Saturday, January 8, 2011

اردو میں مرثیہ گوئی کی روایت از پروفیسر شارب ردولوی

اردو شاعری کے عظیم ذخیرے میں مرثیے کو ایک بڑی اہم اورانفرادی حیثیت حاصل ہے یہ اس لئے نہیں کہ اس کا تعلق مذہب یا عقیدے سے ہے حالانکہ دنیا کے ادب میں جن نظموں کا آج تک کوئی ثانی ہے ان میں بیشتر نظموں کے محرک مذہبی واقعات اور عقائد تھے اس لئے یہ بات معذرت کی نہیں ہے کہ مرثیے مذہبی واقعات سے متعلق ہیں لیکن در اصل نہ مرثیوں کی عظمت کا سبب مذہب و عقائد ہیں اور نہ ان عالمی ادب کے عظیم رزمیوں کی عظمت کا سبب ان کے لکھنے والوںکے عقائد تھے، عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے میں اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے۔ اور ان سب چیزوں نے مل کراسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔

مرثیہ بھی کیا تھا؟ عربی میں بھی مرثیے تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے تھے، فارسی کے مرثیے ہندوستان میں بہت مقبول تھے اور عام مجالس میں پڑھے بھی جاتے تھے لیکن ان کی ادبی و فنی حیثیت کیاتھی؟ عربی و فارسی کے مراثی آج بھی ادبی شہ پاروں کی حیثیت سے نہیں پڑھے جاتے۔ اس کے بعد دکن کے قطب شاہی دور میں اردو میں مرثیے لکھنے کاآغاز ہوا۔ پہلا مرثیہ اشرف نے لکھا یا وجہی یا محمد قلی قطب شاہ نے یہ اس وقت زیر بحث نہیںہے، لیکن اردو کے پہلے مرثیہ نگار سے لے کر مسکین، سودا اور سکندر تک تقریباً ڈھائی سو سال میں جو مرثیے لکھے جاتے رہے ان کی کیا حیثیت تھی اور ادب میںان کا کیا مقام تھا؟ ظاہر ہے کہ اگر صرف مذہبی جذبات کااظہار کسی تخلیق کو بڑابنا سکتا تو ایسی بے شمار تخلیقات جن سے آج کوئی واقف بھی نہیں ہے ادب کا بیش قیمت حصہ ہوتیں۔

مرثیہ اردو کی واحدصنف سخن ہے جس نے ہیئت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ غزل ،مثنوی، اور قصیدہ بھی قدیم اصناف میں ہیں لیکن ان کی ہیئتیں ابتدا ہی سے طے تھیں لیکن مرثیے کی کوئی ہیئت طے نہیں تھی شروع میں جو مرثیے دکن میں لکھے گئے وہ غزل کی طرح مفرد اشعار پر مبنی تھے۔ فارسی میں بھی مرثیے کی یہی روایت تھی کہ وہ غزل کے انداز پر لکھے جاتے تھے۔ اور ان کے اشعار میںکوئی اندرونی ربط نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجالس عزا کے لئے مرثیے لکھتے تھے۔ ان کا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس کا لکھنا پڑھنا اور سنناسب ہی ثواب میں داخل ہو تو ایسے لوگ بھی اسے لکھنے لگیں گے جو فن شعر گوئی سے واقف نہیں ہیں۔ اس لئے فنی اعتبار سے مرثیے کو کم تر مانا جاتا تھا لوگ بے جھجھک جس طرح چاہتے تھے مرثیے لکھتے تھے اور زبان وبیان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔مذہبی عقیدت میںچونکہ غلطیو ں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا اس لئے ان کے معائب پر پردہ پڑا رہتا تھا۔ بعض تذکرہ نگاروں اور شعراءنے اس کی طرف اشارے کئے ہیں سودا نے توبہت صاف صاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ :

”لازم ہے کہ مرتبہ در نظر رکھ کر مرثیہ کہے۔ نہ برائے گریہ ¿ عوام اپنے تئیں ماخوذ کرے۔“

آنے والے ادوار میں مرثیے کوبہتر بنانے کی خواہش میںاس کی ہیئت میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور وہ مرثیے جو پہلے چند مختلف اشعار پر مبنی ہوتے تھے ان میں واقعات کو ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ظاہر ہے کہ اس کے لئے غزل یاقصیدے کی ہیئت کافی نہیں ہوسکتی تھی اس لئے مربع مرثیے لکھے گئے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک مربع اور مربع ترجیع بند میں مرثیے لکھے جاتے رہے۔ مربع مرثیوں نے پہلی بارمرثیے کو بند کا تصور دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بیان میں وسعت پیدا ہوئی اور واقعے کو اس کی تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نکل آئی اور ان تجربات نے مرثیے کے مسدس تک پہونچنے کی راہیں ہموار کیں۔ اس طرح کے مرثیے دکن میںہی کہے جانے لگے تھے۔ درگاہ قلی خاں کے مرثیوں میںمخمس ، دہرہ بند، اور ترجیح بند مرثیوں کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

مسدس مرثیوں کی ابتدا شمالی ہند میں ہوئی،ابتدائی مسدس میاں مسکن اور سودا کے یہاں ملتے ہیں۔ جن میںمرثیوں کو سادہ بیانیہ سے آگے لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ واقع کے تسلسل اور ربط کے لحاظ سے بھی یہ مرثیے گذشتہ مرثیوں سے بہتر ہیں۔ ان میںمختلف موقعوں پر جذبات نگاری اور کردار نگاری کی کوشش بھی ملتی ہے لیکن اصل توجہ واقعہ سازی پر ہے۔ سودا کے مرثیوں میںاس بات کی کوشش زیادہ ملتی ہے کہ واقعہ کو زیادہ بہتر اور پر اثر طریقے پر بیان کیا جائے لیکن اس بات کااحساس ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی کوششیں ہیں۔

دہلی سے ادبی مرکز کے لکھنو منتقل ہونے پر وہاں کی سرزمین مرثیے کو بہت راس آئی خلیق و ضمیر نے اس کے ادبی خدو و خال کو درست کیا اورایک ایسی صنف جسے غلطی الفاظ بسیار کی وجہ سے قدرت اللہ شوق نے اپنے تذکرے میںجگہ دینے کے قابل نہیں سمجھا تھا اور مصحفی نے مرثیہ گوئیوں کے طرز کو مطلقاً ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔ اسے ایک نئی صنف سخن بنا دیا۔ میر خلیق نے بیانیہ کی بنیاد کو مضبوط کیا اور مرثیے میں سفر کا حال ،رخصت اور شہادت کو تفصیل سے بیان کیا، میر ضمیر نے جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیہ میں رزمیہ کے امکانات کو روشن کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سراپا بیان کرنے پر خصوصی توجہ دی اور اس طرز نوی، کو مرثیے میں اپنا Contribution قراردیا۔ سراپا کے بیان جنگ کی تفصیلات رخصت اور سفرکے حالات نے مرثیے کوجذبات نگاری کا بہت بڑا میدان فراہم کردیا۔ جسے میر انیس و مرزا دبیر نے معراج کمال تک پہونچا دیا۔ کسی چیز کی اس سے زیادہ معراج کیاہوسکتی ہے کہ اس کے بعد اس میںکوئی اضافہ نہ ہوسکے۔ میر انیس اور مرزا دبیر نے مرثیے کی ظاہری ہیئت ہی کی تکمیل نہیں کی بلکہ زبان وبیان اوراسلوب و اظہار کی جو خوبیاں بھی ہوسکتی تھیںوہ سب مرثیے میں پیدا کردیں۔ اسی لئے اگر توجہ سے مرثیے کا مطالعہ کیا جائے تواس میں غزل کی دلکشی ،قصیدہ کا طمطراق مثنوی کی سبک روی اورجذبات نگاری ،رزمیے کاشان و شکوہ ساری چیزیں نظر آجائیں گی۔ مرثیے کی اثر انگیزی کا یہ بھی ایک سبب ہے یہ انیس و دبیر کاکمال ہے جنہوں نے مرثیے کو ایک مکمل فن پارہ بنادیا۔ اوراس میں وہ طاقت پیداکردی کہ وہ عالمی ادب سے آنکھ ملاسکے۔

مرثیے کی انفرادیت اور اہمیت کاسبب بھی وہی ہے جو عالمی ادب کی ان تخلیقات کا ہے جن میںمذہبی عقائد کااظہار کیا گیا ہے۔ یعنی واقعہ کی انسانی و اخلاقی قدریں، زبان وبیان کی سحرکاری، اظہار و اسلوب کی دل پذیری واقعہ نگاری اور جذبات نگاری پر مکمل قدرت، انیس و دبیر نے مرثیے میں یہ تمام محاسن جمع کردیئے تھے اسی لئے آج اردو مرثیے کو ادب میںایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس میں جو وسعت اور تنوع ہے اردو کی کسی دوسری صنف میں نہیں ہے۔ وہ اپنے عہد کی تہذیبی و معاشرتی تاریخ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں۔

میر انیس و دبیر کے بعدمرثیہ آج تک ان کے سحر اوراثر سے نہیں نکل سکا۔ خود خاندان انیس اور خاندان دبیر کے شعرا نے مرثیے میں بعض جدتیں کرکے نئی راہیں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن نہ مرثیے میں ساقی نامہ مقبول ہوسکا اور نہ تبلیغی نے متاثر کر سکی۔

جدید مرثیہ نگاروں میں بہت سے مقبول مرثیہ نگاروں کے نام لئے جاسکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہمیت جوش ملیح آبادی کو حاصل ہے۔ انہوں نے مرثیے کو بالکل نئے طریقے سے استعمال کیا ان کے یہاں مرثیے کی ہیت تو مسدس ہی ہے لیکن موضوع کی حیثیت سے انہوں نے انیس و دبیر کے راستے سے انحراف کرکے واقع کو تسلسل سے بیان کرنے کے بجائے امام حسین کے کردار کو اہمیت دی۔ امام حسیناور ان کے انصار و اعزا کوانقلاب کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں پیش کیا۔

جدید مرثیہ نگاروں میں نجم آفندی، رزم ردولوی، نسیم امروہوی، سید آل رضا ،رئیس امروہوی، مہدی نظمی، وحید اختر، محسن جونپوری، اور بہت سے ایسے شعرا ہیں جنہوں نے مرثیے میںنئے امکانات کی تلاش کی اور اردو مرثیے کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔

اردو مرثیے کی اس اہمیت کے باوجود اس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی اپریل ۵۷۹۱ءمیںمیر انیس صدی تقریبات کے سلسلے میں میر انیس اور اردو مرثیے پر کچھ کام ہوا۔ مختلف شہروں میںانیس صدی سیمنار ہوئے اور محققوں اور ناقدوں نے میر انیس اور ان کی شاعری کے بارے میںاز سر نو غور و خوض کیااورانیس شناسی کے نئے پہلوو ¿ں کی تلاش و جستجو کی لیکن ان تمام تحقیقی و تنقیدی مقالات میںزیادہ تر توجہ میر انیس کی شخصیت، ان کے سلام و مراثی اور رباعیات پر رہی ،بحیثیت مجموعی مرثیے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی اور صدی تقریبات کے اختتام کے بعد یہ موضوع پھرذہنوں سے اوجھل ہوگیا۔

No comments: