Tuesday, June 8, 2010

قائداعظم ‘ جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ


ڈاکٹر صفدر محمود…

میں اپنی حد تک کھُلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ءکو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا‘ اُنہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظمؒ کی منظوری کے بعد آزاد کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور پھر یہ ترانہ اٹھارہ ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23 فروری 1949ءکو حکومت پاکستان نے قومی ترانے کےلئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کر دیا گیا۔ اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اور بزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیراس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ میں نے اُن سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظمؒ پر تحقیق کرتے اور لکھتے عمر گزار دی ہے۔ اُن سب کا کہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے‘ بالکل بے بنیاد اورناقابل یقین دعویٰ ہے۔ لیکن میں اُن کی بات بلاتحقیق ماننے کےلئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (BLOGS) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کر کے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو کنفیوژ کیا جا سکے۔ ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یا پھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
میں سچ کی تلاش میں جن حقائق تک پہنچا ‘اُن کا ذکر بعد میں کروں گا پہلے تمہید کے طور پر یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا‘ وہ 1918ءکو عیسٰی خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اُس نے 1937ءمیں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑا سا عرصہ ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اُس نے لاہور میں ”جئے ہند“ نامی اخبار میں نوکری کر لی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلا گیا۔
وکی پیڈیا WIKIPEDIA اور ALL THINGS PAKISTAN کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنے ”دوست“ جگن ناتھ آزاد کو 9/ اگست کو بلا کر پاکستان کا ترانہ لکھنے کےلئے پانچ دن دئیے‘ جو اس نے لکھ دیا۔ قائداعظمؒ نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے جگن کو 1979ءمیں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میرا پہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویر کے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اُسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظمؒ سر تا پا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ قائداعظمؒ کسی کو ترانے لکھنے کےلئے کہیں اور پھر کابینہ‘ حکومت یا ماہرین کی رائے لئے بغیر اُسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ اُن کا اردو فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابلِ یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظمؒ نے عمر کا معتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا‘ اُنکے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات‘ مسلم لیگی سیاستدان وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت اُن کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیر معروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار جئے ہند کے ملازم تھے‘ اُن کی قائداعظم سے دوستی تو کُجا‘ تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کےلئے ٹھوس شواہدکی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے راہنمائی کی اور کہا کہ قائداعظمؒ کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کر مل لے۔وہ مسلمانانِ ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 47ءسے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ اُن کے ملاقاتیوں کا کہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہو گا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989ءمیں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مِل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظمؒ کے ملاقاتیوں کی تفصیل لکھی ہے‘ جس میں جگن ناتھ آزاد کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظمؒ کی کراچی آمد سات اگست شام سے لےکر پندرہ اگست تک کی مصروفیات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کی تین جون 1947ءوالی تقریر کا اردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا تھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میری تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب سات اگست 1947ءکو قائداعظمؒ بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو اُن کے ساتھ اُن کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارا اہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اور صرف وہی اِس سچائی کی تلاش پر مہر ثبت کر سکتا ہے۔ جب قائداعظمؒ کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی اُنکے ساتھ تھے اور پھر ساتھ بھی رہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن اُن تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب اُن تک پہنچا۔
جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تُلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظمؒ سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی اُن کا نام قائداعظم سے سُنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے کہ جگن ناتھ آزاد کو قائداعظمؒ نے بلایا۔ اگست 1947ءمیں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھر رہے تھے اور اُن کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ان حالات میں اُن کی کراچی میں قائداعظمؒ سے ملاقات کا تصور بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبالؒ کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں اُنہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اُنہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979ءمیں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آ جائے اب آئیے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف…. ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کا کوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ءتک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا۔ 14 اور 15/ اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کےساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صدا گونجی تو اسکے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے‘ پاکستان مبارک ہو
اُن دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15/ اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا ….ع
توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14/ اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے چودہ اگست سے 21 اگست 1947ءتک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ اُنہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو کا رسالہ آہنگ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948ءسے چھپنا شروع ہوا۔ اٹھارہ ماہ تک آزادی کے ترانے کے بجنے کی خبر دینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اوراپنے موقف سے تائب ہو جائیں۔ میں اس بحث میںالجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949ءتک نشر ہوتا رہا تو پھر اُسکا کسی پاکستانی کتاب کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اُسکے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظمؒ کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو اُنہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکر کیوں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب آنکھیں ترستیاں ہیں (1982ئ) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اُس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کا ذکر موجود نہیں۔ لیکن نغمے اور ترانے میں بہت فرق بھی ہے۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کےلئے ملی نغمہ لکھا جو ہو سکتا ہے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ ترانہ نہ تھا جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظمؒ سے ملے‘ نہ اُنہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی اُن کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتا رہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظمؒ بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ انکے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اور بغیر ٹھوس شواہد اُن سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے۔
نواے وقت

No comments: