Tuesday, June 8, 2010

قرة العین حیدر اور آگ کا دریا


نند کشور وکرم
بر صغیر کی مشہور و ممتازادیبہ اور اردو کے سب سے بڑے ناول ”آگ کا دریا“ کی مصنفہ قرة العین حیدر کی ۰۲اور ا۲ اگست کی درمیانی شب کو وفات ہو جانے سے آسمان ادب کا ایک درخشندہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے غروب ہوگیا۔ قرة العین حیدر کی ولادت ۰۲جنوری ۷۲۹۱ءکو علی گڑھ اتر پردیش میں ہوئی۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم ،جن کا شمار اردو کے اس دور کے مشہور افسانہ نویسوں میں ہوتا تھا، یو پی کے ایک ایسے پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے افراد دربار مغلیہ میں سہ ہزاری ،پنج ہزاری عہدوں پر مامور رہے تھے۔ ان کی والدہ ماجدہ نذر سجاد حیدر بھی اپنے دور کی معروف ادیبہ تھیں جن کا پہلا ناول ”اختر النسا“ ۸۰۹۱ءمیں دار الاشاعت لاہور سے شائع ہوا تھا جب کہ وہ صرف چودہ سال کی تھیں۔ قرة العین حیدر کے نگڑ دادا سید حسن ترمذی وسط ایشیا سے نقل مکانی کرکے ہندوستان آئے تھے ۔ان کے خاندان میں علم کی وراثت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہی ۔ان کے گھرانے کی عورتیں بھی اچھی تعلیم یافتہ تھیں۔ یلدرم کی نانی سیدہ ام مریم نے تو قرآن شریف کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ۷۵۸۱ءمیں ان کے پر دادا امیر احمد علی نے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جس کے نتیجے میں ان کی جاگیر داری ضبط کر لی گئی۔ بعد میں قرة العین حیدر کے دادا سید جلیل الدین حیدر اور ان کے چھوٹے بھائی سید کرار حیدر نے انگریزی سرکار کی ملازمتیں اختیار کیں۔ سید جلال الدین حیدر شہر بنارس کے کوتوال کے عہدے پر فائز رہے اور انہیں خان بہادر کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ سید کرار حیدر یوپی میں سول سرجن رہے اور ان کا شمار صوبے کے مشہور ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ قرة العین حیدر کے والد سجاد حیدر یلدرم ۰۸۸۱ءمیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے بی اے کا امتحان پاس کیا او ر الہ آباد یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران وہ نواب اسماعیل خاں تعلقہ دار میرٹھ اور راجہ صاحب محمود آباد کے سیکریٹری بھی رہے۔ پھر وہ بغداد میں برطانوی کونسل خانے میں مترجم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ دن پہلے انہیں سابق امیر کابل یعقوب خاں کا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ بناکر ہندوستان بھیج دیا گیا۔ ۲۱۹۱ءمیں ان کی شادی نذر زہرا بیگم سے ہوئی ۔ امیر کابل کے انتقال کے بعد ان کی خدمات یو پی سرکار سول سروس میں منتقل کر دی گئیں۔ ۰۲۹۱ءمیں جب ایم اے او کالج مسلم یونیورسٹی بنا تو انہیں اس کا پہلا رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ وہ شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی کے اعزازی صدر بھی رہے اور ان کا شمار انجمن اردوئے معلی کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے۔ ۸۲۹۱ءمیں حکومت نے انہیں یونیورسٹی سے بلاکر جزائر انڈیمان نکوبار میں ریو نیو کمشنر بناکر پورٹ بلیئر بھیج دیا۔ واپس آنے پر انہیں غازی پور اور اٹاوہ کے اضلاع میں تعینات کیا گیا۔ ۵۳۹۱ءمیں خرابی صحت کی بنا پر انہوں نے ملازمت سے سبکدوشی حاصل کر لی۔ قرة العین کی والدہ نذر سجاد حیدر کی ولادت ۴۹۸۱ءمیں صوبہ سرحد میں ہوئی۔ ان کے پر دادا معصوم علی مصنف ”انشائے معصوم“ سلطنت اودھ میں ناظم اور چکلہ دار کے عہدے پر فائز تھے ان کے دادا خان بہادر میر قائم علی کو پنجاب کے قانون اراضی کی تشکیل و تنظیم کے لئے منتخب کیا گیا۔ نذر کے والد میر نذر الباقر فوج کے محکمہ سپلائی میں بطور ایجنٹ صوبہ سرحد میں خدمات انجام دیتے رہے۔ شادی سے پہلے وہ بنت نذر الباقر کے نام سے ”تہذیب نسواں“ ”پھول “ اور دیگر رسائل میں لکھا کرتی تھیں۔ ان کا پہلا ناول ”اختر النسائ“ ۸۰۹۱ءمیں دار الاشاعت لاہور سے شائع ہوا تھا جب کہ ان کی عمر صرف ۴۱ سال تھی۔ ۲۱۹۱ءمیں ان کی شادی ہوئی اور وہ نذر سجاد حیدر کے نام سے لکھنے لگیں۔ انہوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا اور کئی اسلامی ممالک کی سیاحت بھی کی ۔ قرة العین حیدر کی ابتدائی زندگی پورٹ بلیئر جزائر انڈیمان میں گزری اور ابتدائی تعلیم انہوں نے دہرہ دون میں حاصل کی۔پھر وہ لکھنو میں مشہور ازابیلا تھوبرن کالج میں داخل ہوئیں۔ ۷۴۹۱ءمیں انگریزی میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے گورنمنٹ اسکول آف آرٹس لکھنو اور ہیڈ میز اسکول آف آرٹس لندن میں بھی تعلیم پائی۔ قرة العین حیدر نے اپنی پہلی کہانی صرف چھ سال کی عمر میں لکھی تھی مگر وہ کہیں شائع نہیں ہوئی۔ ان کی پہلی تخلیق جو شائع ہوئی وہ ”بی چوہیا“ کی کہانی تھی جو اس دور کے بچوں کے مشہور ہفتہ وار رسالے ”پھول“ لاہور میں چھپی تھی اور اس کے پانچ سال بعد ان کی تخلیق ”یہ باتیں“ لاہور کے مشہور رسالے ”ہمایوں“ میں شائع ہوئی۔ تقسیم ملک کے بعد وہ لگ بھگ ڈیڑھ عشرہ پاکستان میں سکونت پذیر رہیں۔ ۰۵۹۱ءمیں وہ پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات میں انفارمیشن افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں۔ پھر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس اتاشی کے عہدے پر مامور کی گئیں۔ ڈاکو مینٹری فلموں کے پرڈیو سر اور ”پاکستان کوارٹرلی“ کی ایکٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ کچھ مدت پاکستان ایئر لائنز سے بھی وابستہ رہیں۔ اسی اثناءمیں ان کا شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا“ منظر عام پر آگیا۔ جس پر پاکستان میں بحث و تنازعہ کا ناگوار سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ چھٹے دہے کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کو خیر باد کہہ کر ہندوستان آگئیں اور پھر زندگی کے آخری دم تک یہیں سکونت پذیر رہیں۔ ”آگ کا دریا“ جس کی وجہ سے انہیں پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی اور جسے اردو کا بہترین ناول شمار کیا جاتا ہے، بر صغیرکی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ تقسیم اور اس کے اثرات مابعد نے بر صغیر کے اکثر صاحب قلم حضرات کے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہندی میں امرت لال ناگر نے ”بوند“ اور ”سمندر“، یشپال نے ”جھوٹا سچ“ ،درون ویر کوہلی نے ”واہ کیمپ“ ، ہرش درشن سہگل نے ”ٹوٹی ہوئی زمین“ ، کملیشور نے”لٹے ہوئے مسافر“ ، راہی معصوم رضا نے ”آدھا گاﺅں“ جیسے ناولوں کی تخلیق کی تو پنجابی میں کرتار سنگھ دگل نے ”آندراں“ ،”نونہہ تے ماس“ اور ”چولی دامن“ ، امرتا پریتم نے ”ڈاکٹر دیو“ ،”آلہنا“ اور ”پنجر“ ،سریندر سنگھ نرولہ نے ”دین تے دنیا“ اور ”دل دریا“ ،نریندر پال سنگھ نے ”امن دے راہ“ اور ”اک راہ اک پڑاﺅ“ ،سوہن سنگھ سیتل نے ”تو تاں والا کھوہ“اورنرنجن تسنیم نے ”جدوں سویر ہوئی“ اور بنگلہ میں پربودھ کمار سانیال نے ”آشو بانو“ ، ”بسو نے “ ، آلو ہمارا آلو“ ،سنیل گنگو پادھیائے نے ”ارجن “ اور مانک بندو پادھیائے نے ”سبھار جننی“ نیز انگریزی میں چمن لال چمن نے ”آزادی “، گور چرن داس نے ”اے فائن فیملی “ اور خشونت سنگھ نے ”اے ٹرین ٹو پاکستان“ وغیرہ پیش کئے۔ اسی طرح اردو میں عبد اللہ حسین کے ناول ”اداس نسلیں“، شوکت صدیقی کے ”خدا کی بستی“ خدیجہ مستور کے ”آنگن“ اور جمیلہ ہاشمی کے ”تلاش بہاراں“ کا بھی یہی موضوع تھا لیکن جو شہرت و مقبولیت قرة العین حیدر کے ناول ”آگ کا دریا“ کو ملی وہ کسی زبان کی ادبی تخلیق کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس ناول کے بارے میں جھوٹی سچی افواہیں بھی پھیلیں۔ اس پر پاکستان میں سنسر کئے جانے اور پابندی لگنے کی افواہ شاید اس لئے پھیلی کہ مصنفہ نے کئی جملے اور پیرا گراف پروف ریڈنگ کے دوران نکال کر ناول اسی طرح پریس میں چھپنے کےلئے بھیج دیا جس سے سنسر کئے جانے کا شک پیدا ہوتا تھا۔ ان افواہوں کا ذکر کرتے ہوئے خود قرة العین حیدر نے لکھا : ”اس ناول کے متعلق افسانہ طرازی اور افواہوں کا سلسلہ اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ اس کی تردید اب میرے بس کی بات نہیں رہی۔ حال ہی میں قدرت اللہ شہاب مرحوم کا ”شہاب نامہ“ شائع ہوا جس نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اس کتاب میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں: ”مارشل لا لگتے ہی ایک روز صبح سویرے قرة العین حیدر میرے یہاں آئی۔ بال بکھرے ہوئے ،چہرہ اداس ،آنکھیں پریشان، آتے ہی بولی: اب کیا ہوگا۔ تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے۔ عینی نے بڑے کرب سے پوچھا....آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، آنسو چھپانے کے لئے اس نے مسکرانے کی کوشش کی اور ایک ٹھنڈی سانس بھرکر کسی قدر لاپروائی سے کہا: ارے بھئی روز بھونکنا کون چاہتا ہے۔ لیکن بھونکنے کی آزادی بھی تو عجیب نعمت ہے، میرا اندازہ ہے کہ سنسر شپ کے تخیل ہی سے اس کے ذہن کو بڑا شدید جھٹکا لگا۔ کچھ عجیب نہیں کہ اسی جھٹکے کے رد عمل نے اس کے قلم کی باگ ڈور ”آگ کا دریا“ کی طرف موڑ دی ہو۔ بخوف طوالت پورا اقتباس نہیں دیا۔ شہاب صاحب بے حد نیک اور شریف انسان ہیں۔ غلط بیانی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا لیکن ان کے حافظے نے یقینا ان کو دھوکا دیا کیونکہ یہ ساری منظر نگاری افسانہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ میں بال بکھراکر، آنکھو ں میں آنسو بھر کر سرد آہیں نہیں کھینچتی۔ بھونکنا وغیرہ میرا طرز گفتگو نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ”آگ کا دریا “ میں نے ۶۵۹۱ءمیں شروع کیا، ۷۵۹۱ءمیں ختم ہوا۔ مارشل لا ۸۵۹۱ءمیں نافذ ہوا اس وقت ناول کا مسودہ لاہور میں تھا اور دسمبر ۹۵۹۱ءمیں مکتبہ جدید نے اسے شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن کے آخری صفحے پر تصنیف کا سنہ موجود ہے۔ لہٰذا سنسر شپ کے ’ذہنی جھٹکے‘ نے میرا قلم ’آگ کا دریا‘ کی طرف نہیں موڑا۔“ افواہوں کے علاوہ اس ناول کی مخالفت اور موافقت میں لا تعداد مضامین لکھے گئے۔ سراج رضوی نامی ایک ادیب نے اس کی مخالفت میں مضمون کے علاوہ ایک ناول ”سنگم “ بھی لکھا۔ ان تمام مخالفتوں کے باوجود بابائے اردو مولوی عبد الحق اس ناول پر پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ”آدم جی ایوارڈ“ دینے کے حق میں تھے۔ مگر جب قرة العین حیدر کو معلوم ہوا تو انہوں نے خود کو ججوں کی کمیٹی میں شامل کر والیا اور یہ انعامات شوکت صدیقی کے ناول ”خدا کی بستی“ پر دیا گیا۔ اس ناول میں لگ بھگ ڈھائی ہزار سال کے پس منظر کو ناول کے وسیع کینوس پر پھیلا کر بر صغیر کے تہذیب و تمدن ،تاریخ ،فلسفے اور رسم و رواج کی مختلف رنگوں میں ایک ایسی تصویر ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے جو ہمارے ذہن و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ”آگ کا دریا“ کی کہانی بدھ مت کے عروج اور برہمن واد کے زوال سے شروع ہوتی ہے۔ اور یہ تین ادوار میں منقسم ہے مگر اس کے کچھ کردار گوتم ،ہری شنکر، چمپا اور نر ملا تینوں ادوار میں موجود ہیں اور وہی تینوں ادوار میں ربط تسلسل قائم رکھنے اور کہانی کو مربوط کرنے کا وسیلہ ہیں جو بدھ مت اور برہمن واد کے ٹکراﺅ سے شروع ہوکر کانگریس اور مسلم لیگ کے ٹکراﺅ تک پہونچتی ہے اور آخر کار تقسیم کے المیے پر ختم ہوجاتی ہے۔ مگر مصنفہ نے اس المیے کو اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ کسی شخص ،قوم یا ملک کا المیہ بننے کے بجائے ایک انسانی المیے کی شکل اختیارکر جاتا ہے۔ ڈھائی ہزار سال کے طویل عرصے پر پھیلے اس ناول میں بر صغیر کی سماجی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کو بڑے ہی خیال انگیز اور دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ابتدائی حصے میں ہم گوتم، نیلمبر اور ان کے ماضی کے ہندوستان کے سماجی اور تہذیبی نظریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ گوتم ایک مفکر اور ذہین فنکار ہی نہیں ایک انسان دوست بھی اور اس کا دوست ہر ی شنکر ایک حقیقت پسند نوجوان ہے۔ تیسرا کردار چمپا کا ہے جو گوتم کی طرح ہر دور میں موجود ہے۔ یہ ایک علامتی کردار ہے جو ہر دور میں متحرک نظر آتا ہے۔ پہلے دور میں وہ چمپک، دوسرے دور میں چمپا، تیسرے میں چمپا بائی اور آخری دور میں چمپا احمد کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ ناول کا بہت ہی زوردار کردار ہے جو غیر معمولی طور پر متاثر کرتا ہے ۔چمپا مصائب اور تکالیف کی شدت سے ٹوٹنے اور بکھرنے کے بجائے ہر حال میں اپنے وجود کو زندہ اور سالم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ناموافق او ر ناسازگار حالات کا مقابلہ بڑی ہمت و جرات سے کرتی ہے جب کہ کم ہمت کمال رضا جیسا قوم پرست نوجوان نا امیدی اور مایوسی کے عالم میں نہ چاہتے ہوئے بھی بالآخر پاکستان میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ چمپا ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اور پاکستان جانے سے انکار کردیتی ہے حالانکہ وہ لندن کی تعلیم یافتہ ہے اور اسے وہاں اچھی سے اچھی ملازمت مل سکتی ہے۔ وہ پاکستان ہجرت کرنے والے اپنے ساتھی کمال رضا سے مخاطب ہے: ”میں بالآخر بنارس واپس جارہی ہوں۔ تم کو یاد ہے میں نے کیم کے کنارے بوٹ ہاﺅس میں تم سے کہا تھا ، میں واپس جانا چاہتی ہوں، کوئی ساتھ لے جانے والا نہیں۔ اب میں نے دیکھا کہ کسی دوسرے کا سہارا ڈھونڈنا کس قدر زبردست حماقت تھی۔ میں خود ہی بنارس لوٹتی ہوں ۔جانتے ہو! میرے آبائی شہر کا نام کیا ہے ؟ شو پوری:ہاں مسرتوں کا شہر۔ اس ملک کو دکھ کا گڑھ یا مسرتوں کا گھر بنانا میرے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مجھے دوسروں سے کیا مطلب؟ اس نے اپنے ہاتھ کھول کر انہیں غور سے دیکھا۔ رقاصہ کے ہاتھ، آرٹسٹ یا لیکھک کے ہاتھ؟ نہیں....یہ صرف ایک عام اوسط درجے کی ذہین لڑکی کے ہاتھ ہیں جو اب کام کرنا چاہتی ہے۔ وہ خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر بعد مسجد سے ظہر کی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ اس نے غیر ارادی طور پر دوپٹے سے سر ڈھانپ لیا۔ ’کمال !‘ کچھ دیر بعد اس نے کہا: مسلمانوں کو یہاں سے نہیں جانا چاہئے تھا۔ تم کیوں نہیں دیکھتے کہ یہ تمہارا اپنا وطن ہے اس نے بے بسی سے انگلیاں مروڑ یں.... اور تم کیوں چلے گئے ۔کیا میں تمہارے یہاں آجاﺅں تو مجھے ایک سے ایک عہد نہ مل جائے گا؟ دیکھومیں پیرس۔ کیمبرج اور لندن سے کتنی ڈگریاں لائی ہوں۔“ چمپا کا ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ ایک بہت ہی جرات مندانہ قدم ہے جو اس کی مستحکم قوت ارادی اور ہمت کی عکاسی کرتا ہے۔

No comments: