Wednesday, June 9, 2010

میر کی غزل کا ایک عروضی مطالعہ


کمال احمد صدیقی
موسیقی میں سروں کی جو اہمیت ہے وہی شاعری میںآہنگ اور نظام کی آہنگ ہے۔ سروں کا وجود شاستر یہ سنگیت کلاسیکی موسیقی پر ماتقدیم زمانی رکھتا ہے اور شاعری ، عروض کے وجود سے بلکہ عروض کے تصور سے قدیم تر ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شاعری سے مراد، وہ شاعری ہے جو فنون لطیفہ کے زمرے میں آتی ہے منطقی جسے کلام مخیل کہتے ہیں اور شاعری مراد لیتے ہیں وہ مختلف اصطلاح ہے۔ اگر چہ ادبی تنقید میں فنون لطیفہ والی شاعری اور منطقیوں والی شاعری کا خلط، ملط مبحث کی حد تک ہوا ہے۔ یہ سلسلہ شبلی سے شروع ہوتا ہے جنہیں ان کے ایک عقیدت مند نے ہندوستانیوں میں پہلا یونانی ہونے کا اعزاز دیا ۔ خلیل ابن احمد فراہیدی کا سال ولادت ۵۰۱ ہجری مانا جاتا ہے کلاسیکی عربی شاعری دور جاہلیہ میں اپنے عروج پر تھی ،حرکات و سکنات کی ترتیب سے خلیل نے آہنگوں کو نظام بند کیا ، دائرے وضع کئے ، افاعیل میں زحاف اور علل کے طریقے اور اصول مقرر کئے اور اس کے لئے جلیل القدر شعراءکا کلام اور ان کا طریق سامنے رکھا۔ جس طرح عربی شاعری ، عربی موسیقی کے آہنگوں پر استوار ہوئی اسی طرح فارسی شاعری، فارسی موسیقی کے آہنگوں سے جڑی ہوئی ہے۔ خلیل کا عروض، فارسی شاعروں نے جوں کا توں نہیں اپنایا ۔اپنے تیرہ زحاف اور وضع کئے۔ اگر چہ فارسی نے عربی الفاظ کا بڑا ذخیرہ دخیل الفاظ کے طور پر اپنا لیا، لیکن عربی اور فارسی زبان السنہ کے دو مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان کے مزاج مختلف تھے فارسی شعرا نے عروض میں قطع و برید کی۔ عربی سامی زبان ہے اور فارسی آریائی زبان ہے۔ اردو بھی ہند آریائی ہے، کیونکہ آریا قبائل تخت جمشید اور شروان کے علاقوں سے آئے تھے۔ اس لئے اردو نے فارسی عروض اپنا لیا۔ عربی کے سارے لفظ اگر فارسی سے نکال دیئے جائیں تو فارسی ترسیل اور ابلاغ کی زبان نہیں رہے گی لیکن لسانی عصبیت ایک ایسا رویہ ہے جس پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔ فردوسی جیسے شاعر نے تطہیر کی تحریک چلائی اورناکامی اس کے ہاتھ آئی اور تو اور غالب جو اپنے اجداد کی زبان ترکی بتاتے تھے قدیم فارسی، بے آمیزش عربی میں دستنبور لکھنے بیٹھے اور دساتیر کے فرضی الفاظ عبارت آرائی میں استعمال کئے لیکن اس میں ملکہ وکٹوریہ کا جو قصیدہ شامل کیا ہے اس میں عربی لغات سے پرہیز نہیں ہے۔ بہر کیف اردو نے خلیل بصری کا عروض اسی روپ میںاپنایا، جو ایران میں نکھرا تھا ۔ اردو نے عروض کی دو فارسی کتابوں پر تکیہ کیا۔ ایک معیار الاشعار جو اپنے عہد کے عبقری خواجہ نصیر الدین محقق سے منسوب ہے۔اس پر مفتی سعد اللہ مراد آبادی نے حاشیوں کی صورت میں شرح لکھی تھی ۔محقق طوسی سے منسوب کتاب مفتی سعد اللہ کی کتاب افکار المیزان کے ساتھ ہے اور پچھلی صدی کے چوتھے دہے میںاسی سے ابا مرحوم (ڈاکٹر محمداحمد صدیقی)نے سبقاً سبقاً اس حقیر فقیر کو عروض پڑھایا تھا۔ دوسری اہم فارسی کی کتاب حدائق البلاغت ،شمس الدین فقیر کی ہے۔ جس کا چلن ہندوستان میں تھا، اس کا اردو ترجمہ امام بخش صہبائی نے کیا تھا۔ غالب کے شاگرد قدر بلگرامی نے اہم اور مفصل کتاب قواعد العروض لکھی جس میں ہندی عروض کا بھی احاطہ کیا ہے لیکن اردو میں جس کتاب نے سب سے زیادہ شہرت پائی وہ حکیم نجم الغنی نجمی کی کتاب بحر الفصاحت ہے۔ پچھلی صدی میں کئی قابل ذکر اور ناقابل ذکر کتابیں عروض پر لکھی گئیں ، دوکتابیں ایک مرکزی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر کے قلم سے ہیں۔ ان میں نادرست اور نا پختہ مفروضوں کے علاوہ سرقے کی بھی واضح مثالیں ہیں۔ ایک کتاب میں ایک باب خدائے سخن میر تقی میر کی ایک غزل کے عروضی تجزیے کےلئے وقف ہے یہ دیوان اول کی غزل نمبر ۱۰۳ ہے۔ کتاب کا نام ہے مسلمات فن ۔ تجھ عشق میں مرنے کو تو طیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں اک زخم کو میں ریزہ الماس سے چیرا دل پر ابھی جراحت نوکار بہت ہیں کچھ انکھڑیاں ہی اس کی نہیں اک بلا، کہ بس دل دیکھ زینہاردیکھ خبردار بہت ہیں بیگانہ، خو، رقیب سے وسواس کچھ نہ کر فرمادے کچھ زباں سے تو پھر گرفتار بہت ہیں کوئی تو زمزمہ کرے میرا سا دل خراش یوں تو قفس میں اور یار بہت ہیں میر تقی میر نے یہ غزل مضارع کے ایک بہت مقبول آہنگ میں کہی۔ بنیادی ارکان یہ ہیں: مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن (شعر میں دو بار) پہلارکن مفاعیلن ،خرم سے م کٹ جانے اور کفّ سے آخرکا نون گر جانے کے بعد مفعول رہ گیا۔ دوسرا رکن فاع لاتن کا نون کفّ سے کٹ کر فاعلات ہوا۔فاع لات ہوا۔ تیسرا رکن مفاعیلن کا نون کف سے کٹ جانے کے بعد مفاعیل رہا۔اور چوتھا رکن پہلے مصرعوں میں کہیں قصر کے عمل کے بعد فاعلان ہوا اور کہیں حذف کے عمل کے بعد فاعلن ہوا۔ (یہ عروض ہے)اور دوسرے مصرعوں میں آخری رکن ، یعنی ضرب فاعلن ہے تو شعر کا آہنگ یہ ہے: مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن فاع لان مفعول فاع لات مفاعیل فاع لن لیکن معترض نے غزل کے شعر ہزج میں، یعنی مفاعیلن کے مزاحف آہنگ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن فعولان میں پڑھنے کی تکلیف دہ سعی بلیغ کی۔ مطلع اس آہنگ میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں یہاں یہ عرض کردیاجائے کہ کلیات میر میں طیار ،ط سے ہے۔ لیکن معترض نے اپنی کتاب میں میر کے عروضی تصرفات کے تحت ص ۳۹ تیار، ت سے تحریر فرمایا ہے۔ کتابت خود مصنف نے کی ہے اور مطلع کا پہلا مصرع یہ لکھا ہے تجھ عشق میں مرنے کو تیار بہت ہیں مرنے سے پہلے ’تو‘ نہیں لکھا گیا ہے اور اسی نادر ست مصرع کی تقطیع مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کے بجائے تسکین اوسنط کی کاری گری سے مفعول مفاعیلن مفعولن فعولن ارکان سے کی ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ میر کے اشعار میر کے کلیات دیوان میں دیکھنے کی زحمیت نہیں کی گئی۔ دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں ردیف بہت ہیں کے بجائے بہت ہے نقل کی گئی ہے اور تیسرے شعر کی ردیف بہت ہیں کے بجائے نہیں ہے نقل کی گئی ہے۔ دوسرے شعر یعنی مطلع کے بعد کے شعر پر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ پہلا مصرع مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن کے وزن پر ہے اور دوسرے مصرع کے بارے میں ”یہ مصرع دوسرے وزن میں چلا گیا“ اور تیسرے شعر کے بارے میں فیصلہ ہے: ”مصرع اولی بحر مضارع ث مثمن اخرب مکفوف محذوف میں ہے۔ چونکہ بحر بدل گئی لہٰذا غزل ناموزون ۔“ اس سے تسکین نہیں ہوئی۔ ص ۳۹ پر یہ عبارت بھی بہ قلم مصنف ہے: ”غلط قسم کے تصرفات ہمیشہ غلط ہی رہتے ہیں ایسے مقام پر جو اصحاب میر سے مرعوب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ (آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں)محض جوش عقیدت کا نتیجہ نہیں ہے ان لوگوں کے سامنے میر کا یہ مصرع آجاتا ہے مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ ہمیں میر کی عظمت سے ہرگز انکار نہیں، لیکن قاعدہ عروض کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت ضرور رکھتے ہیں کہ ناموزوں کلام ناموزوں ہے۔ میر کے اور اشعار بھی ایسے ہیں جو پیمانہ عروض پر پورے نہیں اترتے۔“ ہمارے یہاں مزاح کی کمی ہے، اس لئے تفنن طبع کے لئے یہ عبارت نقل کی گئی۔ ہم پھر خدائے سخن کے مطلع پر واپس آتے ہیں۔ تجھ عشق میں تو مرنے کو طیار بہت ہیں یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں ایک شعراگر دونوں آہنگوں میں پڑھا جاسکے تویہ ایک صنعت ہے۔ صنعت متلون ،ذو البحرین۔ شعر کوشش سے بھی موزوں کئے جاتے ہیں اور بے ارادہ بھی ہوجاتے ہیں جیسے غالب کے یہ دو شعر موجہ گل سے چراغاں ہے گزر گاہ خیال ہے تصور میں زبس جلوہ نما موج شراب نشے کے پردے میں ہے محو تماشائے دماغ بسکہ رکھتی ہے سر نشو و نما موج شراب رمل مجنون محذوف اور رمل سالم محذوف الآخر دونوں کے مثمن آہنگوں میں یہ دونوں شعر پڑھے جاسکتے ہیں بنیادی آہنگ مجنوں ہے۔ ہم پھر میر کی غزل پر واپس آتے ہیں۔

2 comments:

Unknown said...

مقالہ نامکمل ہے مہربانی کرکے اس مکمل مقالے کا لنک شئیر کریں

Unknown said...

لنک شئیر کریں