر نامہ“ قرار دیا اور مشاعرے میںلاکر پڑھا۔ محمدامان نثار شاہ حاتم کے شاگردوں میںایک مشاق موزوں طبع شخص تھے انہوں نے وہیںایک گوشے میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اس وقت سر مشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی بات کسی کو پسند نہ آئی تھی اس لئے اس قطعے پر خوب قہقہے اٹھے اور بڑی واہ واہ ہوئی اورمیر صاحب پر جو گزرنی تھی گذری چنانچہ مقطع قطعہ مذکور کا یہ ہے

حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثار

ایک دم میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کر

وہ معاصرین میں صرف سودا کو پورا شاعر مانتے تھے اور درد کوآدھا۔ اور میر سوز کو چوتھائی اپنے تذکرہ نکار الشعراءمیں سودا کی بڑی تعریف کی ہے۔ ان کی فارسی عبارت کا ضروری ترجمہ یہ ہے ”مرزا رفیع سودا تخلص کرتے ہیں خوش خلق خوش خو گرم جو ش یا رباش شگفتہ رو جوان ہیں شاہ جہاں آباد مولد ہے نوکری پیشہ غزل وقصیدہ و مثنوی و قطعہ و مخمس و رباعی سب خوب کہتے ہیں ۔ریختہ کی ملک الشعرائی انہیں زیب دیتی ہے۔

اکثر ساتھ غزل کہنے کااتفاق ہوتا ہے حق تعالیٰ سلامت رکھے۔ سودائے قصیدے تضحیک روزگار کی تعریف کرکے اس کا مقطع نقل کیا ہے اور ان کی غزلوں کا بھی بہت اچھا انتخاب کیا ہے۔

یہ تو ان کی سنجیدہ رائے سودا کے متعلق ہوئی مگر جیسا کہ میں نے شروع میں واضح کیا ہے ویسے وہ معاصرین میںسے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور سودا پر بھی انہوںنے جا بجا طنز کی ہے یا پھبتی کہی ہے بلکہ ایک جگہ تو ان کی ہجو میں ایک مثنوی بھی موجود ہے مگر انہوں نے کبھی سر مشاعرہ سودا سے دو بدو گفتگو نہیں کی نہ سودا نے ان پر کوئی آواز کسا۔ دونوں ایک دوسرے کامقام پہچانتے تھے اس زمانے کے آداب کے مطابق برابر والوں سے الجھنا اچھا نہیں سمجھاجاتا تھا۔ سودا تو علم مجلس کے ماہر تھے ہر جگہ جاتے تھے ہر محفل کی زینت تھے مگر میر زیادہ ترالگ تھلگ رہتے تھے اس لئے میر اور سودا کے ادبی معرکے اس طرح کے نہیں ہیں جس طرح مصحفی اورانشاءکے یا ناسخ و آتش کے یا یگانہ و عزیز کے بلکہ یہ اس طرح کے ہیں جیسے غالب اور ذوق کے ہیںجنہیں معاصرانہ چشمک یا چھیڑ چھاڑ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

دلی میںایک دفعہ خان آرزو نے میر سے کہا کہ ابھی ابھی مرزا رفیع بڑے فخر و مباہات سے یہ مطلع سنا گئے ہیں۔ مطلع واقعی خوب ہے میر نے اس پر فی البدیہہ یہ مطلع پڑھا اور خان آرزو بھی میر کا لوہا مان گئے۔

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا

دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

جیسا کہ میر نے ”نکات الشعرائ“ میں لکھا ہے دونوں کواکثر ساتھ غزلیں کہنے کااتفاق ہوتا تھا یعنی مشاعروں میںایک ہی طرح میں غزلیں سناتے تھے۔یہ گو یا ایک طرح کا خاموش معرکہ تھا۔ یہاں زبان درازی ،تو تو میں میں، بحث و تمحیص نہیں تھی نہ بات بات پرتلوار میان سے نکلتی تھی۔ مگر دونوں کاایک دوسرے پرفوقیت حاصل کرنے کا جذبہ اور دونوں کادرجہ ظاہر ہوجاتا تھا چندایسے اشعار سنئے تو آپ خود فیصلہ کر لیںگے کہ دونوں اپنے اپنے رنگ میں لاجواب ہیں گو روح تغزل میر کے یہاںزیادہ ہے۔

برابر ی کا تری گل نے جب خیال کیا

صبا نے مار تھپیڑے منہ اس کا لال کیا

سودا

چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا

جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا

میر

گلہ لکھوں میںاگر تیری بے وفائی کا

لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

سودا

گلہ میں جس سے کروں تیری بے وفائی کا

جہاں میں نام نہ لے پھر وہ آشنائی کا

میر

ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے بھلا کبھی میخانے کا

کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

سودا

سرزد ہم سے بے ادبی تووحشت میں بھی کم ہی ہوئی

کوسوںاس کی اور گئے پرسجدہ ہر ہر گام کیا

میر

نسیم ہے ترے کوچہ میںاور صبا بھی ہے

ہماری خاک سے دیکھو تو کچھ رہا بھی ہے

سودا

ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں

نگاہ غور سے کر مجھ میںکچھ رہا بھی ہے

میر

سمجھ کے رکھیو قدم دشت خار میں مجنوں

کہ اس نواح میںسودا بر ہنہ پا بھی ہے

سودا

گزار شہر و فا میں سمجھ کے کر مجنوں

کہ اس دیار میں میر شکستہ پابھی ہے

میر

لالہ سری رام نے سودا کاتذکرہ کرتے ہوئے ”خم خانہ جاوید“ میں لکھا ہے میر سوز ،میر درد، میر تقی سے معرکہ آرائیاں ہوتی رہیں ”مولف شعر الہند“ میں کہتے ہیں قدما کے اس دور میں جس میں کہ میر و مرزا تھے اگر چہ ایک ہی درجہ کے متعدد اساتذہ موجود تھے لیکن ان میںصرف میر و مرزا حریف مقابل تسلیم کئے گئے اور ان کی شاعری کاموازنہ اور مقابلہ اردو شاعری کی تاریخ کاایک لازمی جزو ہوگیا۔ لیکن تاریخی حیثیت سے صحیح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دونوں حضرات کب حریفانہ حیثیت سے اکھاڑے میںاترے یہ یقینی ہے کہ ایک زمانہ تک دونوں میں اتحاد رہا اور میر صاحب سودا کواپنا شریک فن تسلیم کرتے رہے چنانچہ فرماتے ہیں

نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی

گیا ہو میر دیوانہ رہا سودا سومستانہ

یہی حال سودا کا بھی تھا جوایک منظوم شکایت سے ظاہر ہوتا ہے۔

علی الخصوص تغافل کو میر صاحب کے

کہوں میں کس سے کہ باوصف اتحادتمام

لکھا نہ پرچہ کاغذ بھی اتنی مدت میں

کہ بیقراروں میں تا ہوئے موجب آرام

میرے نزدیک لالہ سری رام کی مراد معرکہ آرائیوں سے مشاعروں کی وہ صحبتیں ہیں جن میں درد، سودا، میر اور میر سوز اپنا کلام سناتے تھے۔ اور ایک دوسرے کی غزلوں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے دونوں ایک دوسرے کے معترف بھی تھے اور اچھے الفاظ سے ایک دوسرے کو یاد کرتے تھے مگر یہ سب دہلی میں تھا” اژدرنامہ“ میں بھی جہاں تمام معاصرین پر اپنی فوقیت جتائی ہے وہاں سودا کانام صاف نہیں لیا مگر لکھنو پہونچ کر تعلقات اتنے شگفتہ نہ رہے۔ مصحفی اورانشاءکا بھی یہی حال ہوا پھر بھی سودا نے فخریہ ان اشعار میں جہاں اپنی تعریف کی ہے وہاں میر کا درجہ بھی ملحوظ رکھا ہے۔

وہ جوکہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب

ان کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جاﺅں گا

سودا تو اس زمین غزل در غزل ہی لکھ

ہونا ہے تجھ کو میر استاد کی طرف

مگر میر کاجواب زیادہ تلخ ہے

طرف ہونا مرا مشکل ہے میر اس شعر کے فن میں

یوں ہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیاجانے

اور شاید ان کے اس شعر میں بھی سودا پر طنز ہے

مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں

میںجوں نسیم باد فروش چمن نہیں

مگر میر کے کلیات میں ایک مثنوی ہے جس میںاگر چہ سودا کا نام صاف نہیں آیا۔ مگر تذکروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہدف سودا ہی ہیں۔ سودا کو کتے پالنے کا بہت شوق تھا میر کو بلیوں سے رغبت تھی اس کے نفسیاتی وجود کچھ بھی ہوں مگر انصاف یہ ہے کہ اس ہجو میںادبی حسن بہت کم ہے بس مبالغے کی انتہا ہے چند شعر آپ بھی سن لیجئے

پاکیزگی طبع و لطافت وہ برطرف

کتا بغل میں مارے لگا پھرنے ہر طرف

بلی جو پالتا تو بھلا ایک بات تھی

آئیں میںاس کی دوستی ایماں کے ساتھ تھی

اس کا جواب سودا کی زبان سے دیکھئے۔ سودا عام طور پر ہجو میںپہل نہیں کرتے تھے مگر جواب میںوہ کسی سے بند نہیں تھے۔ میر کے متعلق ایک یہ شبہ بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ وہ سید نہ تھے اپنے آپ کو سید مشہور کردیا تھا آزادنے تذکرہ شورش کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سودا نے ایک قطع میںان کا مذاق بھی اڑایا تھا

بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کرکے میر

کچھ شیرمال سامنے کچھ نان کچھ پنیر

آزاد نے اس روایت کو نہیں مانا اور اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی سے۔ یہ نتیجہ نکالا ہے کہ میر ضرور سید تھے مگر سودا کے کلیات میںایک ہجو بہت دلچسپ ہے اس کا عنوان ہے ”مخمس در جواب طعن میر تقی کہ فی الحقیقت میر شیخ بردہ است“ اس میں میر کی کتے والی ہجو کا جواب دیا ہے

یہ شیخ ہے جو کہتا ہے تو مجھ پر بھی یقیں ہے

کتے کو کہے پاک سو وہ دشمن دیں ہے

لیکن وہ سگ نفس بخش اس سے کہیں ہے

تجھ پر جو ایک لحظہ و ہر آن یقیں ہے

تو اس کا نہ کہنا کرے تب پاک ہے واللہ

طعن کے طور پر تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں مخاطب مشہور شاعر میر ہی ہیں مگر قرائن یہی کہتے ہیں کہ ایک اور قطعہ ہے جس کا آخری شعر یہ ہے

ہر ورق پر ہے میر کی اصلاح

لوگ کہتے ہیں سہو کاتب ہے

سعادت یار خاں ناصر نے تذکرہ خوش معرکہ زیبا میںمیر کے متعلق لکھا ہے کہ بڑھاپے میںشادی کی تھی لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا سوجھی فرمایا کہ جب شادی کے بعد اندر سے بلاوا آتا ہے کہ لڑکے کو لاﺅ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔

غرض میر اور سودا کی معرکہ آرائی شروع میں توحد ادب میں رہی مگر آخر میں بے ادبی تک پہونچ گئی دہلی کی فضا میں دونوں مقابلے اور حریفانہ چشمک سے آگے نہ بڑھے لکھنو ¿ کے ماحول میںایک دوسرے کی ہجو سے بھی باز نہ رہے۔ اگر سعادت خاں ناصر کا بیان صحیح ہے تو میر کے بڑھاپے کی شادی ضرور دستوں کی تفریح طبع کا باعث ہوئی ہوگی۔سودا ، میر سے پہلے انتقال کر گئے مگر میر کی عمر نواسی نوے سال کی ہوئی۔ اس لئے سودا کی زندگی میںبھی اگر میر کی شادی ہوئی تھی تو خاصی کبر سنی میںاس لئے اس پر ہجو قرین قیاس ہے، مگر سودا کو کتوں سے جو دلچسپی تھی اس کے پیش نظر میر کی ہجو اور سودا کے جواب میں شبہ نہیں اور یہ ثابت ہے کہ آخر میں یہ دونوں استاد ایک دوسرے کو بھی بخشنے کے لئے تیار نہ تھے۔

No comments: