Saturday, January 8, 2011

اردو میں ناول کے خدوخال از عزیز احمد

عبد الحلیم شرر نے اثنائے سفر میں سر والٹر اسکاٹ کا ایک ناول پڑھا اور اردو ناول میں دفعتاً تاریخ نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ اگر شرر نے اسکاٹ کاناول نہ پڑھا ہوتا تب بھی اردو میں تاریخ نگاری کا یقینا کبھی نہ کبھی آغاز ہوتا لیکن شرر کاتاریخی ناول ظہور میں نہ آتا کیوں کہ شرر پر اسکاٹ کااس قدر اثر ہے جتنا اور کسی انگریزی ناول نویس کا کسی اوراردو ناول نویس پر نہیں۔ صاف اور سیدھا طرز تحریر تاریخ میںناول کے لئے انوکھے واقعات کی تلاش اور ان کے انوکھے واقعات کا مبالغے اور عصبیت کے ساتھ بیان، افسانوی مبالغہ تصرف ،تفصیلات کی طرف توجہ یہاں تک کہ منظر کشی ہر چیز پر اسکاٹ کااثرہے۔ اس کا چستانی روایات اور تاریخ کی جو حیثیت اسکاٹ کے یہاں ہے وہی حیثیت تاریخ اسلام کی شرر کے یہاں ہے۔ عرب، طرابلس ، مصر ،رومة الکبریٰ، ہندوستان ،ایران، ترکی، فلسطین، عراق ،اسپین، شاید ہی کوئی ملک ایسا بچا ہو جہاں کی اسلامی تاریخ یاروایات سے شرر نے کوئی واقعہ انتخاب کرکے کسی ناول کی طرح نہ ڈالی ہو۔ نقطہ نظر کی عصبیت کہیں کہیں تعصب بن جاتی ہے۔ سائنس کامطالعہ تاریخ شرر کے ناولوں میں روایات کا یا مصنف کی مرضی کا محض غلام ہوکے رہ جاتا ہے اگر کسی واقعہ کے تاریخی ہیرو حضرت زبیر میں تو ان کے سن یا بزرگی کا لحاظ کرکے اس تاریخی واقعہ کو حضرت عبد اللہ ابن زبیر سے منسوب کردینا اور اس کو ناول بنادینا شرر کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ قصے کی صحت سے بہت زیادہ شرر کی توجہ قصہ کی دلچسپی کی طرف ہے اس میں تاریخ مسخ ہو تو ان کے ماخذ عربی تواریخ اور اسما ءالرجال کی کتابیں ہیںوہ یہ بہت کم دیکھتے ہیں کہ راوی معتبر ہے یا نہیں۔ اگر روایت دلچسپ ہے تو شرر کےلئے کافی ہے اس کے سوا شرر کی بیشمار تصنیفات میںاور بہت سے نقائص ہیں عشق بازی اور شجاعت کے مناظر یکساں ہیںاور کہیں کہیں تو یہ یکسانی داستان امیر حمزہ کے قسم کے مناظر یاد دلاتی ہے۔ کثرت تحریر کے دوسرے مضر اثرات بھی شرر کے یہاں نظر آتے ہیں۔

لیکن ان چند خامیوں کے مقابل شرر کی خوبیوں کا پلہ بہت بھاری ان کے وسیع حلقہ تحریر کی سب سے بڑی خوبی تاریخی موضوع کا تنوع ہے ۔واقعات کی جزوی غلطیوں کی تلافی وہ ماحول کا اصلی رنگ پیدا کرکے کرلیتے ہیں۔ اگر چہ ان کی واقعہ نگاری خارجی ہے لیکن جو واقعہ وہ بیان کرتے ہیں وہ ایسا حیرت انگیز ہوتا ہے اور اس سادگی و پرکاری سے ساری توجہ اس کو دلچسپ بنانے پرصرف کردیتے ہیں کہ ان کے اچھے ناول ایک بار شروع کئے جائیں تو ختم کئے بغیر چھوڑے نہیں جاتے۔ سادگی اسلوب کے توازن کے لئے وہ رنگینی مناظر کا حربہ استعمال کرتے ہیں جو عام ناظر پر بڑا کار گر ہوتا ہے۔

شرر کا سب سے بڑاکمال روداد کی ترتیب ہے۔ وہ اردو کے پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے عمداً اور سلیقہ سے پلاٹ کی تعمیر کو اپنے فن کاجزو اعظم بنایا ہے ابتدا درمیانی قصہ اور انجام، سب ایک نظام کے پابند ہیں۔ الجھاﺅ سے وہ ناظر کی دلچسپی اکساتے ہیں اور سلجھاﺅ کے ذریعہ اسے مطمئن کرتے ہیں روداد کی اس تنظیم سے تاریخی قصہ جو پہلے ہی سے ایک نامانوس سرزمین اور زمانے کا حال بیان کرتا ہے کہیں زیادہ دلچسپ بن جاتا ہے اردو میں کوئی اورمصنف اب تک کامیاب تاریخی ناول محض اس وجہ سے نہیںلکھ سکا کسی نے پلاٹ کی تعمیر میں یہ کمال حاصل نہیں کیا۔ شرر کے معاشرتی اور ہجویہ ناول ان کے تاریخی ناول کے فن کواکثر استعمال کر تے ہیں ۔ مثلاً کسی ایسے نادر واقعہ کاانتخاب جو ہم عصر معاشرے میںانو کھا سمجھا جائے جس سے موجودہ دور کی تاریخی خصوصیات اجاگر ہوں۔ حال ان کے یہاں ہمیشہ ماضی یا مستقبل سے مربوط معلوم ہوتا ہے۔

اردو ناول کی ایک اور قسم کافی عرصہ سے مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ یہ حسن بازاری کی زندگی کا ناول ہے مجموعی طو ر پر اس ناول کو تین ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ان میں سے پہلا دور ”نشتر“ کایاڈیڑا دار طوائف کی زندگی کا ہے۔ ”نشتر“ ایک تماش بین کی سر گزشت ہے جو غالباً میر تقی میر کا ہم عصر تھا۔ اور جس نے فارسی میںاپنی حیات معاشقہ کے متعلق یہ بے مثل کتاب لکھی سجاد حسین کسمنڈوی نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔ معلوم نہیں اصل فارسی کتاب اب کہیں باقی بھی ہے یا نہیں لیکن اردو ترجمہ اردو کے چند بہترین ناولوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہے اور اس صنف کے بہترین مغربی ناولوں کے مقابل پیش کیا جاسکتا ہے ۔نقطہ نظر تماش بین کا ہے۔ لیکن اپنی نفسیات عشق اپنے والہانہ جذبے کے بیان میںمصنف نے کمال کر دیا ہے۔ قطعہ کی ٹریجڈی وبدر کی داستان غم سے کم پراثر نہیں تفصیلات ایک ایسی زندگی پر سے پردہ اٹھاتے ہیں جو اگر یہ ناول نہ لکھا جاتا تو شاید ہمیشہ فراموش اور نامعلوم رہتی۔انگریزی قبضہ کے ابتدائی زمانے میںشریف انگریزوں کی نوکر ڈیا اور رنڈیوں کی گھریلو زندگی اور رسوم وآئین پہلے کے انگریزوں اور ان ڈیردار طوائفوں دونوں طبقوں کاادبی ذوق حافظ کی غزلوں کازندگی پراثر اور کوئی کتاب ا س زمانے کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی نہیں ڈالتی اور اس پس منظر سے مصنف اور خانم جان کے پوشیدہ اور والہانہ عشق کا جوقصہ ابھرتا ہے وہ دنیائے افسانہ موثر ترین قصوں میں ہے۔

طوائف کی زندگی کے دوسرے دور کے چند ناولوں میں سب سے زیادہ دلچسپ مرزا رسواکا ناول امراﺅ جان ادا ہے۔ خانہ جنگی اور لوٹ مار اور غارتگری اب کم ہوچکی ہے امن کا نقشہ ہے اور ڈیرہ دار طوائف اب شہروں میںدشمنوں کے زیر سایہ آباد ہے۔ جہاں وہ رئیسوں کو آداب محفل سکھاتی ہے۔ وہ مرد جو گھر میں عورت کی ذہانت سے محروم ہے جس کی بیوی یاخواصیں اسے ذہنی راحت نہیں پہونچا سکتیں اس راحت کو رنڈی کے کوٹھے پر ڈھونڈھتا ہے لیکن اس ناول میں نقطہ نظر تماش بین مرد کا نہیں بلکہ پیشہ ور طوائف کا ہے ،روداد سرگزشت ہنگئی ہے اور شروع سے آخر تک طوائف کی زندگی کی تصویر کھینچتی ہے اس پیشے کے اسرار و رموز اس میں داخلہ چکلہ خانوں کی تہذیب اور آئین و قوانین چکلے خانوں کے سرپرست اور ان کی خصوصیتیں ، یہ سب متعین اور محتاط واقعہ نگاری کے ذریعہ پیش کی گئی ہیں۔ ان میںبظاہر ظاہری اور خارجی تفصیلات ادبی بزم آرائی اور سخن گسترانہ باتوں میں کہیں کہیں امراﺅ جان کی ہستی کی گہرائیوں کی جھلک نظرآجاتی ہے۔ اس ناول کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعاتی اور مصلحانہ نقطہ ہائے نظر سے الگ الگ رہیں اور پریم چند کے بازار حسن کی طرح آپس میں دست و گریباں نہیں ہوئے۔ پریم چند کا بازار حسن اس کی دوسری اہم ترین کتاب ہے اور یوں تو یہ نوع اس قدر پسند کی گئی کہ اس کے مقبول ناولوں کا شمار مشکل ہے۔

طوائف کی زندگی کے تیسرے دور کا ناول لیلیٰ کے خطوط ہے یہ موجودہ طوائف ہے جو امراﺅ جان سے زیادہ مرد کو سمجھتی ہے اسے سماج کی نا انصافی کاوہ احساس ہے جو امراﺅ جان کو نہیں تھا۔ اگرچہ اس کی ادبیت امراﺅ جان کی طرح اپنی نہیں بلکہ قاضی عبد الغفار صاحب کی ہے لیکن یہ ادبیت اس کی تحلیل نفس کا سا کام کرتی ہے اس ناول سے ترقی پسند نقطہ نظر کی ابتدا ہوتی ہے اور اصلاح ناول پیچھے رہ جاتا ہے۔ ناول کی حیثیت سے یہ کتاب بہت کمزور ہے بجائے روداد کے محض مدھم خاکہ ہے بجائے قصہ کے محض زور تحریر ہے لیکن انصاف کاتقاضا ہے کہ یہاں بھی کہہ دیا جائے کہ مصنف خود اس کتاب کو ناول کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہتا اس نے دیباچہ میں خود بھی لکھا ہے اس کا مقصد محض احتجاج تھا یہ اتفاق کی بات ہے کہ یہ کتاب اور ہر مصنف ادب کے مقابل ناول سے زیادہ قریب ہے کہانی کے صرف خدو خال ہیں مگر وہ کافی ہیں کوئی کردار کرداروں کی طولانی اور تفصیلی فہرست سے نکل کے جسمیت اختیار نہیں کرتا۔ لیکن اس کی ضرورت بھی نہیں کیوں کہ مصنف کا مقصد اس کے بغیر ہی حاصل ہوجاتاہے۔ روداد قصہ الجھاﺅ سب کام اسلوب سے لیا گیا ہے۔ یہ اسلوب فرانسیسی ناولوں کے انگریزی ترجموں کا مرہون منت ہے مگر مصنف کے جوش اور خلوص سے اس میں وہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ پڑھنے والا قائل ہوجاتا ہے لیکن محض اسلوب ناول نہیں بنا سکتا لیلیٰ کے خطوط میں تبلیغی جوش و خروش کی بدولت اس کا جادو چل گیا لیکن مجنوں کی ڈائری اور اس کے بعد اس کی تمام افسانوی تحریروں میں مصنف کو کامیابی نہیں ہوئی۔

شاہد بازاری کی زندگی کے ناول کے بر عکس خانہ داری کا ناول اس بلندی سے برابر گرتا ہی گیا جسے نذیر احمد نے اسے دفعتاً پہونچا دیا تھا۔ یہ ناول دو گروہوں میں بٹ گیا ایک تووہ گروہ جو خانہ داری کی زندگی کا مقابلہ آوارگی کی زندگی سے کر کے گھر کی زندگی کی مسرتوں کو سراہتا ہے اس میں عموماً ایک بنت عم ہیروئن ہوتی ہے جو اپنے معصوم حسن کی مدد سے جو بھٹکے ہوئے شریف زادے کو بازاری عورت کے چنگل سے بچاتی ہے اس ناول میںپاک اور اسفل عشق کا موازنہ ہوتا ہے ”خواب کلکتہ“ اس قبیل کے بہت مقبول ناولوں میں ہے کبھی اس گروہ کاناول ایسے نوجوان کاقصہ بیان کرتا ہے جو شریف مظلوم بیوی سے منہ موڑ کے شاہد ان بازاری کے کوٹھوں کا طواف کرتا ہے اور جب خوب تباہ ہوچکتا ہے تو یہی شریف بیوی اسے معاف کردیتی ہے اس قسم کی رودادوں کی یقینا زندگی پر بنیاد ہے خانہ داری کے ناولوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جس میں عورتوں کی زندگی یعنی پردہ نشین عورت کی مظلومیت اصل موضوع ہے۔ پردہ نشین عورت کی مظلومیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے لیکن ہر اچھاموضوع اردو ناول میںتباہ ہوجاتا ہے راشد الخیری اور ان کے مقلدین نے اس موضوع کی مٹی خراب کی ”شام زندگی“ وغیرہ میں مظلوم اور مظلومیت دونوں اس انتہا کو پہونچے ہوئے ہیں کہ زندگی انہیں سچ سمجھ سکتی ہے نہ ان کا کوئی صحت مند اثر زندگی پرپڑ سکتا ہے۔

No comments: