Saturday, January 8, 2011

خمار بارہ بنکوی از ملک زادہ منظور احمد


پروفیسر ملک زادہ منظور احمد

لہریا سرائے سے دربھنگہ سے مظفر پور تک ہم لوگ ساتھ ساتھ ہی بس میںآئے۔ راستے میں خمار صاحب زیر لب کچھ گنگناتے رہے۔ میں نے سمجھا کوئی مصرع موزوں کررہے ہوں گے۔ کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ موٹر کی آواز کوساز بناکر وہ ایک فلمی گیت تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ چند مصرعوں کی تکرار میں انہوں نے پورا راستہ کاٹ دیا۔ حسن اتفاق سے مظفر پور میں سکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ ہم لو گوں کوبالکل خالی مل گیا۔عزیز سلونوی، اور انور صدیقی نے اوپر کی برتھ پر قبضہ جمایا اور نچلی دو برتھ پر میں اور خمار صاحب نے آمنے سامنے بستر لگادئے۔ تھوڑی دیر تک تو ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی رہی بعد میں شعر و شاعری کا سلسلہ شروع ہوا جواس وقت تک جاری رہا جب تک ہم سو نہ گئے۔خمار صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات نہ تھی۔ یادش بخیر ! میں ان کو اس زمانے سے جانتا ہوں جب مشاعروں میں ان کا نام جگر صاحب کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔وقتاً فوقتاً خط وکتابت بھی رہی۔ گاہے بگاہے ملاقاتوں کاسلسلہ بھی جاری رہا۔ ادبی موضوعات پرکبھی کبھی تبادلہ خیال بھی ہوامگر ادھر بمبئی کی فلمی دنیا میں جانے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی اٹھان کچھ رک سی گئی ہو اوران کی شاعری میں وہ سر مستی اور والہانہ کیف باقی نہ رہ گیا ہو جوابتدا میں تھا۔ وہ افق شاعری پرایک تابندہ ستارے کی مانند ابھرے، جگمگائے اور ڈوب گئے اور اس کے وجہ صرف یہی ہے کہ بیسویں صدی کے اس تیز رفتار سائنسی دور میں جب خارجی حالات انسان کی داخلی زندگی پر لمحہ بہ لمحہ اثر پذیر ہورہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانی پر ”حدیث دیگراں“ کا شبہ توضرور کیا لیکن حدیث دیگراں کو وہ کبھی اپنی کہانی کے سانچے میں نہ ڈھال سکے اور یہی چیز ان کے ادبی اکتسابات کاسب سے بڑا المیہ ثابت ہوئی۔ عنفوان شباب میں جب تک ان کی رگوں میں چہچہاتا ہواگرم خون دوڑتا رہا اور ان کے جذبات و احساسات پر تازگی اور تراوٹ چھائی رہی اس وقت تک ان کی شاعری بھی تر و تازہ اور شگفتہ بنی رہی۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جوں جوں ان کے جذبات سردہوتے گئے ان کی شاعری بھی پژ مردہ اور مضمحل ہوتی گئی اس کی وجہ محض یہی ہے کہ انہوں نے اپنے شعری اکتسابات کی اساس فکر وتفکر سے زیادہ اپنے جذبات پررکھی اور ان کے اشعار میں فکری عنصر کی آمیزش اس تناسب سے نہیں ہوسکی جس تناسب کی ضرورت ایک عظیم شاعر کے کلام میں ہوتی ہے ۔ ان کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے روایتی شاعری رہی ہے۔ وہی فرسودہ اور روایتی مضامین جن پر ہردور کے شعراءنے طبع آزمائی کی ہے ان کے یہاں رنگ بدل کرملتے ہیں۔ عشق کی محرومیاں، حسن کی لن ترانیاں ، ناز و نیاز ، ہجر و صال ،شوق وانتظار تک ان کی دنیا محدود ہے۔ کائنات کی گوناگوں حقیقتوں اور انسانی زندگی کے دیگر اہم پہلوو ¿ں کی طرف انہوں نے سنجیدگی سے کبھی اپنی توجہ مبذول نہ کی رضائے دوست میں راضی رہنا، غم دوست پر غم حیات کو نچھاور کردینا ،سنگ در حبیب پر سر جھکا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجانا، محبت کی محرومیوں میں ایک لطف اور شکست دل میں ایک کیف محسوس کرنا اور یہ اعتماد رکھنا کہ حریم حسن میں دیر تو ہے اندھیر نہیں۔ ان کی شاعری کا امتیازی نشان ہے۔ لیکن موجودہ عہد کی عشقیہ شاعری میں جو رس اور جوسوز اور ساز، جوخیر اور برکت ہونی چاہئے وہ ان کے یہاں کم ہے۔ وہ دل اور دماغ تو انہوں نے ضرور پایا ہے جس کی ضرورت عشقیہ شاعری کوہوتی ہے اور بڑی حد تک وہ تہذیب اورکلچر بھی ان کے یہاں موجود ہے جو ایک اچھے شاعر کاطرہ ¿ امتیاز ہوتا ہے مگر ان عناصر کے باوجود حسن وعشق کی ہم آہنگی میں زندگی کے جو سہارے اور جو تعمیری پہلو مضمر ہیں ان کے خد وخال ان کے اشعار میں کم واضح ہوتے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری تقلیدی، رسمی اور مقبول عام کلیوں سے آگے نہ بڑھ سکی، لیکن ان تمام خامیوں کے باوجود بھی ان کی شاعری اپنے سوز وگداز اور اپنی گھلاوٹ کی بنا پر ہمیں متاثر کرتی ہے۔ ان کی ہر ہر غزل میں تجربہ کی صداقت ،خلوص اور ہنر مندانہ سادگی کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ اس پر بے کیفی ،تصنع اور ردیف و قافیہ کی بازی گری کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔ ان کا دل ایک چوٹ کھایا ہوا دل ہے۔ کسی کی نگہ مختصر سے گزرنے کے بعد وہ شاعر بنے ہیں۔ بحر الفت میں ان کی حیثیت ساحل کے تماشائی کی نہیں بلکہ شناور کی ہے انہوں نے محبت کی طوفانی موجوں کامقابلہ کیا ہے اور یہی تجربہ ان کی داخلی زندگی میں جذب ہوکر عشقیہ جذبات کا ایک بڑاہی لطیف مرکب بن گیا ہے اور اسی لئے جب تک عاشقانہ جذبات انسان کی رگ وپے میں موجود ہیں ان کااظہار تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں قابل قبول ہے۔ اس وقت تک رنگینی ¿ تخیل اور اپنی غنائیت کی بنا پرخمار کی غزلیں نہ صرف زندہ رہیں گی بلکہ پسند کی جائیں گی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں

حسن کا دیکھ دل نہ توڑ ،ضبط کوضبط کرکے چھوڑ

زہر ملے تو منھ نہ موڑ، عشق ہے یہ ہنسی نہیں

........

یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک

نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

........

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے

کٹ گئی عمر رات باقی ہے

........

عشق میں سہمے ہوئے دو آشنا

مدتوں انجان نظر آئے ہیں

جام و سبو لئے ہوئے مینا لئے ہوئے

بیٹھا ہوں اپنے خضر و مسیحا لئے ہوئے

تاریک ہوتی جاتی ہے کیوں محفل نشاط

یہ کون جارہا ہے اجالا لئے ہوئے

........

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی

یہ کہاں پہونچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

ان اشعار میں نہ تو کوئی فلسفہ ہے نہ تصوف او ر نہ ان میں کوئی ایسی خصوصیت ہے جس سے یہ ثابت کیاجاسکے کہ اس میں موجودہ عہد کے مسائل کی عکاسی ہوتی ہے،موضوع اور اسلوب فکر اور فن دونوں روایتی اور تقلیدی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی جس بنیادی جذبے پر ان اشعار کی تخلیق کی گئی ہے وہ ہر زمانے میں سطحی تغیرات کے باوجود یکساں رہتے ہیں۔ کوچہ یار کی وہی جانی پہچانی سی فضا ، گرفتاری ¿ دل اور حسن کی انجمن آرائی کا وہی سنا سنایا قصہ، حسرت دیدار اور شوق گناہ کی وہی فرسوہ روایت ،وحشت و دیوانگی کا وہی دیکھابھالا انداز ، سرمستی ومیخواری ، فریاد وفغاں ، گل وبلبل ،صیاد و گلشن ،اسیری اور رہائی کے وہی پٹے پٹائے مروجہ خیالات سادگی ،روانی اورآمد کے ساتھ ان کے اشعار میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ان کے اکتسابات میں عہد رفتہ کے پھولوں کی مہک تو ضرور ہے مگر وہ روح عصر کی خوشبو اور فکر فردا کے غازے سے بیشتر محروم ہیں۔

بمبئی کی فلمی زندگی خمار کے تجربات میں کوئی مفید اضافہ نہ کر سکی وہ نہ تو وہاں کے ادب فروش حالات ہی سے صلح کر پائے اور نہ اپنی شاعری ہی کو وہاں کی مسموم ہواﺅں سے محفوظ رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے فلمی گیتوں میں غزل، اور غزلوں میں فلمی گیت کامزاج سرایت کر گیا۔ غنائیت ، موسیقی، آہنگ ،جھنکار، ترنم، اور زیر و بم تو ضرور ان کے کلام میں پیدا ہوا مگر اسی کے ساتھ ساتھ سادگی بیان اور سہل ممتنع کے پردے میں فلمی گیتوں کا ہلکا پھلکا انداز اور سستا پن بھی شامل ہوگیا۔ خمار صاحب حساس طبیعت کے مالک ہیں اور ان کا دل سوز و گداز عشق سے آشنا ہے اگروہ سوز جاناں کو سوز دیگراں بنالیں اور ماضی کوحال سے منسلک کرکے مستقبل پرنظر رکھیں تو نہ صرف ان کی شاعری میں ایک مخصوص فضا پیداہوجائے گی بلکہ ان کے کلام میں وہ آفاقی ہم آہنگی بھی پیدا ہوجائے گی جس کا تذکرہ ڈانٹے نے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:

”میں نے ان کی گہرائیوں میں کائنات کے بکھرے اوراق کواکٹھا دیکھا، جن کی محبت نے شیرازہ بندی کی تھی جوہر اور عارضی خصوصیتیں اور ان کی مناسبتیں یہ سب چیزیں کچھ اس طرح مل گئی تھیں کہ دیکھنے میں بس ایک واحد شعلہ نظر آتا تھا۔“

No comments: