Saturday, January 8, 2011

ہندوستان میں اردو کا مستقبل از ڈاکٹر وحید مرزا

جس طرح قوموں کی تاریخ میں ایک نہ ایک ایسا نازک دورآتا ہے کہ جس میںان کی آئندہ کی حیات و ممات کا فیصلہ ہوجاتا ہے زبانوں کو بھی اکثر ایسے ہی نازک مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے زمانے کی گردش سے جہاں بعض قومیں اس طرح مٹ گئیں کہ ان کا نام و نشان بھی لوح زمین سے حرف غلط کی طرح محو ہوگیا اسی طرح کئی زبانیں ایسی ہیں کہ جن کے نمونے محض پرانے کتبوں میںیا قدیم کتابوں میں ضرور محفوظ ہیں لیکن نہ تو زندہ انسان کے لب ان سے گویا ہیں، اور نہ کان ان کی آوازوں سے آشنا قدیم مصری زبان فراعنہ کے ساتھ ختم ہوگئی۔ سریانی اور عبرانی دونوں فراموش ہوگئیں، پہلوی اب ایک غیرمانوس زبان ہے۔ اور سنسکرت ایک قصہ پارینہ ایسے ہی ایک نازک مرحلے سے اس وقت اردو کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے، اور یہ دیکھنا ہے کہ آیا ہماری آئندہ نسلیں اس خوبصورت زبان سے ایسی ہی بے بہرہ ہوجائیں گی جیسے عربی اور فارسی سے یہ زبان ہندوستان میں اپنی پرانی آب و تاب کے ساتھ، اپنی ہمہ گیر مقبولیت کے ساتھ باقی رہ جائے گی اور ان نامساعد حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئی نشو و ارتقا کے سب مراحل طے کرتی جائے گی۔

کسی زبان کی بقا جہاں بہت سے خارجی اثرات اور حالات پر منحصر ہے وہاں بہت حد تک خوداپنی ذاتی صلاحیت پر مبنی ہے اردو زبان نے ایسے وقت میںجنم لیا اور پرورش پائی جب ہندوستان میں مغلوں کی عظیم الشان سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہاتھا اور اس کامنتظر تھا کہ ایک جھونکا باد مخالف کااسے ہمیشہ کے لئے سرد کر دے وہ عصائے حکومت جواکبر اور اورنگ زیب کے مضبوط ہاتھوں میں رہ چکا تھا اب ان کے وارثوں کے کمزور اور مفلوج ہاتھوں میں پھسل رہا تھا اور وہ مملکت جو ایک وقت میں کابل سے لے کر ارکان کی پہاڑیوں تک اور کشمیر کی جنت نظیر وادی سے دکن کی سطح مرتفع تک پھیلی ہوئی تھی اس وقت دلی کے لال قلعے کی چار دیواری میں محدود ہوکر رہ گئی تھی اس لئے اردو اور زبانوں کی طرح دربار کی پروردہ نہ تھی وہ اپنے نشو و نما کے لئے نہ تو بادشاہوں کی قدر دانی کی رہین منت تھی اور نہ امراءکی سرپرستی کی وہ ایک دیہاتی حسن کی طرح ایک لالہ ¿ صحرا تھی ایک خودرو پھول تھی کہ جسے ہندوستان کے باشندوں کی ضروریات نے اس ملک کے معاشرتی ماحول نے اور ادبی رجحانات نے بویا اور پانی دیا اور پروان چڑھایا، یہ زبان کسی ایک قوم یا فرقے سے مخصوص نہ تھی، اس کی آبیاری میںہندوستان کے سب باشندوں کا ہاتھ تھا خواہ وہ عربی اصل کے تھے یاایرانی نسل کے ترکستان سے آئے تھے یا ہندوستان کی سر زمین میں پیدا ہوئے تھے، اس میںایسی دلکشی اور نظر فریبی تھی کہ ہندو اور مسلمان دونوں کو یکساں اپنا گرویدہ بنالیا اور یہ مخلوط زبان جس کا ابتدائی مصرف غالباً یہ تھا کہ بادشاہی لشکر کے مختلف ملکوں سے آنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں تبادلہ خیالات کر سکیں ہندو اور مسلمان دونوں ہی کی یکساں کوششوں سے اس قابل ہوگئی کہ دنیا کی ادبی زبانوں میں ایک مسلمہ اور ممتاز جگہ حاصل کر سکے۔

اگرہم اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ اردو میں کچھ ایسی صفتیں اور خوبیاں ہیں کچھ ایسی صلاحیت اور قابلیت ہے، کہ جو اگرایک طرف اس کے ارتقا کے باعث ہوئی تو دوسری طرف اس کی بقا کی ضامن بھی ہو سکتی ہے اور اگر ہم یہ امید رکھیں کہ باوجود مخالف حالات اردو ہندوستان میں ایک ادبی زبان کی حیثیت سے باقی رہے گی تو بے جانہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی اگرہم یہ سمجھ لیں کہ اردو کی یہ ذاتی قابلیت اور صلاحیت تنہا اور بغیر کسی امداد کے ان مخالف حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے تو یہ محض ہماری خوش فہمی ہوگی، تساہل ہر چیز میں برا ہے اس لئے کہ کوئی زبان بھی خواہ وہ ترقی اور عروج کے انتہائی مرحلے تک بھی پہونچ چکی ہو بغیر کسی منظم کوشش کے بغیر خاص توجہ اور احتیاط کے زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی، اردو اس وقت ایک پھولتے پھلتے درخت کی طرح ہے لیکن اس درخت کی تازگی اور شادابی اس کے قدر دانوں کی باقاعدہ اور لگاتار غور و پر داخت پر منحصر ہے اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ جائیں اور خوش عقیدہ لوگوں کی طرح یہ فرض کر لیں کہ خدا کود اس کا محافظ ہے اور باران رحمت کے چھینٹے اسے ہرا بھرا رکھیں گے تو ہم سے زیادہ دھوکے میں اور کوئی نہ ہوگا نتیجہ یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ برگ و بار سے خالی ہوکر یہ تناور اور سر سبز درخت سوکھتا جائے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ باد مخالف کے تند جھونکوں سے زمین پر گرکے محض جلانے کے مصرف کار رہ جائے گا۔

ہندوستان کے طول و عرض میںآج ایک خاص جذبہ کار فرما ہے اس ملک نے برسوں کی پیہم جدوجہد سے بڑی قربانیوں کے بعد آزادی حاصل کی ہے یہاں کی اکثریت بجا طور پر قومیت کے نشے سے سرشار ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب اور تمدن کے دھندلے نشانات کو نئے سرے سے اجاگر کیاجائے اور ہندوستان کی آئندہ ترقی میںان پرانی روایتوں سےزیادہ تر مدد لی جائے جو مرور زمانہ سے تقریباً فراموش ہوگئی تھیں۔ قومیت یا قوم پرستی اچھی چیز ہے یا بری؟ یہ ایک دوسرا سوال ہے اور اس پر بحث کرنے کا یہاں کوئی محل نہیں ،آج کل دنیا کے سب ملکوں میں کم و بیش اس کا زور ہے اور خصوصاً ان ملکوںمیں جو مدت کے بعد عروس آزادی سے ہم کنار ہوئی ہیں اور اس طرح کسی معقول اور انصاف پسند آدمی کو ہندوستان میںاس کے ظہور پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن قوم پرستی کے اس جذبے کو اس حد تک بڑھانا کہ ایک بنی بنائی زبان کو محض اس جرم میں مٹانے کی سعی کی جائے کہ وہ ایک خاص دور میں پیدا ہوئی۔ یا کسی ایک فرقے سے اس کا زیادہ تعلق رہا اور ایک بالکل نئی زبان کی تخلیق جواس سے پہلے یقینا اس سر زمین میںموجود نہ تھی ضرور قابل اعتراض ہے۔ تاہم ہمیں یہ فراموش نہ کرنا چاہئے کہ انقلابی دنیا میںافراط اور تفریط کا ہونا ناگزیر ہے ممکن ہے کہ یہ دور عارضی ہو، ممکن ہے یہ تعصب قومی یہ تنگ نظری دیر تک قائم نہ رہے لیکن اگر ہمیںاردو کی بقا منظور ہے اور ہم اس کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو اس جذبے اور اس کوشش کے خلاف محض اعتراض کرتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اعتراض سے اختلاف بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمیں سوچنا یہ ہے کہ اردو کی وہ کیا صفات تھیں جنہوں نے اسے ایسا ہر دل عزیز بنادیا۔ اور پھر اس کے کیا اسباب ہوئے کہ وہ ہندوستانیوں کے ایک بڑے طبقے کی نظر میںقابل نفرت و عداوت بن گئی۔

اردو کی گوناگوں خوبیوں پر روشنی ڈالنا اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے لیکن میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی صفت اس کی قوت اخذ تھی اس نے ہر زبان کے الفاظ کو اپنایا اور ان کو اس طرح اپنے میںسمو لیا کہ بہت سے وہ لفظ جو ہم روز مرہ بولتے ہیں اور سنتے ہیں ،ایسی زبانوں سے لئے گئے ہیں جن کا اردو کی ابتدائی تخلیق میں کوئی حصہ نہ تھا۔ مگر جن زبانوں سے اردو کا ڈھانچا تیار ہوا ہے وہ عربی ، فارسی، ہندی اور کسی حد تک ترکی زبان تھی، اور یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی اس لئے اس کی بنیاد ہندی ہے۔ اور عربی اور فارسی کی آمیزش نے اس کی تعمیر میں رنگ و روغن کا کام کیا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اردو حقیقت میں ہندی ہی کی ایک شکل ہے تو غلط نہ ہوگا ،واقعہ یہ ہے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے جب تک سیاسی اور معاشرتی کشمکش نے ہندوستان کی وحدت اور یگانگت کا پیرہن چاک نہیں کیاتھا تو اردو اور ہندی تقریباً ایک ہی زبان کے دو مختلف نام تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ ایک عربی حروف میں لکھی جاتی تھی اور ایک دیو ناگری میںاس کی تصدیق منشی پریم چند کے ان افسانوں کو پڑھنے سے بخوبی ہوسکتی ہے جو انہوں نے اردو اور ہندی میں لکھے ہیںاور جن پر بجا طور پر اردو کے حامیوں اور اردو کے پرچارکوں کو اب بھی ناز ہے۔ رسم الخط کا پردہ اگر اٹھا دیا جائے تو وہی حسن دونوں میں جلوہ نما ہے وہی قدو قامت وہی نمکینی اور ملاحت اگر فرق ہے تو جزوی اور ناقابل اعتنا امیر خسرو کو اردو کے قدیم ترین مصنفوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ لیکن امیرخسرو نے یہاں کی جس زبان میں تھوڑا بہت لکھا اسے وہ ہندی یا ہندوی ہی کہتے تھے اور وہی زبان مختلف زمانوں میں شکل بدلتے بدلتے اردو بن گئی اس حقیقت سے اردو کے قدیم مصنف خوب واقف تھے اور جہاں انہوں نے اردو کے دامن کو عربی اور فارسی الفاظ کے ذخیرے سے مالامال کیا وہاں ہندی الفاظ و محاورات سے بھی اسے آراستہ و پیراستہ کرتے رہے۔ لیکن پھر ایسا دورآیا کہ ہمارے اردو مصنفین نے ہندی کادامن چھوڑ کر اپنی پوری توجہ عربی و فارسی ہی کی طرف موڑ دی۔ ان ہندی لفظوں کو جو اردو کا جزو لاینفک بن گئے تھے نکال کر پھینک دینا تو ممکن نہ تھا لیکن اب ان کی تمام تر کوشش یہ ہوگئی کہ جہاں کہیں اور جس حد تک ممکن ہو ہندی الفاظ کو ترک کیا جائے اور ان کی جگہ عربی اور فارسی کے الفاظ رکھے جائیں۔ یہ طرز عمل مختلف ذہنی کیفیتوں کا نتیجہ تھا جن کا تجزیہ آسان نہیں، مگر اس کا قدرتی طور پر ایک تو یہ اثر ہوا کہ اردو ہندی میں مغائرت پڑھنا شروع ہوی اور دوسری طرف اردو جواب تک ایک سلیس سادہ اور عام فہم زبان تھی واقعی ایسی مشکل اور رقیق زبان بنتی گئی کہ جسے ہندوستان کے عوام آسانی سے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ادھر رد عمل کے طور پر ہندی مصنفین نے ہندی سے عربی اور فارسی الفاظ کو خارج کرکے سنسکرت کے الفاظ کو بھرنا شروع کیا اور اس طرح یہ دونوں زبانیں جوکبھی سگی بہنوں کی طرح تھیں ایسی ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں کہ گویا آپس میں دور کا رشتہ بھی نہیں ہے۔

ملک کی تقسیم اور اس کے بعد افسوسناک حالات نے اردو اور ہندی کی اس مغائرت کو اور بڑھانا شروع کر دیا ہے اگر چہ اب یہ کوشش یک طرفہ ہے ہندی کے نام سے ایک ایسی زبان بنائی جارہی ہے جو نہ پہلے کبھی ہندوستان میں رائج تھی اور نہ اب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اردو کو دبانے اور مٹانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے یہ کوشش کہاں تک بار آور ہوگی؟ اس کا جواب وقت دے گا۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ دور اردو کے لئے بڑے خطرے کا دور ہے اور اگر اس وقت ہم نے پوری سعی اردو کے بقا کی نہ کی تومعلوم نہیں اس کا سر زمین ہندوستان میں کیا حشر ہوگا مگر اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا اور کس طرح کوشش کرنا چاہئے ؟ اس کا جواب مختصر طور پر یہ ہے اور یہی میرے اس مقالے کا ماحصل ہے کہ ہمیں اردو کی اسی ہمہ گیری اسی قوت ماخذ کو بڑھانے کی فکر کرنا چاہئے، ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے۔ اور اس لئے ہہیںاس میں بیرونی اور خارجی عناصر کو جا و بے جا داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود اس ملک کی زبانوں خصوصاً ہندی اور بوقت ضرورت سنسکرت کے موزوں اور مناسب الفاظ کو بھی اس میں ہر وقت جگہ دینے کے لئے تیار اور آمادہ رہنا چاہئے۔ اگر تیرہویں صدی عیسوی کے ہندوستانی فارسی گو شعرا فارسی میں ہندی الفاظ کی آمیزش کو برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ یہ خیال کرتے تھے کہ اس سے ان کے کلام میںایک نئی چاشنی اور کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو ہمیںآج بیسویں صدی میں اور عبارت کو ہندی الفاظ سے زیب و زینت دینے میں کیوں تامل ہو؟ اور ہم یہ کیوں سمجھیں کہ اس سے اردو کی ادبیت پر دھبا لگے گا یا اس کا معیار گر جائے گا؟

کسی ملک کی زبان کو حکومتیں نہیں بناتیں اور نہ متعصب فرقہ وارانہ جماعتیں زبان خود بخود بنتی ہے یعنی ملک کے سیاسی، معاشرتی اور ادبی ماحول سے ظہور میں آتی ہے اور اس کے بعد زبان ان ادیبوں اور شاعروں کی کوشش سے بنتی ہے جن کے دلوں میں درد ہو اور کلام میں تاثیر ، جو اپنی تحریر اور تقریر سے عوام کے دلوں کو موہ لیں، اور جن کے قلم اور زبان ان کے جذبات اور خیالات کی ترجمانی کر سکے۔ اس لئے کہ جو کچھ ان کے منھ سے نکلے گا وہی محاورہ بن جائے گا۔ اور جو کچھ وہ لکھ دیں گے وہی لوگوں کے لئے ٹکسالی زبان قرار پائے گا۔ لیکن ادیب اور شاعر بھی اپنے آپ کو عام لوگوں سے بالکل الگ کرکے ایک نئی زبان نہیں بناسکتے اور اگر بنا بھی لیںتو اسے قبول عام حاصل نہیں ہوسکتا۔ بہت حد تک انہیں تحریر و تقریر کو عوام کے قریب تر لانے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ اس لئے کہ ان کی رہنمائی جبھی موثر ہوسکتی ہے جب ان کی اور عوام کی زبان میں زیادہ بُعد نہ ہو۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر ہم آج کل کے پر آشوب زمانے میں اردو کی سب سے بڑی خدمت یہی کر سکتے ہیں کہ اسے عام فہم بنانے کی کوشش کریں۔ اسے بد لے ہوئے حالاے کے مطابق ایسے سانچے میںڈھالیں کہ جس سے اس کی اصل نوعیت اور ذاتی خوبیاں تو باقی رہیں لیکن بعض ایسے خارجی عناصر کم ہوجائیں جن کی وجہ سے اس میں ایک طرح کی ثقالت اور گرانی پیدا ہوگئی ہے یا دوسرے لفظوں میںہم اردو کو ایک ایسے لباس میں پیش کریں جس سے اس میں پھر وہی دلکشی پیدا ہوجائے جو کسی زمانے میںتھی اور ہندوستانیوں کو پھر اس کا احساس پیدا ہو کہ ہماری زبان یہی ہے، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تودنیا کی کوئی طاقت بھی اردو کو نہیں مٹا سکتی اور نہ کوئی دوسری زبان اس کے بجائے عوام کے دلوں میں گھرکر سکتی ہے۔ اور اگر ہم اسی راستے پر چلتے رہے اور تعصب کے وہ بادل جو ہندوستان کی فضا میں چھائے ہوئے ہیں رفتہ رفتہ چھٹتے گئے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہندی کے اپدیشک اور پر چارک جوآج اردو کو ایک اجنبی زبان سمجھ رہے ہیں یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہی وہ ہندی ہے جس کی جستجو میں ہم سرگرداں تھے

No comments: