Saturday, January 8, 2011

رسالہ نور المعرفت اور ولی دکنی از ڈاکٹر عصمت جاوید

محمد شریف کاسال وفات ۲۷۰۱ھ ہے۔ ملفوظ کبیری ۵۴۰۱ھ اور ۰۶۰۱ھ کے درمیان لکھی گئی ہے۔ محمد شریف کے سب سے چھوٹے اور لائق ذکر بیٹے ہونے کی حیثیت سے محمد ولی اللہ کی عمر ۵۴۰۱ھ میں کم سے کم اٹھارہ سال تو فرض کی جاسکتی ہے اس لحاظ سے ان کا سال پیدائش یاتو ۷۲۰۱ھ رہاہوگا اور اگر ملفوظ کبیری ۰۶۰۱ھ میں لکھی گئی تو ان کی سن پیدائش ۲۴۰۱ھ متعین کی جاسکتی ہے۔ محمد ولی اللہ ۷۰۱۱ھ میں زندہ تھے کیوں کہ ایک تمسک نامے پر جو استادی نجیب اشرف ندوی مرحوم کی ملکیت تھا ان کے بطور گواہ دستخط ثبت ہیں۔ رسالہ نور المعرفت کا سال تصنیف ۱۱۱۱ھ اور ۹۱۱۱ھ کے درمیان متعین کیا گیا ہے۔ کیوں کہ بقول ڈاکٹر ظہیر الدین یہ رسالہ جس درسگاہ کی تعریف میں رقم کیا گیا ہے۔ اس کاسال بنیاد ۱۱۱۱ھ ہے اور محمد ولی اللہ کاانتقال بھی ولی دکنی /اورنگ آبادی کی طرح ۹۱۱۱ھ فرض کیا جائے تو رسوالہ نور المعرفت کا سال ارقام ۱۱۱۱ھ اور ۹۱۱۱ھ کے درمیان ہی رہا ہوگا۔ اگرہم محمد ولی اللہ کا سال پیدائش ۷۲۰۱ھ مان لیں تو ۱۱۱۱ھ میں میں ان کی عمر چوراسی سال کی فرض کرنی ہوگی۔ اوراگر ان کا سال پیدائش (۲۴۰۱ھ) مان لیں تو ان کی عمر ۱۱۱۱ھ میںانہتر برس کی مان لینی ہوگی یا پھر اس وقت ان کی عمر انہتر اور چوراسی کے درمیان فرض کرنی ہوگی۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ مصنف نور المعرفت کے ممدوح شاہ نور الدین صدیقی سہروردی کی ۱۱۱۱ھ میں کیا عمر تھی۔ ڈاکٹرظہیر الدین مدنی رقم طراز ہیں:

”مولانا شیخ نور الدین ۰۱ جمادی الاول ۴۶۰۱ھ بمقام احمد آباد پیدا ہوئے اور ۰۰۰۱ اکانوے سال کی عمر میں ۹شعبان ۵۵۱۱ھ میں وصال ہوا۔“

اس حساب سے ۱۱۱۱ھ میں مولانا کی عمر ۷۴ سال کی تھی سوال یہ ہے کہ ایک ستر یا اسی سال کا بوڑھا اپنے سے اس قدر کم عمر شخص کی تعریف میںزمین و آسمان کے قلابے کس طرح ملاسکتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بزرگی بعلم است نہ بسال پھر بھی جس انداز میں مصنف نور المعرفت نے شاہ نور الدین کی تعریف کی ہے اس سے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نوجوان کسی بزرگ کی تعریف میں رطب اللسان ہے نمونہ ملاحظہ ہو۔

شکر ش بشکر آل داﺅد مساز و صبر ش بصبر ایوب ہمراز کلامش با کلام کلیم اللہ ہم کلام و مہمان داریش بہ مہمان داری ابراہیم ہم طعام عصائش ہم دست عصائے موسوی و فقرش ہم کاسہ فقر عیسیٰ پیراہنش بہ پاکی دامن یوسف مشہور .... اگرارسطو ہوش میداشت کمر (بشاگر د یش) می بست واگر بو علی زندہ بود از شاگرد۔ دانش تکراری می گرفت“

(اس کا شکر شکر آل داﺅد کی برابری کرتا ہے۔ اس کا صبر صبر ایوب کا ہمراز ہے۔ اس کا کلام کلیم اللہ کے ہم کلام ہے او ر اس کی میزبانی،میزبانی ابراہیم کی ہم طعامی ہے اس کاعصیٰ عصائے موسوی اور فقر عیسیٰ کی برابر ی کرتاہے۔ اور اس کا پیراہن پاکدامنی یوسف کی طرح مشہور ہے۔ اگر ارسطو ہوش و خرد رکھتا تو اس کا شاگرد بن جاتا اور اگر بو علی زندہ ہوتا تو اس کے شاگردوں کے اقوال دہراتا)

لطف کی بات یہ ہے کہ نور المعرفت کا مصنف جو کوئی بھی رہا ہے وہ شاہ نور الدین سہر وردی کی مدح سرائی میںغلو اور اغراق کی تمام سر حدیں پار کر جاتا تو ہے لیکن کہیں یہ دعویٰ نہیں کرتات کہ وہ شاہ نور الدین سہروردی کا شاگرد ہے۔ نہ یہ لکھتا ہے کہ وہ مولانا نور الدین کا مرید ہے لیکن نورالمعرفت کے ناقل قاضی فائق اس رسالے کی ترقیم کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد اپنے تذکرہ مخزن الشعراءمیں ”ولی احمد آبادی“ کے ترجمے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس رسالے کا مصنف (جو ان کے خیال کے مطابق ولی دکنی تھا) جناب معارف آگاہ مخدوم العالم مولانا محمد نور الدین صدیقی السہروردی کا مرید تھا۔ پھر یہ بات چل پڑی کہ ہمارا محمد ولی دکنی مولانا نور الدین سہروردی کی مریدی کا دم بھرتاتھا اور اس ثبوت طلب بات کو سند کا درجہ دینے کے مرتکبین میںآزاد جیسے کمزور محقق سے لے کر دور حاضر کے ماہرین ولی بھی نظر آتے ہیں اور یہ بات اتنی بار دہرائی جاچکی ہے کہ اب وہ ان لوگوں کے لئے بھی حقیقت بن گئی ہے جو تحقیقی نظر رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر زور بھی رو میں لکھ گئے کہ ولی دکنی نے گجرات کے مدرسہ ہدایت بخش سے فیض حاصل کیا۔ یہ وہی مدرسہ ہدایت بخش ہے جس کی تعریف میں رسالہ نور المعرفت لکھا گیا ہے اور جس کا سال بنیاد ۱۱۱۱ھ یعنی ولی کی وفات سے آٹھ سال قبل کا ہے۔ولی دکنی اور شاہ نور الدین سہر وردی کی ملاقات تک ثابت نہیں ہے اور نہ اول الذکر نے کسی شعر میںان کی مدح کی ہے اور نہ کہیں ہلکا سا اشارہ بھی کیا ہے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ رسالہ نور المعرفت کے مصنف محمد ولی اللہ بھی نہیں تھے اور اگر تھے تو پیرانہ سالی میں مدرسہ ہدایت بخش کی مدح سرائی کی کوئی معقول اور قابل قبول توجیہہ ہمارے پاس نہیں ہے اور اس رسالے کا مصنف وہ مجہول الاسم شخص تھا جس کا تخلص نہیں بلکہ خطاب ولی تھا اور رسالہ تحریر کرتے وقت اغلب ہے کہ وہ جوان تھا۔

نور المعرفت الف سے ی تک پڑھ جائیے مصنف نے اس رسالے میں اپنی ذات سے متعلق یا اپنی دکنی شاعری سے متعلق ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا ہے۔ اگر یہ رسالہ ولی کی تصنیف ہوتا تو چونکہ یہ رسالہ ۱۱۱۱ھ یا اس کے بعد کال کھا ہواہے یعنی ولی کی وفات سے آٹھ سال یا اس سے کم عرصے میں ضبط تحریر میںآیا تھا اس لئے ولی اس میںاپنے شاعرہندی ہونے کا ذکر ضرور فخر سے کرتے۔ کیوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب ولی کی دکنی شاعری کی دکن میں دھوم مچی تھی۔ رسالہ نور المعرفت کے مصنف نے اپنے بارے میں اگر کوئی معلومات دی ہے تو صرف اتنی کہ ولی اس کا خطاب ہے اور وہ شاہ گلشن کا شاگرد ہے۔ مصنف رسالہ ¿ نور المعرفت کا خود کو شاہ گلشن کا شاگرد کہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مصنف ولی دکنی ہوہی نہیں سکتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ محض اس بیان کی بنیاد پر مصنف نور المعرفت اور ولی دکنی میں خلط مبحث کرکے یعنی ولی دکنی کو نور المعرفت کا مصنف قرار دے کر یہ بات بھی چل نکلی کہ ولی شاہ گلشن کے شاگرد تھے کہ آزاد نے آب حیات میں یہ لکھ کر کہ میں ولی محمد نور الدین صدیقی سہر وردی کے مریدوں کی خا ک پا ہوں اور شاہ سعد اللہ کا شاگرد اس جملے کا بھی اضافہ کیاہے مگر یہ نہیں لکھا کہ کس امر میں۔ آزاد نے یہ جملہ اس لئے لکھا ہوگا کہ ولی دکنی شاہ گلشن کے اگر شاگرد ہوسکتے تھے تو فارسی میں۔ کیوں کہ شاہ گلشن دکنی سے نابلد تھے اور ولی دکنی صرف دکنی میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ شاہ گلشن سے دلی میں ولی کی ملاقات کا ذکر ضرور آیا ہے اور ان کے مشورے کا بھی لیکن شاگردی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ شاہ سعد اللہ گلشن فارسی کے شاعر تھے اور ولی کی فارسی گوئی کا ہمیں قطعی علم نہیں۔ ان سے صرف ایک فارسی خمسہ بے نقط منسوب ہے جو ان کے دیوان کے متعدد قلمی نسخوں میں صرف ایک نسخے میں ملا ہے جسے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے کلیات ولی کے دیباچے میں نقل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ الحاقی کلام ہوگا۔ اس خمسے میں ولی کا تخلص بھی نہیں ہے۔ اگر یہ فارسی خمسہ ولی کا ہوتا تو ان کے دیوان کے کسی اور نسخے میں بھی ضرور ملتا۔ قدیم مخطوطوں میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں کسی مخطوطے کے کاتب نے دوسروں کا کلام بھی اس میں شامل کر لیا ہے۔ جب تک ہمارے پاس کوئی ایسی تحریری شہادت نہیں ملتی کہ ولی فارسی میںبھی لکھتے تھے تو ہم کس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاہ سعد اللہ گلشن کے شاگرد تھے ظاہر ہے کہ وہ اپنا دکنی کلام شاہ گلشن کو اصلاح کی غرض سے نہیں دکھاتے تھے۔ صاحب نور المعرفت کے اس بیان سے کہ وہ شاہ گلشن کے شاگرد تھے۔ یہ بات پایہ ¿ ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ اس رسالے کے مصنف ولی دکنی ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ کوئی اور صاحب ہی ہو سکتے ہیں جو شاہ سعد اللہ گلشن کے فارسی زبان میں شاگرد تھے اور جن کا خطاب ولی تھا۔

ایسی صورت میں جب کسی دعوے کی تائید یا تردید میں کوئی خارجی شہادت دستیاب نہ ہو تو داخلی شہادت کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی مرتبہ نور المعرفت لکھتے ہیں:

”جس بات سے ہمارے خیال کو (کہ ولی اس رسالے کے مصنف ہیں) تقویت پہونچتی ہے وہ رسالہ نور المعرفت ہے حاصل کردہ داخلی شہادت ہے۔ ولی نے جن علوم و فنون اور کتب علمیہ و ادبیہ مثلاً معانی و بیان خطاطی مطول و مختصر ،تجرید تفرید گلشن راز خیالی فخر راہی وغیرہ کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے جن پر اسے قدرت حاصل تھی انہیں علوم و فنون اور کتب کو نور المعرفت میں استعمال کیا ہے۔“

لیکن یہ کوئی حتمی یا قوی داخلی شہادت نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ کلیات ولی کے مرتب ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی بھی ڈاکٹر مدنی کی ہاں میںہاں ملاتے ہوئے یہ کیسے لکھ گئے کہ داخلی شہادت کی بنا پر قیاس کہتا ہے کہ یہ (مراد در سالہ نور المعرفت)ولی ہی کا تصنیف کردہ ہوگا۔ ولی محمد دکنی / اور نگ آبادی اپنے زمانے کے دانش ور تھے، انہوں نے شاہ وجیہ الدین کے مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کسی دینی مدرسے میں معلمی کے فرائض بھی انجام دیئے ہوں اور درس و تدریس ان کا پیشہ رہا ہو جیسا کہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے قیاس ظاہر کیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عہد ولی کی عام علمی فضا ہی ایسی تھی کہ اس میں سانس لے کر ایک معمولی حرف شناس بھی عالموں کی طرح گفتگو کرسکتا تھا اس لئے اگر رسالہ نور المعرفت کے مصنف نے جو ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ رہا ہوگا ،فلسفہ حکمت، منطق اور فقہ کی چند مشہور کتابوں کے حوالے دیے ہیںاور ان میں ایک دونام کلام ولی سے لڑ گئے ہیں تو محض اس اتفاق کی بنیاد پر ولی محمد دکنی کو رسالہ نور المعرفت کامصنف قرار دینا تحقیق کی کوئی قابل تقلید مثال نہیں ہے۔

ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی آگے چل کر لکھتے ہیں:

”ولی کو مولانا نور الدین صدیقی سے جو عقیدت مندی اور مدرسہ ہدایت بخش سے جو تعلق تھا اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میںکچھ پس و پیش نہیں کہ نور المعرفت ولی گجراتی ہی کے اظہار عقیدت اورحق شاگردی کا تحریر ثبوت ہے۔

یہاں موصوف طریقہ استدلال کے اس مغالطے کے مرتکب ہوئے ہیں جسے منطقی اصطلاح میں Beggning the quetionکہتے ہیں یعنی جس بات کوثابت کردہ فرض کرکے اس سے نتائج کا استخراج کیاہے۔ ہمیں تو یہ ثابت کرنا ہے کہ رسالہ نور المعرفت کے مصنف ولی محمد دکنی ہیں لیکن موصوف نور المعرفت کوولی محمد دکنی کی تصنیف قرار دے کر یہ استدلال کرتے ہیں کہ ولی کو مولانا نور الدین صدیقی سے عقیدت تھی کیوں کہ یہ بات نور المعرفت کے مطالعے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ ولی محمد دکنی کومدرسہ ہدایت بخش سے بھی نسبت تھی کہ رسالہ نور المعرفت میں اس مدرسے کی تعریف درج ہے۔

No comments: