Saturday, January 8, 2011

احتشام حسین کچھ یادیں کچھ تصویریں از پروفیسر آل احمد سرور

احتشام بہت اچھے رفیق تھے۔ کسی کے ذاتی معاملے میں دخل نہیں دیتے تھے کسی سے اختلاف ہوتا تو اکثر خاموش رہتے۔ کسی کا کوئی ذاتی مسئلہ ہوتاتو اسے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ تعلی ان کو چھو تک نہیں گئی تھی۔ اپنے سے سینئر لوگوں سے ہمیشہ ادب اور احترام سے ملتے تھے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ احتشام سے کسی کا جھگڑا ہوا ہو یا تلخ کلامی کی نوبت آئی ہو۔ اکثر کمیٹیوں میں میں نے جب اپنی رائے پر اصرار کیا تو اختلاف کی صورت پیداہوئی لیکن احتشام اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے تھے پھر فیصلہ جو کچھ بھی ہو۔یکم دسمبر ۵۵۹۱ءکو میںذاکر صاحب کے اصرار پر علی گڑھ چلا آیا۔ کبھی کبھار لکھنو جانا ہوتاتو احتشام صاحب سے ملاقات ہوتی۔ پھر میری دعوت پروہ علی گڑھ آنے لگے اس وقت سے انتقال تک ہر اہم ادبی اجتماع میں جو علی گڑھ میں ہوا انہوں نے شرکت کی۔ شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سبھی استادوں سے وہ اچھی طرح واقف تھے اور ہر ایک ان کی آمد کا مشتاق رہتا تھا۔ ہم لوگ دوسری یونیورسٹیوں کی کمیٹیوں میں بھی اکثر شریک ہوتے اور مجھے یاد نہیں کہ ہم دونوں کا کبھی کسی معاملے میں اختلاف رہا ہو۔

۱۶۹۱ءمیں جب الہ آباد میںاعجاز صاحب کی جگہ خالی ہوئی تو انٹر ویو کرنے والی کمیٹی میں میں ڈاکٹر زور اور عبدالقادر سروری اکسپرٹ کی حیثیت سے بلائے گئے امیدواوں میںاحتشام حسین، رفیق حسین، خورشید الاسلام اور گیان چند تھے۔ جب وائس چانسلر نے مجھ سے رائے طلب کی تو میں نے پہلا نام احتشام کا تجویز کیا۔ پروفیسر سروری نے میری تائید کی۔ ڈاکٹر زور نے احتشام کو دوسرے نمبر پر رکھا۔ وائس چانسلر نے میری اور سروری صاحب کی رائے سے اتفاق کیا اور فیصلہ احتشام کے حق میں ہوا گیارہ سال سے کچھ زائد احتشام الہ آباد یونیورسٹی میںاردو کے شعبہ کے پروفیسر رہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کی علمی روایات خاصی شان دار رہی ہیں۔ احتشام صاحب اردو کے شعبہ کے صدر کے علاوہ آنریری لائبریرین اور ٹیچر ایسو سی ایشن کے صدربھی رہے۔ یونیورسٹی کی سیاست میں انہوں نے کبھی حصہ نہیں لیا۔ فیکلٹی اور اکیڈمک کونسل کے جلسوں میںکچھ استادہمیشہ نمایاں رہتے ہیں۔ احتشام عام طور پر خاموش رہتے تھے لکھنو ¿ میں بھی ان کایہی وطیرہ تھا۔ ہاں لکھنو اور الہ آباد کی ادبی انجمنوں کے کاموں میں وہ ضرور دلچسپی لیتے تھے۔ ہندوستانی اکیڈمی کے نائب صدر بھی تھے علی گڑھ ،دہلی ،لکھنو ¿ ،پٹنہ یونیورسٹیوں میں نصاب کی کمیٹیوں اور امتحانات کے سلسلہ میں خاصی پابندی سے شرکت کرتے تھے علی گڑھ سال میں دو چار بار ضرور آتے تھے۔ انجمن ترقی اردو ہند ہو یا ساہتیہ اکادمی، اتر پردیش اردو اکادمی ہو یا فروغ اردو کمیٹی ۔ان سب کے جلسوں میںوہ خاصی پابندی سے شریک ہوتے تھے لیکن کہیں کسی سے اختلاف کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوجاتے تھے۔ وہ خاصا سفر کرتے تھے اور ان کے یہاں ہروقت کوئی نہ کوئی ملنے پہونچ جاتا تھا۔ وہ مروت کی وجہ سے کسی سے انکار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے ان کا خاصا وقت ضائع ہوتا تھا۔ پھر بھی وہ نئی کتابیں پڑھنے کے لئے ضرور وقت نکال لیتے تھے۔ مضامین با لعموم آخر وقت میںاور زیادہ تر ایک یادو نشستوں میں لکھتے تھے۔ ان مضامین میں اگر چہ حوالے کم ہوتے تھے لیکن چونکہ ان کا حافظہ بہت تیز تھا اور بنیادی باتوں پر گہری نظر اس لئے کتاب کے استدلال اور مصنف کے مرکزی تصور کااندازہ ان کے مضمون سے ضرور ہوجاتا تھا۔

احتشام صاحب کی تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔ ان میں ان کے مضامین کے آٹھ مجموعے بھی ہیں، ترجمے بھی اور ساحل اور سمندر اور اردو ساہتیہ کااتہاس (ہندی) جیسی کتابیں بھی ۔ان کے دو مقدموں کا خاص طو ر پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک جان بیمز کی ہندوستانی لسانیات کا خاکہ کے ترجمہ پر دوسرا آب حیات کی تلخیص پر۔ ان دونوں مقدموں میں موضوع کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو بھی اچھی طرح روشن کر دیا ہے۔ آب حیات کی خامیاں گنوانا آسان ہے لیکن مجموعی طورپر ہمارے اس کلاسک میں جو تخلیقی توانائی اور تنقیدی بصیرت ملتی ہے اس تک پہونچنا اور پھر بھی اس کے جادو میں اسیر ہوکر نہ رہ جانا آسان کام نہیں۔ احتشام اس مرحلے میںکامیاب گزرے ہیں۔

ان کے تنقیدی مضامین میں میرے نزدیک وہ مضامین زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جو نظریاتی ہیں تنقید کے منصب اس کی اہمیت اور تنقید و تخلیق کے تعلق کے رشتے پر ان کے جو مضامین ہیں وہ بڑے وقیع ہیں، اس کے بعد ان مضامین کا نمبر آتا ہے جو ادب اور تہذیب یاادب اور فنون لطیفہ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ ہندوستانی تہذیب کے جلوہ ¿ صد رنگ پر احتشام کی گہری نظر تھی اور ادب اور فنون لطیفہ کے رشتے کو بھی وہ اچھی طرح سمجھتے تھے ۔بعض ہم عصروں پر ان کے مضامین میں میرے نزدیک ترجمانی اور تحسین کا پہلو زیادہ نمایاں ہے اور قدر آفرینی یا Evaluationنسبتاً کم۔

احتشام حسین طالب علمی کے زمانے میں ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس تحریک سے ان کی وفاداری اور اس وفاداری کی استواری میں کسی صاحب نظر کو کلام نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ادب کے کنبے میںان کی جگہ محفوظ ہے۔ وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ پارٹی سے قریب رہے۔ گوانہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں کوئی حصہ نہیں لیا اور نہ کبھی اس پارٹی کے ممبر ہوئے ادبی تنقیدوں میںوہ سماجی معنویت پر برابر زور دیتے رہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سماجی معنویت اور ادبی معنویت میں لازم و ملزوم کارشتہ ہے میرے نزدیک پوری حقیقت نہیں حقیقت کاایک اہم پہلو ضرور ہے۔

جدیدیت کے میلان سے وہ کچھ خوش نہ تھے اور تنہائی کے احساس یا عرفان ذات کو انہوں نے ہمیشہ شبہ کی نظر سے دیکھا وہ تنگ نظر نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے اس نئے میلان کی اس شد و مد سے مخالفت نہیں کی جس طرح ترقی پسند ادب کے کچھ اماموں نے کی ۔ ادب کی سماجی معنویت اور سماجی نقطہ نظر سے ادب کی پرکھ بلا شبہ اہم ہے لیکن بقول Rene Wellexسماجی معنویت کانظر یہ ادب کے سارے پیچ و خم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہاں ادب کی سیاست پر فوقیت ثابت کرنا مقصود نہیں دونوں کے راستوں اور منزلوں کے فرق کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

احتشام حسین کی نثر ہماری علمی نثر کا اچھانمونہ ہے ان کا اسلوب حالی کے اسلوب کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ اس میں ہڈی بھی ہے اور گودا بھی لیکن میںاحتشام کو صاحب اسلوب نہ کہوں گااور اس بات سے ان کے ادبی مرتبے میں کوئی کمی بھی نہیں آتی ہے۔

اردو تنقید کو احتشام حسین نے بہت کچھ دیا ہے۔ ایک سنجیدہ اور علمی نقطہ نظر ایک سماجی شعور، ایک تہذیبی بصیرت اور ایک سلجھا ہوا اور ہموار اسلوب، ادبی معاملات میں کسی کی رائے حرف آخر نہیں ہوتی احتشام حسین کی رایوں سے بھی جابجا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ادب کی دنیا میں جمہوریت ہوتی ہے آمریت نہیں۔ لیکن یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ احتشام حسین نے جیسااردو تنقید کو پایا تھا اس سے بہت بہتر حالت میںاس کو چھوڑا۔ وہ ہمارے ادب کی بڑی محترم اور محبوب شخصیتوں میں سے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنا پروپیگنڈہ نہیں کیا اور جو لوگ اس میدان کے شہ سوار تھے ان پر بے تکلف دوستوں کی محفل میں دلچسپ انداز میں تبصرہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اردو ادب عموماً اور اردو تنقید خصوصاً ان کو محبت اور احترام کے ساتھ یاد کرے گی۔

No comments: