Saturday, January 8, 2011

راجستھان میں جدید غزل: آغاز اورارتقا از محمد شاہد پٹھان

ممتاز راشد ایک مدت سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ ان کی غزل میں رومانویت کے ساتھ ساتھ جدید شعری حسیت خاص کر دیکھنے کو ملتی ہے۔ شہری زندگی کی ہنگامہ آرائی، بیگانگی اور مصلحت اندیشی کااظہار راشد کے یہاں شعری نزاکت کے ساتھ ہوا ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھیگا ہوا کاغذ شائع ہوچکا ہے۔

پوچھتا کس سے میں کھوئے ہوئے چہروں کا پتا

شہر کی بھیڑ میں نکلا نہ شناسا کوئی

پاس جاکر جسے دیکھا وہی پتھر نکلا

کون تحریر بدلتا مری پیشانی کی

با رہا یہ ہوا جاکر ترے دروازے تک

ہم پلٹ آئے ہیں ناکام دعاﺅں کی طرح

تنگ تھی ہم پر زمیں کچھ اس طرح

چند دیواروں کو گھر کہنا پڑا

مضطر صدیقی ،راجستھان میںاپنی شناخت ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔ ان کی غزل اور نظم دونوں اصناف میں ”ترقی پسند نقطہ نظر“ دیکھنے کو ملتا ہے۔ چنانچہ اس نظریے کے اچھے برے دونوں عناصر بھی ان کی شاعری میںموجود ہیں۔ غزل چونکہ کسی نظریے کی منظم ترجمان کم ہی ہوپاتی ہے اس لئے مضطر صدیقی کی غزل میں صرف ترقی پسند عناصر ہی نہیں بلکہ جدید غزل کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ان کے طرز احساس و اظہار میںوجودی اور انفرادی رنگ جلوہ گر ہوتا ہے ذیل میں چند اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:

مضطر بڑے خلوص سے پیش آرہے ہیں لوگ

یہ التفات خاص فریب نظر نہ ہو

سورج کی تیز دھوپ نے مضطر جلا دیا

ملتا نہیں ہے سایہ ¿ دیوار و در مجھے

یہ شب غم یوں ہی آوارہ پھرا کرتی ہے

اس سے کہہ دو کہ کبھی مجھ سے ملاقات کرے

مضطر صدیقی کے دو شعری مجموعے ”ارتعاش“ اور اضطراب شائع ہوئے ہیں۔

عشرت دھولپوری ایک پختہ کار شاعر ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ”بوند بوند “ شائع ہو چکا ہے۔ اور دوسرا زیر اشاعت ہے، اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں وہ ترقی پسند ی سے قریب تھے لیکن بعد ازاں جدیدیت سے متاثر ہوئے۔ عشرت دھولپوری کی شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ پہلے ”شاعری “ ہوتی ہے ”ترقی پسند اور جدید بعد کی منزلیں ہیں۔ وہ جذبے کو احساس اور احساس کو شعری اظہار بنانے کے فن کارانہ ہنر سے کما حقہ آشنا ہیں۔ چند اشعار دیکھئے:

میرے ہاتھوں سے مٹا میری مشقت کے نشاں

اور پھر میری جبیں پر میری قسمت لکھ دیے

زخموں کے پھول شاخ بدن پر لئے ہوئے

گزرا ہوں شہر رنگ سے میں سر لیے ہوئے

کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد

شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی

مری آنکھوں میںاس کاخواب پل بھر کے لئے جاگا

مگر بے خوابیوں کا سلسلہ جاری رہا برسوں

اب لہو صرف رگوں میں نہیں بہتا عشرت

دیر و کعبہ کے چراغوں میں بھی جل جاتا ہے

مری نگاہ رہی شہر کی فصیلوں پر

چھپا ہوا مرا قاتل مرے مکان میں تھا

ش۔ ک۔ نظام کی غزل کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں جذباتیت کارنگ ناپید ہے۔ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے محسوس کرنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کے اشعار قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے بالواسطہ مکالمہ قائم کرتے ہیں۔ ان کے عمدہ اشعار میں واقعات کی روداد نہیں بلکہ تاثر کابیان ہوتا ہے۔ جو ہمارے موجودہ معاشرے کی اجتماعی کج روی کا غماز ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔چند منتخب اشعار پیش ہیں:

فرد باقی ہے خاندان کہاں

ڈھونڈتے ہیں مکیں مکان کہاں

دونوں اطراف کے لوگ زخمی ہوئے

پتھروںکی کہاں تھی کمی شہر میں

کتنا مایوس کتنا افسردہ

ہے مری طرح شہر بھی تنہا

آج سے تو پتھروں کے دور ہی میں ٹھیک تھا

روشنی کے شہر نے تو کردیا اندھا مجھے

اس بستی کی بات نہ پوچھو اس بستی کا قاتل بھی

سیدھا، سادہ، بھولا بھالا ،پیارا پیارا لگتاہے

شاہد میر کا ایک شعری مجموعہ ”موسم زرد گلابوں کا شائع ہوچکا ہے۔ وہ ”نباتات“ کے استاد ہیں،چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری میںبھی نباتاتی لفظیات کو علامتی اور استعاراتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کے متنوع پہلووں سے ان کا تطابق و تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں شاہد کی غزل میں فطری مناظر اور زندگی کے مختلف مظاہر میں گہرا ارتباط دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے شاہد کی غزل میں فطرت پسندی کارجحان نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے چند اشعار پیش ہیں:

پانی کے عوض سبز درختوں نے پیا زہر

ہر شاخ پہ پھولوں کی جگہ کھلنے لگا زہر

ہمیں تو خشک ٹہنی توڑ کر بھی درد ہوتا ہے

چلا دیتے ہیںآری لوگ کیسے نم درختوں پر

ہماری جیسی قسمت لے کے آئے ہیں زمانے میں

کبھی شعلے برستے ہیں ، کبھی شبنم درختوں پر

اظہار مسرت کی شاعری کا ایک مجموعہ ”کرب خموش“ شائع ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے رنگ باہمی طور پر مربوط نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دونوں ادبی رجحانات سے استفادہ کیاہے۔ وہ ترقی پسند ہیں مگر اشتراکیت کے مبلغ نہیں۔ اسی طرح ان کے یہاں جدیدیت کا تخلیقی پہلو بھی جلوہ گر ہے۔ ذیل کے اشعار سے ان کی غزل کا معیار و مزاج سامنے آجاتا ہے۔

ہر بزم میں تنہائی کا آسیب ہے میں ہوں

ہر بزم کا ماحول مرے گھر کی طرح ہے

آکے سیلاب گزر جائے گا، لیکن برسوں

حاکم وقت نیاگھر نہ بنانے دے گا

صبح ہوگی تو ملے گا یہاں ہر اک زخمی

رات برسے ہیں مرے شہر میں گھر گھر پتھر

ہمارے حصے میں صحرا کی تشنگی آئی

سمندروں میں بڑی مچھلیوں کا ڈیرا تھا

نذیر فتح پوری نے شاعری کی بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ اب تک نذیر کے چار شعری مجموعے چھپے ہیں ان میں شامل کلام کے مطالعہ سے ان کی تخلیقی فعالیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ راجستھان سے باہر پونہ میںقیام پذیر ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری میں نقل مکانی ،ہجرت اور سماجی سطح پر بڑھی ہوئی بے کیفی و بیگانگی جیسے مسائل کا اظہار ملتا ہے۔ اپنے ڈکشن اور اسلوب میں انہوں نے جدید غزل کی لفظیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ مقامی الفاظ و علامات کا استعمال بھی سلیقے سے کیا ہے۔ چند اشعار دیکھئے:

اماں ملی نہ کہیں خانماں خرابوں کو

تمہارے شہر میں اونچے مکان کتنے ہیں

درد کا چاند چمکتا ہے مری بستی پر

تم نے دیکھا ہے کہیں اور یہ منظر یارو

ہر طرف پتھروں کی بارش ہے

جسم و جاں کو سنبھال کر رکھئے

صحرائے زندگی میں مسائل کی دھوپ سے

جو شخص بھی ملا وہ سلگتا ہوا ملا

انعام شرر ایوبی راجستھان کے ایک اہم جدید شاعر ہیں۔ مولانا قمر واحدی کے شاگردوں میں انہیں نمایاں مقام حاصل ہے۔ شرر کاکلام ملک کے رسائل و جرائد میں خال خال ہی شائع ہوا ہے۔ اس لئے ادبی دنیا میں انہیں زیادہ شہرت نہ مل سکی۔ ان کی شاعری میںان کی جذباتیت ، بدیہہ گوئی اور فوری اظہار کے سبب قدرے طنز آمیز شعری رویہ پیداہوجاتا ہے۔ اس رجحان سے شرر کی شاعری میں بلند آہنگی اور گاہ بہ گاہ نعرہ زنی کاانداز بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ شرر کے اسلوب سخن کی تعمیر میں ایک خاموش اثر جوش ملیح آبادی کا بھی رہا۔ جوش شرر صاحب کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ لہٰذا شرر کی بلند آہنگی میں جوش کی بلند آہنگی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ذیل میںان کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

مصائب سے کبھی حالات سے لڑتے رہے ہیں ہم

ہمیں بھی دور حاضر کامجاہد لکھ، سپاہی لکھ

ہر حادثہ یہ سوچ کے برداشت کر لیا

شائد اب اس کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو

پھر وہی دھوپ کا موسم وہی سایے کی تلاش

سلسلہ ختم یہ شائد نہیں ہونے والا

موجود ہے گھروں میں فسادوں کا ڈر ابھی

مشکوک سی ہے شہر کی ہر رہ گزر ابھی

سخاوت شمیم کے یہاں غزل کے مانوس کلاسیکی انداز کا اثر بھی ہے اور جدید غزل کے نئے ڈکشن سے ابھرنے والا تازہ کار اسلوب بیان بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کی ناہمواریوں کو ایک بالیدہ شعور فن کار کی حیثیت سے محسوس کرتے ہوئے اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ”روشنی تو ہونے دو“ شائع ہوا ہے۔

اب آسمانوں سے آگے اڑان بھرتا ہوں

درونِ ذات خلا کا حصار پہلے تھا

بے شمار لوگوں کو ہم خیال کرنا ہے

آج میرے ہونٹوں پر مہر خامشی رکھ دو

یوں تو کچھ لوگ چلے آئیں گے چیخیں سن کر

کون مجروح صداﺅں کامسیحا ہوگا

اس شہر میں تو عام یہ دستور ہوگیا

ہر شخص اپنی ذات میں مستور ہوگیا

حافظ ابرار احمد فائق کا کلام رسائل و جرائد میں بہت کم شائع ہوا ہے۔ لیکن وہ ایک باشعور اور ذہین فن کار ہیں۔ وہ کم لکھتے ہیں لیکن شاعری کااعلیٰ معیار قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا جتنا کلام میری نظر سے گزرا ہے وہ فکر و اسلوب ہر دو اعتبار سے پائیدار ہے،فائق اپنے عہد کی سماجی و سیاسی ذہنیت پر دانشورانہ انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں ،چند اشعار درج ہیں:

نہیں لکھیں تو خیانت ،لکھیں تو مجرم ہیں

عجیب آفتِ جاں ہے قلم ہمارے لئے

سنگ باری پہ تباہی تو سبھی کی ہوگی

آئینہ کوئی زیادہ، کوئی کم ٹوٹے گا

قدم قدم پہ ہے میرے وجود کو خطرہ

میں لمحہ لمحہ تحفظ کے انتباہ میں ہوں

مرا شباب مرا حسن چھین لے یارب

غریب باپ کی بیٹی نے یہ دعا کی ہے

فراز حامدی کی تخلیقی صلاحیتوں کا زیادہ تر اظہار گیت ،دوہا، غزل، ماہیہ اور دوسری نئی اصناف مثلاً ہائیکو وغیرہ میںہوا ہے۔ لیکن ان کی غزلیں بھی ان کے شعری سرمایے میںموجود ہیں۔ نمونے کے طور پر ان کے چند اشعار پیش ہیں:

ہنس نہ سکے یہ بات الگ ہے

جینے کو تو ہم بھی جیے ہیں

تو نے کتنوں کو دھوکے دیے ہیں

زندگی تجھ کو پہچانتا ہوں

شہر کی بھیڑ میں کھوئی کھوئی سہمی سہمی ایک نظر

ہر چہرے سے پوچھ رہی ہے تونے مجھے پہچانا کیا.

No comments: