Saturday, January 8, 2011

لکھنو کا مشہور بازار امین آباد - ایک جھلک از عرفان عباسی

والی اودھ امجد علی شاہ (دور اقتدار ۲۴۸۱ئ۔۷۴۸۱ء)کوشہر کی آبادی میںاضافہ اور ہمہ جہت ترقی میں خاص دلچسپی تھی۔اسی زمانے میںان کے وزیر اعظم امین الدولہ نے نیا محلہ آباد کرکے اس کا نام اپنے نام پر ”امین آباد“ رکھا تھا جو سیاسی انقلابات، انتشار ات اور نشیب و فراز کے سر د و گرم جھیلتے ، پھوس کی چھتوں، جھونپڑیوں اور کچے پکے مکانات کے ابتدائی دور سے گزرتے ہوئے ارتقائی منزلیں طے کرتا رہا اور آبادی میںاضافہ کے ساتھ شہر کے مشہور و پر رونق بازار کی حیثیت اختیار کرکے اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ اسی زمانے میں حضرت گنج بھی آباد کیاگیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ نہایت صاف ستھرا ،خوبصورت اہم اور منفرد بازار بنتا گیا۔ اس کی شاندار عمارتیں،جگمگاتی سڑکیں اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاءفراہم کرنے والی دوکانیں رﺅسا ،بڑے سرکاری افسروں، نوابین، زمینداروں اور راجگان کی توجہ کا خاص مرکز تھیں اور وہ انہیں کا بازار کہا جاتا تھا۔ انگریزی دور حکومت میںاس کی بیشتر دوکانیں انگریزون کی تھیں اور انگریز وہیں خرید و فروخت کرتے تھے جب کہ امین آباد لکھنوی تہذیب سے آراستہ عوامی بازار کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی ہر ادا میں تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں تھی۔

کہتے ہیں سلطنت اودھ کے زمانے میں پرانے لکھنو کے بازاروں خصوصاً چوک بازار کا شمار اہم ترین اور پر رونق بازار میںہوتا تھا۔ جہاں ضروریات زندگی کی فراہمی کے علاوہ ہر طرف تہذیب، شرافت، وضع داری ، ہم آہنگی اور زبان وبیان کی شیرینی کی بدولت سحر انگیز ماحول طاری رہتا تھا۔ اودھ کے دن بدلتے ہی رفتہ رفتہ پرانے لکھنو کے بازاروں کی رونق ،بھیڑ بھاڑ، اور ہماہمی ماند پڑنے لگی اور امین آباد مرکزی حیثیت اختیار کرتا گیا۔ چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں کی جگہ نئی نئی تعمیرات ہونے لگیں ہر طرف نیا رنگ ، نیاسماں، نئی چال ڈھال نئے لباس اور نئے اطوار نظر آنے لگے۔ انگر کھوں کی جگہ کوٹ پتلون پالکیوں ،چو پہلوں ،ہواداروں، فینسوں اورڈولیوں وغیرہ کی جگہ یکہ و تانگے نے لے لی اور باوضع سماج میں فیشن پرستی کا سکہ چلنے لگا۔ مقبول و روایتی خصوصیات رفتہ رفتہ دم توڑنے لگیں۔ راج دھانی کا چھوتا سا نیا بازار امین آباد مغربی لبادہ اوڑھے رواں دواں نظر آنے لگا ۔چند سال قبل تک کچھ بزرگ موجود تھے جنہوںنے امین آباد کی شاندار آہنی شٹر والی چمکتی ،جگمگاتی دوکانوں کو پھوس کے چھپروں سے ڈھکی دیکھا تھا پھر کایا پلٹ کے بعد اس کا ترقی یافتہ و ماڈرن روپ بھی دیکھا۔

کتنے اتار چڑھاﺅ دیکھے ہیںاس چھوٹے سے بازار نے۔ کیسی کیسی باغ و بہار شخصیات کیسے کیسے واقعات و حادثات اور کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں اس کے نام کے ساتھ۔

صبح نظیر آباد کے چوراہے پر اخبار والوں اور اخبار بینوں کی بھیڑ، ہمدم ،حقیقت، اور پائینیر وغیرہ پرلوگ ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تازہ تازہ خبریں۔ ان اخبارات کی تکمیل بھی تو گئی رات تک اسی بازار میں ہوتی ہے۔ یہ انیس احمد عباسی ، اسد بنارسی ،نیاز فتح پوری ،رضا انصاری ،غلام احمد فرقت اور امین سلونوی (ا۔ن۔س)وغیرہ ان اخبارات کے اوراق سیاہ کرنے کے لئے ہی صبح سے گئی رات تک اس بازار میں منڈلا یا کرتے ہیں۔

چھیدی لال دھرم شالہ میں سیاست دانوں کا جمگھٹا ،دانش محل، صدیق بک ڈپو ،انوار بک ڈپو وغیرہ میں شعراءوادبا کی نشست، پارکوں میں خوبصورت اسٹینڈ میں تیل کی شیشیاں سجائے چمپی کرنے والے اور ان کے بھیس میں شکار کے متلاشی گرہ کٹ، ہلالی پرچم میں لپٹے عبد اللہ ریستوراں میں معمولی ورکر ہی نہیں صوبائی مسلم لیگی لیڈروں تک کی صبح سے رات بارہ ایک بجے تک بھیڑ اوراس کے چند قدم کے فاصلے پر ہی احراری پرچم کے زیر سایہ کھدر پوشون سے بھرا خان ریسٹوران چنددہائی پہلے کی ہی تو بات ہے۔

جھنڈے والے پارک (امین الدولہ پارک) میںسیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے تاریخی جلسے ،دوسری طرف امین آباد پارک میں ناقوس و اذان کی ملی جلی آوازیں، سائمن کمیشن کی آمد پر امین آباد کی سڑکوں پر احتجاجی جلوس، اس پر پولیس کا حملہ ،شدید لاٹھی چارج، جس میںاہم سیاسی لیڈر بشمول جواہر لال نہرو زخمی ہوئے۔امین آباد میں سبھاش چندر بوس کی آمد پرتاریخی و یادگار جلسہ، جھنڈے والے پارک میںغیر ملکی اقتدار کے خلاف لا تعداد اہم اور تاریخی جلسے ان میں ممتاز مذہبی ،سیاسی و سماجی رہنمایان ملک کی شرکت ، ہندو مسلم اتحاد کے مظاہرے، مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی ہما ہمی، مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ، مختلف نشرگاہوں کا قیام اور ان سے مختلف سیاسی نظریات کی حمایت میں لاﺅڈ اسپیکر کاشور۔ تقریریں، نظم خوانی نوک جھونک، اور کبھی کبھی گالی گلوج اور خشت باری ،جھنڈے بازی بلند سے بلند تر پرچم لہرانے کی تقریبات اور بڑے بڑے جلوس۔

آج امین آباد کی سڑکوں پر نظر آنے والے لیڈر کل آزاد ہندوستان کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوں گے کیا اس وقت بھی انہیں یاد رہے گا ”امین آباد“ ؟؟

یہ مرکز علم و ادب ”دانش محل“ ہے جہاں ہمہ وقت ممتاز شعرا وادبا کا مجمع رہتا ہے۔ سید مسعود حسن رضوی، پروفیسر احتشام حسین، اختر علی تلہری، نواب جعفر علی خاں اثر، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی، حکیم مسیح الزماں ،رضا انصاری فرنگی محلی، غلام احمد فرقت کاکوروی، احمد جمال پاشا، نجم الدین شکیب، علی عباس حسینی، مجیب سہالوی وغیرہ سے جب چاہیں مل لیجئے۔

کسی مقامی ادیب ،شاعر یامعلم کے گھر کا پتہ چاننا چاہیں کسی پرانی کتاب اور مخطوطہ کا حسب نسب پوچھناہو تو کاﺅنٹر کے پیچھے بیٹھے چھوٹے ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ کودو انگلیوں سے پیٹتے ہوئے مالک دانش محل نسیم احمد صاحب کو بے تکلف زحمت دیجئے اور اپنی معلومات میںاضافہ کیجئے۔

یہاں سے لوٹتے ہوئے سینٹرل بینک کے پاس گلی کے کونے پر چھوٹے سے ہوٹل میں بھی جھانک لیجئے اس کے کرتا دھرتا ہیں سابق خاکسار لیڈر رئیس فاطمی یہاں موضوع گفتگو ہے سیاست جس پر حاوی ہیں علامہ مشرقی کے کارنامے اور خاکسار تحریک۔ ذرا آگے بڑھ کر فتح گنج والی سڑک پر مڑ لیجئے داہنے ہاتھ پرسندر سنگھ شربت والے کی طرف ،ان کے یہاں مفرح اور خوش ذائقہ شربت پینے والے کو سرمہ کی ایک پڑیا مفت ملتی ہے اور اسی کے سامنے حاجی بلاقی تمباکو فروش کا دورسا آپ کے حقہ میں دھواں بن کر سارے محلے کو معطر کردے گا۔ ذرا اورداہنی جانب بڑھئے اور سری رام روڈ اور کوتوالی کو آئندہ سفر کے لئے چھوڑتے ہوئے بائیں جانب مشہور تجارتی مرکز ”گڑ بڑ جھالا“ بھی دیکھ لیجئے۔ جس میں کبھی ہر چیز ملے گی دوآنہ کی آوازیں گونجتی تھیں اب خاصا بازار ہے۔ جو روزہ مرہ کام آنے والی بیشتر ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اس میں بساط خانہ سے متعلق اشیاءکراکری، ہوزری، ریڈی میڈ کپڑے، چوڑی کنگن اور کلجگی سونے کے نام پر پیتل کے پالش شدہ زیورات سب کچھ دستیاب ہے۔بساطی مسجد سے آواز اذان بلند ہورہی ہے آئیے لوٹ چلیں۔ فتح گنج، گنیش گنج وغیرہ کی زیارت آئندہ سفر میںکی جائے گی۔

یہ گوئن روڈ ہے ۔ یہاں غسل کے لئے حمام بھی ہیں۔ بال ترشوانے کی سہولت بھی ہے اور کپڑوں کی کثافت دور کرنے کے لئے ”پیرس لانڈری“ بھی جس کے دروازے چند گھنٹوں کے علاوہ ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ اسی سڑک پر وہ ریستوراں بھی ہے جس میں ظریف و بے باک شاعر رفیع احمد خاں اپنے شعری حمام میںشیخ و زاہد سب کو آئینہ دکھاتے تھے۔ اگر آپ کو ”ہنٹر والے کی بیٹی“ جیسی فلموں سے دلچسپی ہے تو سامنے ہی تو ہے رائل ٹاکیز آپ وہاں چند گھنٹے گزار سکتے ہیں۔ ذرا بڑھئے داہنی جانب اصلاح معاشرہ ، خدمت خلق اور زہد و تقویٰ کی تعلیم دینے والے جید علمائے کرام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (علی میاں) مولاناڈاکٹر عبد العلی حسنی ندوی، وغیرہ کی بابرکت رہائش گاہ بھی ہے اور حسنی فارمیسی بھی۔

یکہ اسٹینڈ چوک، نخاس، میڈیکل کالج، سٹی اسٹیشن، گولہ گنج ، سعادت گنج، اور ڈالی گنج وغیرہ جانے کے لئے سجے سجائے یکے، تانگے آپ کے منتظر ہیں یہ صرف ایک آنہ کرایہ لے کر آپ کو تہذیبی روایات کے امین خستہ حال پرانے لکھنو کے باشندوں تک پہونچادیں گے لیکن اس سفر سے پہلے امین آباد کاایک چکر مکمل کر لیجئے ۔امین آباد پارک کے گرد بڑی بڑی سجی سجائی دوکانیں دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔ رکھب داس جیولرس سے ذرا بڑھ کر انوار بک ڈپو کے بر آمدے میں بہزاد لکھنوی، شوکت تھانوی، امین سلونوی، نسیم انہونوی، مولانا صبغت اللہ انصاری اور سراج لکھنوی وغیرہ سے ملتے چلئے اور بغل میں صدیق بک ڈپو کے مالک گاڑھا پوش ،قمیص پائجامہ ،صدری اور دو پلی ٹوپی میں ملبوس ،گورے چٹے ،سفید بال اور گول خوبصورت داڑھی والے، بازار کی مقبول شخصیت ،زود گو ،عالمی سیاست پر پنجاب میل کی رفتار سے تبصرہ کرتے ہوئے مولوی صدیق بھی جھانک رہے ہیںان سے ملئے ۔یہ چند گفتگو کئے بغیر آپ کو بڑھنے نہ دیں گے۔ سڑک پار کیجئے لکھنو ¿ کے مشہور گھڑی ساز ادارہ ”کاظم اینڈ کو“ کے مالک مہدی صاحب کرتا پائجامہ اور شیروانی میں ملبوس دوکان کے کسی گوشے میں مصروف گفتگو نظر آئیں گے۔

آئیے ! ہز ماسٹر وائس کے نئے نئے ریکارڈ،آپ خرید یں یا نہ خریدیں ، سن لیجئے سردار گراموفون، میں قدم رکھتے ہی کئی ریکارڈ وں پر سوئیاں گھومنے لگیں گی جیسے یہ آپ ہی کی منتظر ہوں۔ ریکارڈ سننے یا خریدنے کے بعد آگے بڑھئے ، سودیشی اسٹور کپڑے کی بڑی دوکان یہاں اونی ،ریشمی ،سوتی ہر قسم کا کپڑا بھی خرید سکتے ہیں اور کاﺅنٹر کے پیچھے رجو بابو سے مصروف گفتگو سیاسی رہنماﺅں سے ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔

No comments: