Saturday, January 8, 2011

عبد الماجد دریابادی کے ادبی معرکے از شجاعت علی سندیلوی

اردو زبان و ادب کی لفظی و معنوی اصلاح و ترقی میںادبی معرکوں کااہم حصہ ہے ان معرکوں سے زبان و بیان میں صحت و صفائی ،سلاست و روانی آئی، لفظ خیال کو بہتر سے بہتر انداز میں استعمال کرنے کا سلیقہ آیا۔یہ خصوصیت یاانفرادیت بھی اردو کو حاصل ہے کہ اس میںکوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میںادبی معرکے نہ ہوئے ہوں۔ میر و مرزا ،انشاءو مصحفی، ناسخ و آتش، ذوق و غالب ،شرر و چکبست وغیرہ کے معرکوں نے ہمارے ادب کو بنانے اور سنوارنے میں بڑا کام کیا۔ موجودہ دور بھی ان معرکوں سے خالی نہیں رہا۔ اثر و فراق ،جوش ،سراج ، نیاز، یگانہ چنگیزی جیسے مشاہیر کے معرکوں سے علمی و ادبی دنیا ناواقف نہیں ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی جو بیک وقت بہترین انشا پرداز، ادیب ،صحافی، محقق ،نقاد ، مفسر قرآن، فلسفی تھے۔ اور مشرقی و مغربی ادب پر قدرت کاملہ رکھتے تھے اور جنہوں نے مسلسل ستر بہتر سال تک مختلف موضوعات ،ادب ،فلسفہ، مذہب وغیرہ کی تقریباً ۴۶ ، ۵۶ کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ ان کے علاوہ وہ سچ ،صدق اور صدق جدید کے تاحیات مدیر رہے۔ ان کے ذریعہ سے معاشرہ اور ماحول اشخاص و اقوام کے حالات پراپنے خاص اسلوب میں تنقید و تبصرہ کرتے رہے، اختلافات اور معرکوں سے کیسے محفوظ رہ سکتے تھے، آپ بیتی میں آپ تحریر فرماتے ہیں:

”سچ کو اپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے۔ یہ جنگ کبھی ادب کے سلسلے میں ہوتی تھی کبھی مذہب و سیاست یا کسی اور موضوع یا مسئلہ پر لیکن ان میںزیادہ تر مذہبی یاسیاسی اختلافات سے بحث ہوتی تھی خالص ادبی یا لسانی معرکوں کی تعداد کم ہے۔ سچ سے پہلے مولانا متعدد اخبارات و رسائل میں مضامین لکھتے رہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ تصنیف و ترجموں پر زیادہ توجہ دیتے رہے۔ بی اے کرنے کے بعد مولانا نے فلسفہ جذبات کے نام سے ایک کتاب ۳۱۹۱ءمیں لکھی۔ اس کاایک باب ’حظ وکرب“ الہلال میںشائع ہوا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے حظ و کرب پر اعتراض کیا۔ اور یہ رائے دی کہ حظکے بجائے لذت اورکرب کے بجائے الم ہونا چاہئے۔ مولانا نے حظ اور کرب کو انگریزی الفاظ پلیزر اور پین کے معنوں میں استعمال کیا تھا۔ مولانا کے الفاظ میں خود صاحب الہلال سے الہلال میںنوک جھونک نفسیات کی ایک علمی اصطلاح سے متعلق شروع ہوگئی۔ یہ سلسلہ نوک جھونک طول پکڑ گئی اور اس نے ایک بحث کی صورت اختیار کر لی۔ مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم اس زمانے میں الہلال سے وابستہ تھے۔ مولانا عبد الماجد دریابادی اختلافی مسائل میںان سے ضرور مشورہ فرماتے، حظ اور کرب کے سلسلے میں بھی انہوں نے سید صاحب کی رائے مانگی۔ سید صاحب اپنے ایک خط مورخہ ۶۲اکتوبر ۳۱۹۱ءمیںاس کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

”یقینا قدیم اور محفوظ زبان عرب میں حظ بمعنی مسرت و شادمانی نہیں آیا۔“ فارسی میںبھی حظ بمعنی قسمت و تقدیر آیا اور یہیں سے خصوصاً حسن قسمت و تقدیر میں مستعمل ہوکر خوشی و مسرت کے معنی میںآگیا۔“

یہ بحث تکرار کی حد تک پہونچ گئی تھی۔ مولانا عبد اللہ عمادی کے الفاظ میں لوگ اس تکرار سے بدحظہ ہونے لگے۔“

لیکن مولانا نے پلیزر اورپین کا ترجمہ حظ و کرب ہی رکھا اور یہی مقبول ہوا۔ فلسفہ جذبات کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، مولانا نے اس پر نظر ثانی بھی کی، لیکن حظ و کرب میں تبدیلی نہیں کی۔

علمی اصطلاحات کے ترجمے کے سلسلے میں اکثر و بیشتر اختلافات ہوتے رہے مولانا ان کے سلسلے میں مشاہیر اساتذہ سے رجوع کرتے اور مطمئن ہوجانے پر تسلیم کرتے۔

مولانا کے زیادہ تر معرکے ہوئے تو اردو زبان میں لیکن خالص ادبی نہیں بلکہ مذہبی،سماجی یاسیاسی ،اسی لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام معرکے بھی بالواسطہ ،ادبی ہی تھے ،اختلافات انہیں حضرات سے ہوتے تھے، جو خود صاحب قلم تھے اور جن کی علمی و ادبی حیثیت مستند و مسلم تھی ان میںنگار کے ایڈیٹر نیاز فتح پوری کا نام سر فہرست ہے۔ نیاز صاحب دین اور ارکان دین کے ساتھ تمسخر واستہزا کرنے میں کافی نام پیدا کرچکے تھے۔ اور اپنے خیالات کااظہار نگار میں برابر کرتے تھے مولانا عبد الماجد ان خیالات کا احتساب ”سچ“ میں کرتے۔ نگار اس کا جواب دیتا۔ جواب الجواب کے اس سلسلے نے دفتر کے دفتر سیاہ کردیئے۔ ”سچ کی ساتویں جلد بابتہ ۱۳۹۱ءکے قریب قریب ہر شمارے میںنیاز اور فتنہ نگار“ کے متعلق مولانا نے خوب خوب لکھا اور اسلوب ماجدی کے جوہر دکھائے۔ نیاز کی غلط تاویلوں کی گرفت کی اور ان کے نتائج سے ادبی دنیا کو آگاہ کیا،”سچ“ کے پہلے شمارے ہی میں جو ۲اور ۹جنوری کامشترکہ ہے۔ نیاز کی دیانت سے بے نیازی کے سلسلے میں لکھتے ہیںکہ

”اللہ اللہ ! کیسی جراتیں اور جسارتیں ہیں! دین سے بے نیازی، دیانت سے بے نیازی، شریفانہ صحافت سے بے نیازی اور کھلے خزانے ان بے نیازیوں کانام علمی تحقیق ! انا للہ!

پھر یہ تبصرہ نگار میںشائع شدہ اس جواب کے سلسلے میں ہے، جو سید سلمان ندوی کے فرضی نام سے نیاز صاحب نے شائع کیا تھا۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کے بقول اس جواب میں ”سید صاحب کی ایک سطر، ان کا ایک فقرہ ایک لفظ بھی نہیں! مضمون مولانائے موصوف کا نہ لکھا ہوا ہے، نہ لکھوایا ہوا ہے، نہ کسی قسم کا کوئی تعلق ان کی ذات سے رکھتا ہے اس معرکے میںپوری ادبی اور مذہبی دنیا شریک ہوگئی ۔ہندوستان کے گوشے گوشے میں نیاز کی مخالفت ہونے لگی۔ اخبارات و رسائل ، تعلیمی و مذہبی ادارے سب نیاز کے خلاف ہوگئے۔ مولانا عبد الماجد ۳۲اکتوبر ۱۳ءکے سچ میں فتنہ نگار کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

’فتنہ نگار پر بحمد للہ قوم و ملت نے بالآخر پوری توجہ کی اور سارااسلامی ہند، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک صدائے احتجاج سے گونج اٹھا۔ آخر میں نیاز صاحب کو اپنی تحریروں پرمعافی مانگنا پڑی اور عہد کرنا پڑا کہ وہ آئندہ اس قسم کی تحریریں نہیں لکھیں گے۔

معرکوں کی یہ دو مثالیں ”مشتے نمونہ از خردارے“ کے بمصداق پیش کردی گئیں۔ ان سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی غلطی ہائے مضامین“ کو برداشت نہیں کرپا تے تھے اور بڑی سے بڑی شخصیت سے ”نوک جھونک“ شروع کردیتے تھے۔ ان تمام معرکوں میںانہوں نے حق و صداقت اور تہذیب ومتانت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ دوسروں کی مناسب اور صحیح رائے کو بڑی فراخ دلی اور کشادہ پیشانی سے تسلیم کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معرکے ہمارے ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے، اگر ان معرکوں کو سچ، صدق، اور صدق جدید کی فائلوں سے انتخاب کرکے شائع کر دیا جائے تو نہ صرف زبان و بیان بلکہ مختلف و متنوع موضوعات کے رموز و نکات سے علمی و ادبی دنیا مستفید و مستفیض ہوتی رہے۔

No comments: