Saturday, January 8, 2011

جوش ملیح آبادی کی تحریریں ازذو الفقار حسین

جوش ملیح آبادی کی تحریریں بھلے ہی سرمایہ دارلوگوں کو ناگوار گزرتی ہوں مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تحریریں اپنے آپ میں نایاب و نادر ہیں۔ ان میںسرمایہ دارانہ نظام کا پختہ قلعہ مسمار کرنے کی طاقت بھی ہے اور غیر سرمایہ دارانہ نظام کا عالی شان محل تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی، فرماتے ہیں:” محکومیت و غلامی ایک ایسی بے درمیاں زبوں حالی اور ایک ایسی شدید لعنت ہے کہ دود مان شیطانی کے سب سے بڑے شریر و شقی رکن تک کو اس پر ترس آتا ہوگا۔ محکومی کا جسم لاغر ،روح مردہ، چہرہ زرد، پیشانی پر شکن، سینہ تنگ، دل سرد ،ولولے پابہ زنجیر اور ذہنیت پست و مکدر ہوتی ہے، کسی قوم کے اندر یہ سینوں کا کھینچ لینے والا احساس کہ میں محکوم ہوںایک ایسا آہستہ دوڑنے والا زہر ہوتا ہے جس کے اثر سے اس کے ولولے ایڑیاں رگڑتے اور اس کی امنگیں دم توڑتی رہتی ہیں۔ محکومی کی ہر منزل منزل اول اور محکومی کا ہر نفس نفس آخر ہواکرتا ہے۔ محکوم کا حضر و سفر دونوں مساوی طور سے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ حضر کی حالت میں فاتح قوم کی حکومت اس کی عزت کو سراٹھانے کا موقع نہیں دیتی اور سفر میں دوسری آزاد قومیں تو کارز میں ران کو ساختی؟، کے تحت اس کی پرچھائیں کی بھی روادار نہیں ہوتیں۔“ (ماہنامہ کلیم)

جہاں جوش کی تحریریں ہر درجے کے قاری میںانقلاب بر پا کرنے کی قوت و توانائی رکھتی ہیں وہیں انسانیت نوازی کی صحیح تصویر بھی دکھاتی ہیں۔ان کی تحریروں میںانسانیت نوازی کی تصویریں صرف تعریف کے قابل ہی نہیں بلکہ لائق احترام ہیں،فرماتے ہیں:

” جو قوم اپنے یتیموں کو ننگا بھوکا رکھتی ہے ، جو قوم اپنے یتیموں کو ننگے پاﺅں پھراتی ہے، جو قوم اپنے یتیموں کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھتی ہے جو قوم اپنے یتیموں کو دوسروں کے گھروں میں بے اجازت درآنہ گھس پڑنے کی تعلیم دیتی ہے جو قوم اپنے یتیموں میں ذہنیت پیدا کرتی ہے کہ وہ آیات قرآنی سے کاسہ گدائی کا کام لیں جو قوم اپنے یتیموں کو بھیک مانگنے کی انتہائی شرمناک عادت ڈلواتی ہے، جو قوم اپنے یتیموں کو اپنی معاش کا ذریعہ بناتی ہے اور جو قوم اپنے یتیموں کو اپنی نفسانی خواہشوں کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کا ارتکاب کرتی ہے وہ قوم قدرت کی مبغوض و مستوب قوم اس قابل ہے کہ اسے ہلاک کر دیا جائے اس کی ہڈیوں تک کو توڑ ڈالا جائے، ٹوٹی ہڈیوں میں آگ لگا دی جائے اور پھر ان ناپاک ہڈیوں کی راکھ کو دوزخ میں جھونک دیا جائے۔“ (ماہنامہ کلیم)

جوش ملیح آبادی کی مذکورہ تحریروں کے علاوہ ایسی اور بھی بہت سی تحریریں ہیں ان تحریروں میں خیالات کی پاکیزگی، زبان کی صفائی ،لفظوں کی روانی اور تشبیہات و استعارات کی کثرت سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنی بیش قیمت ہیں۔

No comments: