Saturday, September 12, 2009

Modren Ghazal of Shahzad Ahmad

شہزاد احمد،غزل میں لسانی

تجربے اور جدید حسیت کا اظہار

تحریر: محمد رمضان غوری

پی ایچ ڈی سکالر:

شہزاد احمد ۱۹۳۲ میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حافظ محد بشیر تھا۔ انہوں نے اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی ۔۱۹۵۱ میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔اے نفسیات کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۵۳ میں اسی کالج سے فلسفے میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ملازمت اختیار کی۔ بھٹو دور میں روٹی کارپوریشن آف پاکستان میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ٹی وی اور فلم میں بھی کام کرتے رہے۔ حلقہ ارباب ذوق کے رکن بنے۔ بعدازاں اس ادارے کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے۔

شہزاد کئی ایک تصانیف (شعری ، نثری ، تراجم) کے مالک ہیں۔لیکن ان کی اصل پہچان ان کی شاعری خصوصا غزل ہے۔ "دیوار پر دستک" کے نام سے ان کی کلیات شائع ہو چکی ہے جس میں ان کے پانچ شعری مجموعے شامل ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان کے شعری مجموعوں کی تعداد گیارہ ہے۔

صدف 1958

جلتی بھجتی آنکھیں 1969

ادھ کھلا دریچہ 1977

خالی آسمان 1985

بکھر جانے کی رت 1987

ٹوٹا ہوا پل 1993

کون اسے جاتا دیکھے 1995

پیشانی میں سورج 1996

جاگن والی رات (پنجابی)

10 ۔ اترے میری خواب پر ستارہ
11۔ رنگ ِ غزل (انتخاب) 1990

اسکے علاوہ گیارہ نثری تصانیف اور چھ تراجم بھی ان کی مسلمہ شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

انہیں ادبی خدمات پر 1969 میں آدم جی ادبی انعام ملا۔ 1992 میں نقوش ایوارڈ اور 1994 میں علامی اقبال ادبی ایوارڈ ملا۔ حکومت پاکستان نے ان کی شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں اعلٰی ترین سول ایوارڈ صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی عطا کیا۔

غزلیہ آہنگ:

جب شہزاد نے شعر کہنا شروع کئے اس وقت جدید غزل کے پیشرو کے طور پر اقبال غزل کو ایک نیا رنگ دے چکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب غزل میں بہت نامور لوگ موجود تھے۔ جدید غزل لکھنے والوں کےساتھ ساتھ روایتی اسالیب کی پیروی کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔غزل کو عمومی محبوب اورگھسے پٹے موضوعات کے تسلط سے آزاد کروانے والوں میں شہزاد کا نام اقبال،حسرت، فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور احمد فراز جیسے جید شعراء کے ساتھ بغیر کسی ہچکچاہٹ سے لیا جا سکتا ہے۔

1936 میں ترقی پسند تحریک نے نہ صرف غزل بلکہ پورے اردو ادب پر گہرے اور دیرپا اثرات ثبت کئے، اردو شاعری کی دوسری اصناف خصوصاً نظم کی طرح غزل بھی طرز احساس کی نئی تبدیلیوں سے آشنا ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ترقی پسند اسلوب معاشرتی حقیقتوں کی ترجمانی کا فرض سر انجام دے رہا تھا۔ شہزاد احمد نے ایک نئے طرز احساس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنے پیشروؤں پر جذبے کے غلبے سے خود کو جدا رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے واقعیت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ نئے زمانے کی فکری ، جذباتی اور نفسیاتی سچائیاں غزل کا موضوع بناٗ۔ اس لئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ شہزاد احمد کی غزل اردو غزل میں ایک نیا موڑ تھا۔ عام واقعات اور خیالات ان کی غزل کے موضوعات ہیں۔

لئے ہوئے دلوں میں ہے تمھاری یاد جس طرح

کبوتروں کے گھونسلے جلے ہوئے مکان میں

خلاؤں پر تسلط ہو چکا ہے

زمیں ہوتی ہے کب تسخیر دیکھیں

شہزاد اپنے دور کئی دوسرے شعرا کی طرح پہلے سے موجود روایت سے بھی منسلک نہ ہو سکے اور نہ ہی اپنے معاشرے سے بالکل ہی علیحدہ ہوئے مظفر علی سید کہتے ہیں:

"شہزاد احمد نے معمولی غزل گویوں کی طرح اپنے زمانے سے بے اعتنائی بھی برتی۔ مگر اس کے باوجود حدِ ادب اور وقار ملحوظ رکھا ہے تا کہ بہاؤ ہی بہاؤ میں کہیں دل و دماغ ہی نہ بہہ جائے۔"

(دیباچہ "صدف" از مظفر علی سید)

ایسی زبان جو کبھی غزل کی زباں نہ رہی تھی شہزاد کے دم سے غزل سے نہ صرف مانوس ہو گئی بلکہ شہزاد ایسے الفاظ و تراکیب استعمال کرتے ہیں کہ اس طرز میں پیش رو کا درجہ پاتے ہیں۔

پت جھڑ میں ایک کلی بھی میسر نہ آ سکی

بس سیگریٹوں کی راکھ سے گلدان اٹ گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاند کو دیکھنے نکلا نہ کوئی گھر والا

بھر گئے شہر کے میدان چھڑے لوگوں سے

ایک عرصے تک شہزاد کی مقبولیت اسی طرز احساس کی بدولت رہی۔ منیر نیازی کے چمکدار تمثیلی اسلوب سے متاثر ہونے سے قبل اردو غزل شہزاد کے وضح کردہ اسلوب کے زیر اثر رہی۔ اس اسلوب نے غزل میں نئے امکانات و رویوں کو جگہ دی۔

انکے ہاں ایرانی چمن اور سطح مرتفع کی بجائے اپنی دھرتی کے جنگلوں ، شہروں ، دیہاتوں اور کھیتوں کا ماحول ہے۔ظاہر ہے اگر علامتیں شاعر کے اپنے ماحول سے اخذ کی جائیں تو شاعر اپنی ذات کا اظہار نسبتاً آسانی سے کر سکے گا۔ شہزاد احمد نے اپنے احساسات کو ارد گرد کی اشیاء ، مظاہر اور علائم کی زبان میں پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔

دل کی باتوں میں آ کے پچھتائے

سانپ پر پاؤں آ گیا جیسے

موتیے کی باس ، تارے کی چمک، سرسوں کا رنگ

دو جہاں کی لذتیں ہیں پیار کی اک بات میں

شہزاد میں اپنے ہم عصر شعراء ظفر اقبال اور سلیم احمد کی طرح مہم جوئی کی سطح تک جانے سے گریز کرتے ہیں۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے ایک حد مقرر کر لی ہے۔

دوسری طرف شہزاد احمد کی ایک اختراع نئے شہری ماحول کا احساس ہے۔ ایک ایسی غزل ہمارے سامنے آتی ہے جس میں ارد گرد کی جدید اشیاء ، کاریں ، بسیں ، سڑکیں ، اور نئے دور کے نئے تلازمات موجود ہیں۔

شہزاد احمد اور ان کے ہم عصر شعراء کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اپنی پیش رو نسل کے مسلمہ ادبی رویوں کی موجودگی میں اپنی پہچان کیسے کروائیں۔ یہ لوگ بھی ہر نسل کی طرح اپنے پیش روؤں کی ادبی و معاشرتی روایتوں سے اجتناب بھی چاہتے تھے اور بے اختیار ان کی طرف کھنچے بھے چلے جاتے تھے۔

شہزاد احمد زندگی کی حقیقتوں کو آسان پیرائے میں غزل میں سمو دینے کے فن خوب جانتے ہیں۔ان کے ہاں حقیقتوں کا اطہار رومانی چادر میں ملبوس نظر آتا ہے۔ زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کا اظہار کرتے وقت شہزاد احمد لطافت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ اور کھردرے پن کا شکار ہونے سے بچے رہتے ہیں۔

شہزاد احمد کی شاعری میں محبت جسمانی لذت و سرود بہم پہچانے کا ایک ذریعہ نظر آتی ہے۔ محبت جیسے آفاقی جذبے اور احساس کی یہ نئی عکاسی شہزاد کی غزل کا ظرۂ امتیاز ہے۔ انہوں نے اپنے حسین تجربات و احساسات کو غزل کے پیرائے میں بہت خوبصرتی سے ڈھالا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات اور زندگی کی عام الجھنوں کو اپنی غزل کا موضوع بنا لینے میں یکتا نظر آتے ہیں۔ غرض زندگی کے جدید پہلو انکی غزل میں بطریق احسن جگہ پا لیتے ہیں۔

شہزاد احمد کے پیش نظر ایک فرد نہیں بلکہ پوری کائنات ہے۔ ان کی خاصیت یہ رہی کہ جدت کو اپنانے کے باوجود ان کی شاعری قابل فہم مو ضوعات کی حامل نظر آتی ہے۔

عورت اور عورت کے جسم کا واضح اور براہ راست ذکر فراق کی غزل کا موضوع بنا تاہم یہ میلان فراق تک محدود نہ رہابلکہ اس عہد کے دوسرے شاعر بھی اس رجحان سے متاثر ہوئے۔ شہزاد کی غزل بھی عورت اور عورت جسم کا واضح اظہار ہے۔ان کے یہ اشعار دیکھیں۔

اتار پھینک کبھی تو غبار سا ملبوس

یہ تیرا جسم ہے کپہ روشنی کا ستوں

جسم کے روپ میں ڈھلتی ہوئی شعلے کی لپک

آنچ آتی ہپے میری بھیگی ہوئی پلکوں تک

لڑکیاں کونسے گوشے میں زیادہ ہونگی

نہ کروں بات مگر پیڑ تو گنتا جاؤں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنتی رہی وہ اک سویٹر کو مدتوں

چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راہ چلتی ہوئی لڑکی کہ سگِ آوارہ

کون محفوظ ہے رستے میں کھڑے لوگوں سے

ان کی شاعری فکری بے قراری اور معاشرتی بے راہ روی کا شکار نظر نہیں آتی بلکہ مخصوص کردار و شخصیت ان کی غزل کی خصوصیت ہیں ۔ غرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ انکی غزل میں لسانی تجربے اور جدید حسیت کا اظہار جا بجا پھیلا ہوا ہے آخر میں چند اور اشار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں۔

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر

صبح ہوتے ہی پھر اخبار طلب کرتے ہیں

*

ہم کیا ہیں اگر خاک پہ سر پھرتے ہیں شہزاد

دریا بھی تو مٹی کے قدم چوم رہا تھا

*

پھر مجھے نا دیدنی زنجیر پہنائی گئی

علم تک مجھ کو نہیں اور میرا سودا ہو چکا

*

کھلے اسرار اس پر جسم کے آہستہ آہستہ

بہت دن میں اسے باتیں کرنے کا ہنر آیا

*

گھبرا کے آسماں کی طرف دیکھتے تھے لوگ

جیسے خدا زمین پر موجود ہی نہ تھا

*

واسطہ رکھتے نہیں خاک نشینوں سے کوئی

اب پیمبر نہیں قوموں پہ خدا آتے ہیں

*

خیرات کیا وہ بھی جو موجود نہیں تھا

تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی

*

شاید اسی باعث وہ فروزاں ہے ابھی تک

سورج نے کبھی رات کی ظلمت نہیں دیکھی

کتابیات:

1۔ "اردو انسائیکلو پیڈیا" فیروز سنز لاہور ، چوتھا ایڈیشن 2005

وزیر آغا ، ڈاکٹر۔ "اردو شاعری کا مزاج" مکتبہ عالیہ ،لاہور۔ نواں ایڈیشن 1993

"دیوار پہ دستک" ، سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور۔1991

4۔۔ یوسف حسین خاں۔"اردو غزل" ، انجمن ترقی اردو ،علی گڑھ ، 1957

سہیل احمد،ڈاکٹر ۔"طرفین" ،، سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور۔1988

انور صابر،ڈاکٹر۔"پاکستان میں اردو غزل کا ارتقاء" مغربی پاکستان اردو اکیڈمی،لاہور۔2002

وقار احمد رضوی، ڈاکٹر۔"تاریخ جدید اردو غزل" نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد۔ طبع دوم۔2000

سنڈے میگزین، " روزنامہ جنگ ملتان" مورخہ 6 مئی 2007

No comments: