Saturday, December 12, 2009

مولانا تاجور نجیب آبادی احسان دانش کے حوالے سے

مولانا تاجور نجیب آبادی احسان دانش کے حوالے سے
مولانا تاجور کو ایک دفعہ فیروز پور سے سردار اودے سنگھ شائق نے خط لکھا کہ یہاں ایک مشاعرہ ہے۔ آپ لاہور سے کچھ اچھے شاعر لے کر آجائیں تو مجھے سہولت ہوجائے گی۔ مولانا لاہور سے کئی شاعروں کو لے کر چل پڑے۔ ریل گاڑی جب فیروز پور کے قریب پہونچی تو مولانا کوکسی بات پر ملال ہوا۔ میں نے مولانا سے کہا ”آپ نے میری توہین اس لئے کہ آپ مجھے اپنے شاگرد کے مشاعرہ میں لے جارہے ہیں لہٰذا اب میںاس مشاعرے میں شرکت نہیں کروں گا اور ابھی دوسری ٹرین سے واپس لاہور چلا جاﺅں گا یہ بار احسان میرے لئے ناقابل برداشت ہے۔“ گاڑی فیروز پور کے اسٹیشن پر رکی۔ سب شعراءاتر کر اسٹیشن سے باہر چلے گئے لیکن میں گاڑی سے اتر کر لاہور جانے والی ٹرین کے انتظار میںایک بنچ پر جا بیٹھا۔ اس وقت میرا عالم یہ تھا کہ جیسے ایک اعلیٰ معیار کا مغنی اجنبی ماحول میں قدر ناشناسی سے اکتا کر اپنے ساز کے تاروں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر توڑ رہا ہو۔ مولانانے باہر جاکر جب مجھے نہ دیکھا تو پوچھا :”احسان کہاں ہے؟ اس کو بھی لاﺅنا۔“ مشاعرے کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں مشاعرے میں شریک نہیں ہوں گا۔“ یہ میرا اور مولانا کا معاملہ ہے۔ آپ لوگ اس میں دخل نہ دیں۔“ مولانا خود میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے اس وقت یہ شتر غمزے نہ کر۔ اٹھ میرے ساتھ چل۔“ میں نے کہا ....” مولانا، میں اپنی ذلت کے لئے مشاعرے میںنہیں آیا۔ آپ کے شاگرد کا مشاعرہ ضرور ہے لیکن میرے لئے اس قیمت پر مہنگا ہے کہ میں اپنی توہین سن کر بھی مشاعرے میںشمولیت کاتوسوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور آپ سے بھی ہمیشہ کے لئے ترک تعلق بہتر ہوگا۔ مولانا نے مسکراکر کہا ”ترک تعلق تو بہت ہی اچھی بات ہے جس بات کو میں خود کہنے والاتھا، وہ تو خود کہہ رہا ہے، لیکن اب تو مشاعرے میں چل۔ کمبخت! یہ تو میری عزت کا سوال ہے۔“ جب میں نے دیکھا کہ مولانا واقعی بہت پریشان ہیں تو میں نے کہا۔اچھا ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ یہاں میرے پاس بنچ پر بیٹھ کر ترنم سے ایک غزل سنائیں۔“ مولانا نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا ”یہ تو ہر گز ممکن نہیں۔“ میں نے کہا ”اگر یہ ممکن نہیں تو میں لاہور جاﺅں گا اور مشاعرے میں شرکت نہیں کروں گا۔“ مولانا : ارے بے وقوف تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں کالج میں استاد ہوں اور یہاں نہ جانے مخلوق خدا میں مجھے کون کون جانتا ہے؟ یہ لوگ کیا کہیں گے؟ میں نے کہا”مشاعرے میں جب آپ غزل پڑھیں گے اس وقت لوگ کیا کہیں گے، وہ تو تعداد میں یہاں سے زیادہ ہوں گے۔ اور پھر ریل چلی گئی اب تو پلیٹ فارم بھی ویران سا ہورہا ہے۔“ مولانا : ”ابے گدھے وہ تو مشاعرہ ہوگا، وہاں کوئی حرج نہیں ۔ یہ ضد نہ کر۔“ میں : ”مولانا یہ فیصلہ تو یوں ہی ہوگا۔“ مولانا جھلا کر چل دیئے اور تانگے میں سوار ہوگئے لیکن تھوڑی دور چل کر تانگے کو رکوایا اور اکیلے واپس آئے کہنے لگے”خبیث ! بتا کون سی غزل گاﺅں؟“ مولانا نے بنچ پر بیٹھ کر دھیمے سروں میں اپنی غزل سنائی جس کا ایک شعر یہ ہے تو اگر خدا بھی ہے، میں تجھے نہ مانوں گا بندگی کسی کی ہو، بندگی نہیں اچھی میں نے مولانا کے ہاتھ چوم لئے اور کہا ”میں تو آپ کا خادم ہوں ، میرا طرہ امتیاز جو ہے وہ سب آپ کی توجہ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم، اگر آپ خود نہ آتے تب بھی میں مشاعرے میںسر کے بل پہونچتا۔ “ چنانچہ میں مولانا کی معیت میں مشاعرے میں گیا اور بخیر و خوبی مشاعرہ انجام کو پہونچا۔ مولانا سے جب کوئی میری برائی کرتا تو وہ ہاں میں ہاں ملادیتے اور کہتے ارے بھائی ! وہ کوئی پڑھا لکھا انسان تو ہے نہیں۔ مزدوروں میں زندگی گزاری ہے۔ ان ہی میںاب تک اٹھتا بیٹھتا ہے۔ وہ سوسائٹی کے لحاظ سے محنت کش طبقہ کا آدمی ہے۔ آپ اس سے مہذب لوگوں جیسا برتاﺅ کیوں چاہتے ہیں؟ اس سے تو جہاں تک ہوسکے، بچ کے رہنا چاہئے وہ دل میں بات نہیں رکھتا۔ فوراً بک دیتا ہے۔ میں بھی اس کی رات دن کی گستاخیوں اور بے باکیوں سے تنگ ہوں۔ اس کو شعرا و ادبا کی صحبتیں بھی بھلی معلوم نہیں ہوتیں۔ یہ شکاری جانور کی طرح دانشوروں کی سوسائٹی سے بھی نفرت کرتا ہے میں نے اسے بڑے اخلاقی درس دیئے۔ مگر وہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی معاشرت سے باہر کی گفتگو جانتا ہی نہیں او ر نہ اس میں کسی اور بلندی کی طرف جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ تویہ ایک کالا بلا ہے جو خود بخود مجھ سے ہل گیا ہے مگر اس کو سدھایا نہیں جاسکتا۔“ لیکن جب کوئی میری شاعری کے بارے میں تنقید ی رخ سے گفتگو کرتا ہے تو وہ فوراً برہم ہوجاتے اور کہتے ”احسان دانش کی زندگی اور کج خلقی کے متعلق جو کہہ دو اس کو درست سمجھ لوں گا مگر جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق ہے وہ میرے اور آپ کے دونوں کے بس کا نہیں، وہ دور نکل چکا ہے یہ تو اس کی شرافت ہے کہ اپنی حدود میں ہے ورنہ جہاں وہ شاعری میں ہے وہ مقام ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا۔ رہا عیوب کا سوال ،وہ کرم کتابی ہے خود سنبھل جائے گا۔اسے مطالعہ کرنا آتا ہے اور بڑے اچھے مضبوط دل و دماغ کا مالک ہے۔ ہاں! یہ بھی بتادوں کہ اس سے الجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔وہ گالی بھی طبع زاد دیتا ہے اور مار دھاڑ کے معاملے میں بھی فن بنوٹ کا ماہر ہے۔ وہ اگر شاعر نہ ہوتا اور ماحول سازگار نہ مل جاتا تو شاید پھانسی پر چڑھ چکا ہوتا اس میں ایک کچلی ہوئی بغاوت اور زخمی غیرت بولتی ہے جس کو وہ اپنی شاعری کا نام دیتا ہے اس کی خاندانی شرافت اور اسلامی تہذیب کی دیواریں اسے روکے ہوئے ہیں ورنہ اب تک کیا سے کیا ہوجاتا۔“ بعض اوقات قدرت انسان کو انہیں حالات سے دوچار کرتی ہے جس سے وہ گریزاں اور خائف رہتا ہے۔ چنانچہ یہی معاملہ مولانا تاجور کے ساتھ بھی ہوا۔ موصوف موت کا نام سن کر لرزتے تھے اور بہت کم جنازوں میں شرکت کرتے تھے قدرت کو شائد ان کی یہ بات نہ بھائی، چنانچہ پندرہ دن کے اندر اندر ان کے دو نوجوان لڑکے راہی ملک عدم ہوئے۔ دوسرے لڑکے کی موت پر تو وہ ایک کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور جنازے کے ساتھ تک نہیں گئے۔ چند لوگوں نے ہی مل کر اس کو سپرد خاک کیا۔ دو جوان بھائیوں کی برابر قبریں اور ان کے ارد گرد کی فضا مجھ پر ایسی طاری ہوئی ”دو قبریں“ کے عنوان سے میں نے ایک نظم کہی جو میرے کلام کے ایک مجموعے میں شامل ہے۔ اس نظم کاایک شعر ہے۔ یہ پھول اپنی لطافت کی داد پانہ سکے کھلے ضرور مگر کھل کے مسکرانہ سکے یہ شعر کچھ ایسا عام ہوگیا ہے کہ آج قبرستانوں میں کئی قبروں پر کندہ ملتا ہے اس حادثہ کے بعد مولانا تاجور پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ نہ تو روتے تھے اور نہ کسی سے بولتے تھے۔ کبھی دیوار پر ٹکٹکی لگی ہوتی ہے تو کبھی چھت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جب انہیں اسی عالم میںکئی دن ہوگئے تو مجھے خطرہ ہوگیا کہ کہیں بچوں کا صدمہ مولانا کو نہ لے بیٹھے۔ عزیزوں اور دوستوں نے ان کا سکوت بہت توڑنا چاہا ۔مگر وہ غم سے پتھر ہوگئے تھے۔ بڑی مشکل سے دس بیس باتوں میں سے کسی ایک کا جواب ہاں، ہوں میں دے دیا تو دے دیا ورنہ مستقل خاموشی! جیسے ان کے سامنے کچھ مناظر تھے جنہیں وہ مسلسل تکتے رہتے تھے۔ جدھر نظر جم گئی جم گئی ۔ حالانکہ مولانا مجھ سے بڑے بے تکلف تھے لیکن ایک دم ایسے بدل گئے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے بالکل واقف ہی نہیں اور کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ آخر میں نے ایک دن سوچا کہ یوںکام نہیں چلے گا ۔گستاخ اور بے ادب تو میں اول بھی ہوں اور آخر بھی ۔ یہ سکوت توڑنا نہایت ضروری ہے چنانچہ میں نے اپنے ایک عزیز دوست سروپرکاش دامن اور مولانا کے ایک معتقد راج بلدیو راج سے کہا کہ مولانا کی یہ خاموشی خطرناک ہے۔ اگر مولانا سے ہمارا کوئی تعلق ہے تو ان کے اس سکوت کوتوڑنا درکار ہے، ورنہ مولانا سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، کیا کیا جائے؟ میں نے جواب دیا ، علاج صرف ایک ہے جس طرح میں کہوں بے فکری سے اس پر عمل کرتے چلے جاﺅ اور کسی اچھے ہوٹل میں دو تین حسین عورتوں کا انتظام کردو۔ کسی بہانے سے مولانا کو لے کر چلیں گے۔ مولانا کو کمرے میں بٹھا کر ہم تم باہر آجائیں گے اور دوسرے دروازے سے ان عورتوں کو اندر بھیج دیں گے اور ان سے کہہ دیں گے کہ کسی طرح مولانا کا سکوت توڑیں۔ وہ خود زمین بنالیں گی عورتیں اس فن سے خوب واقف ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ گئے اور شہر سے باہر ایک اعلیٰ قسم کے ہوٹل میںانتظام کر آئے ۔میں نے مولانا سے جاکر کہا کہ ایک سیاح آیا ہوا ہے اور اس کا لیکچر ہے ”اسلام کا روحانی پہلو“ شہر کے معززین وہاں آئیں گے۔ مجھے ابھی ابھی ایک آدمی تاکید کرکے گیا ہے میرا خیال ہے کہ اس سیاح کے پاس مصارف ختم ہوچکے ہیں کیونکہ اس کے بیوی بچے بھی اس کے ساتھ ہیں لیکچر تو ظاہر ہے بڑا علم افروز ہوگا لیکن پھرشاید کچھ مدد کے لئے بھی چندے کی صورت میں کوئی بات نکلے۔ مولانا نے پہلے تو انکار کے لئے انگلی ہلائی لیکن جب میں نے ذرا ترشی سے اصرار کیا تو مولانا نے بیگم سے پندرہ روپئے منگواکر کیسے میں ڈال لئے اور طوعاً و کرہاً ساتھ ہولئے۔ ہوٹل میں لے جاکر میں نے مولانا کو ایک کمرے میں بٹھادیا اور کہا کہ وہ پروفیسر صاحب ابھی شہر سے نہیں آئے، کچھ انتظار کرنا پڑے گا مگر کوئی بات نہیں آپ کے لئے چائے کا انتظام کرتا ہوں ۔ مولانا نے تلخی سے کہا ”تو مجھے سب سے پہلے کیوں لے کر آگیا۔“ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چائے کے بہانے سے باہر نکل آیا اور دو چار قدم چل کر پھر واپس ہوا اور مولانا سے کہا ”ہاں جی آدمی تو جمع ہیں۔ مگر ہم لوگ تو اب چائے پی کر ہی چلیں گے۔ ابھی تو شاید برابر والے کمرے میں ان کے بیوی بچے بھی ہیں۔ وہ تنہا کہیں گئے ہیں۔ اب آنے ہی والے ہوں گے۔“ میں نے مولانا کو مطمئن کر دیا اور خود باہر آگیا دوسری طرف سے دامن نے ان عورتوں کو کمرے میں داخل کردیا۔ مولانا سمجھے یہ اس سیاح پروفیسر کی اہلیہ وغیرہ ہیں۔ چنانچہ مولانا نے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اورزور سے کہا، بہن یہاں تو میں بیٹھا ہوں۔“ انہوں نے کہا ”جی ہاں! آپ ہی سے تو ملنے کو جی چاہتا ہے چنانچہ مولانا کے ایک پہلو میں ایک اور دوسرے پہلو میں دوسری بیٹھ گئی اور دونوں نے باری باری ان کے سینے سے سینہ ملا دیا۔ پھر ایک بولی ”مولانا آپ مجھے پسند کرتے ہیں یا نہیں؟“ مولانا: میرا دل رکا جارہا ہے آپ علاحدہ ہوکر بیٹھیں۔“ اس نے مولانا کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”دل کیسے رک سکتا ہے جب یہاں چلانے والے موجود ہیں۔“ مولانا اٹھنے لگے تو دونوں نے پکڑ کر بٹھا لیا اور ایک نے گال سے گال ملا دیا، اس وقت مولانا کے چہرے کا یہ عالم تھا جیسے کوئی کسیلی دوا مولانا کے حلق سے اتر رہی ہو۔ ہم لوگ بار بار آئینہ سے دیکھ کر مولانا کی گھبراہٹ کے مزے لے رہے تھے ۔ پھر ہم برابر کے کمرے میں آگئے جہاں سے ان عورتوں کو بھیجا گیا تھا اوروہ اس قدر کم فاصلے پر تھا کہ معمولی آواز بھی ہمیں سنائی دیتی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ مولانا بہت ہی برافروختہ ہیں تو میں چائے والے ملازم کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ پھر کیا تھا مولانا مجھ پر برس پڑے اور میں خاموش کھڑا سنتا رہا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی خاموشی ٹوٹی۔ جب مجھے برا بھلا سنتے سنتے دیر ہوگئی تو میں نے کہا ”مولانا چائے پیجئے“ مولانا نے کہا ”ہرگز چائے نہیں پیوں گا“ میں نے بغیر سوچے جواب دیا کہ حضرت اس کا بل تو آئے گا اور میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں مولانا نے فوراً جیب سے پندرہ روپئے نکال کر میرے اوپر پھینک دیئے اور کہا.... ”بے حیاً ڈوب کے مرجا، شرم نہیں آتی۔ لے، بل ادا کردے ۔ابلیس!“ میں نے کہا ”حضور شرم تو آئے گی لیکن آج کی حرکات آپ کی بیگم سے ضرور کہوں گا اور ایسے ایسے حاشیہ لگادوں گا کہ ہفتوں جنگ بند نہ ہو۔ مولانا نے کہا ”نہیں ۔ نہیں۔ ایسی بات وہاں نہ کہنا، وہ کیا کہیں گی، پھر تیرا آنا جانا بھی بند ہوجائے گا۔ خبر دار!“ ”آنا جانا تو میں خود بند کردوں گا۔ ہوٹلوں کی عورتوں میں اب آپ ہی رہیں گے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ بات میں آپ کی بیگم سے چھپاﺅں۔“ آخر انہیں کسی نہ کسی دن معلوم تو ضرور ہوجائے گا اور آپ کے پیٹ میں توکبھی بات کھپتی ہی نہیں اس وقت مجھے ایک برا اور غیر مخلص انسان خیال کریں گی۔ اس لئے میں ان سے ہرگز یہ بات نہیں چھپا سکتا۔ ابھی جاکر پہلی بات ہی یہ ہوگی۔“ مولانا نے دس روپئے اور نکال کر میرے اوپر پھینکے اور کہا” مجھے یہاں سے باہر تو نکال دے، خبیث!“ میں نے کہا ”مولانا میرے تو چالیس روپئے صرف ہوئے ہیں ان روپیوں سے کیا کام چلتا ہے۔؟“ مولانا نے کہا میں سب ادا کردوں گا، گھر تک تو چل ،اتنا بھی اعتبار نہیں ہے کیا....؟“ ”اچھا ابھی چلتے ہیں ذرا چائے تو پی لیں۔“ ”ارے ظالم میرا کوئی شاگرد ادھر ادھر ہوا تو کیا کہے گا؟“ مولانا میںبھی تو آپ کا شاگرد ہوں اور یہاں مجھ جیسا ہی کوئی شاگرد آیا ہو گانا۔“ ”تو بہ توبہ تو تو بابا استاد ہے۔ شاگرد نہیں۔ بس یہاں سے جلدی چل۔“ بمشکل مولانا نے آدھی پیالی زہر مار کی اور جلدی جلدی ہوٹل سے نکلے دامن نے تانگے والے کو آواز دی۔ اور ہم چاروں تانگے میں بیٹھ گئے۔ تانگے والے نے پوچھا کہاں چلوں سرکار۔“ کسی ایسے ہوٹل میں چلو جہاں مولویوں کا زنگ اتار ا جاتا ہو۔“ مولانا بولے ”نہیں ۔نہیں فرنگ چلو، فرنگ!“ میں نے کہا ”یہ مولانا تو یوں ہی کہا کرتے ہیں کسی اچھے ہوٹل میں چلو۔“ یہ سن کر مولانا نے میری طرف گھور کر دیکھا اور تانگے سے کودنے کو تیار ہوگئے۔ میں نے مولانا کے قدم پکڑ لئے اور دست بستہ معافی مانگی۔ گھر کے سامنے تانگہ رکا تو مولانا کی جان میں جان آئی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ گھر میں پہونچے تو چار پائی پر دراز ہوگئے جب ذرا سانس ٹھکانے آئی تو میں نے کہا” مولانا بڑی محنت کی ہے اب تو چائے پلوائیے۔“ مولا نا بولے” احسان تو شیطان ہے شیطان ! آج معلوم ہوا تو تو بڑا ہی آوارہ ہے۔ تیری دوستیاں تو آوارہ لوگوں سے ہیں۔ آوارہ لوگوں سے ۔توبہ توبہ، مجھے اس کل کے لڑکے نے کیسا جل دیا ہے۔ الامان و الحفیظ۔“ مولانا کی علمی خدمات اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ان کے حریف بھی معترف ہیں لیکن اس زبانی اعتراف کے باوجود ہمیشہ ان کی کاٹ ہی کرتے رہے اور وہ اپنی جگہ ان کے اوچھے حربوں کواوٹتے رہے۔ شکایت زبان تک نہیں لائے انہوں نے کئی بار اہم اہم عنوانات سے کام کرنا چاہا لیکن مقامی مخالفتوں نے انہیں سانس تک لینے کی مہلت نہ دی اور رات دن پریشان رکھا۔ ان پریشانیوں کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے اور اگر کبھی ان کے بکھرے ہوئے مضامین کو اکٹھا کر لیا گیا تو ایک بڑا ادبی کارنامہ ہوگا۔ جہاں تک ادباءو شعراءکے طبقہ سے مجھے استفادہ کا موقع ملاہے اس سے اندازہ ہے کہ ایسے استاد بہت کم پیدا ہوتے ہیںاور جہاں تک مقامی حریفوں کی دشمنی کا تعلق ہے وہ بھی اس معیار کی ہے کہ بعض بعض لوگوں نے تو ایسے ایسے الزام تراشے جس سے عوام بھڑک اٹھیں اور قتل و غارت کی نوبت آجائے لیکن خدا اپنے نیک بندوں کی خود مدد کرتا ہے چنانچہ ان کی تمام تہمتیں صدا بہ صحرا ہوکر رہ گئیں۔ بعض بعض تو مولانا کے انتقال کے بعد بھی اپنی دشمنی سے بعض نہیں آئے۔ سنا ہے کسی نے اب یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا نے انہیں زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ مولانا تاجور کے متعلق یہ ایسا الزام ہے جسے شاید خدا بھی نہ بخشے۔ مولانا کے علم کے اعتبار سے فاضل دیو بند تھے اور پنجاب یونیورسٹی سے بھی عربی میں سند فضیلت حاصل کی تھی۔ وہ شرافت اور اتقا میں بڑے منہمک اور مرتاض تھے ان کے متعلق یہ گمان کرنا بھی صداقت کا خون کرنا ہے۔ میںاس شاعر کے لئے دعاکرتا ہوں خدا اسے معاف کرے جس نے مولانا پر الزام تراشا ہے۔ میں نے تو جب پہلی بار یہ خبر سنی تو کانپ گیا اور سوچنے لگا کہ شاید اس شخص کے سامنے موت نہیں ہے جو چند روزہ زندگی کے لئے خدا سے نہیں ڈرتا اور دوزخ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔

Wednesday, December 9, 2009

ذوق کی شاعرانہ عظمت از ڈاکٹر تنویر احمد علوی

ذوق کی شاعرانہ عظمت
ڈاکٹر تنویر احمد علوی
اٹھارہویں صدی عیسوی کا نصف آخر اور انیسویں صدی کا دور آغاز مغلوں کے عہد زوال اور شہر دہلی کے سیاسی انحطاط کا زمانہ تھا سیاسی انتشار کے ساتھ ذوق کے زمانہ زندگی سے پیشتر شہر دہلی ایک ادبی اور تہذیبی مرکز کے طور پر برا بر ٹوٹتا جارہا تھا اور لکھنو انیسویں صدی کے نصف اول میں دہلی کی تہذیب و شہریت کا ایک حریف بنتا ہوا نظر آتا تھا اس لئے زبان دانی قدر شناسی کے پیمانے بھی دھیرے دھیرے بدلتے جارہے تھے۔ ۰۰۸۱ءمیں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا قیام عمل میں آیا یہاں انگریزوں کی رہنمائی اور نگرانی میں دہلی اور لکھنو کے ادیبوں اور شاعروں نے مل کر جو کام کیا اس نے بھی آگے چل کر زبان و ادب کی نئی تشکیل میں ایک خاص کردار ادا کیا اس سے ان کوشسوں کو فروغ پانے کا موقع ملا جو منتشر تھیں اور مستشرقین جن کے لئے کوشش کچھ پہلے سے کرتے آرہے تھے یہاں اردو کی لسانی او رادبی تدریس کے امکانات سامنے آئے۔ لغات و قواعد کی ترتیب عمل میں آئی بعض تذکرے لکھے املا کے قاعدے مرتب ہوئے بعض اہم کتابوں کو ٹائپ کے حروف میں چھاپا گیا۔ لسانیاتی بنیادوں پر بھی کچھ اہم کام ہوا اور اردو زبان علاقائی اور ملکی جڑوں کو تلاش کیا گیا۔ ادھر دہلی کے مقابلہ میں لکھنو نے ریاستی امن و انتظام اور خوشحالی و فارغ البالی کے اعتبار سے تیزی سے ترقی کرنا شروع کردیا اور دہلی کے ادیب شاعر عالم اور عامی بھی وہاں پہونچنے لگے تو آصف الدولہ اور ان کے جانشینوں کے زمانہ کی فضا میں لکھنو کے ان لوگوں کو نئی ادبی نسل سے تعلق رکھتے تھے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کا اپنا ایک شہری وجود اپنی ایک تہذیبی شناخت اور ادبی انفرادیت بھی دھیرے دھیرے قائم ہورہی ہے۔ شروع میں یہ احساس کچھ لسانی اور ادبی امتیازات پر مبنی تھا جس کے نقوش زیادہ گہرے نہیں تھے۔ میر انشاءاللہ خاں کی معروف کتاب دریائے لطافت کی بعض بحثوں سے اس کا اندازہ ہوتا ہے میر سے منسوب یہ قطعہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میںانتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے جن کو فلک نے تاک کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے یہاں تو جو کچھ ہے وہ ایک زیریں لہر کے طور پر ہے۔ لیکن میر کا اہل لکھنو کے سامنے یہ کہنا کہ میرے کلام کے لئے سند یا قلعہ معلی کی زبان ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اہل دہلی قلعہ کی زبان اور محاورہ کا احترام کرتے تھے اسے فی الجملہ سند مانتے تھے لیکن ان کے نزدیک زبان کی صحت اور حسن استعمال کا معیار جامع مسجد کی سیڑھیاں اور ان کے آس پاس کا علاقہ تھا جس میں سید اڑہ اور محلہ کابلی دروازہ خاص طور پر شامل تھا اسی محلہ کابلی دروازہ کے کسی گوشہ میں ذوق مرحوم کی پیدائش ہوئی تھی اور یہیں انہوں نے ایک عالی خاندان رئیس کے زیر سایہ پرورش پائی تھی۔ وہ خود ایک غریب باپ کے بیٹے تھے اور ایک ایسے نو مسلم خاندان کے چشم و چراغ جس کے پاس اپنی کوئی علمی ادبی اور تہذیبی روایت نہ تھی وہ ہر طرح کے خارجی سہاروں سے محروم تھے ذوق مرحوم اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وجیہ و شکیل نہ تھے بلکہ نسبتاً پستہ قد و قامت اور کم صورت تھے۔ ایسے کسی شخص کو اس عہد کی شہری شخصیت بننے کے لئے بہت غیر معمولی ذاتی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کااظہار اس طرح ممکن تھا کہ وہ زبان دانی علمی لیاقت اور شعر و شاعری میںامتیاز پیدا کریں۔ طبقہ اشراف میں یہ چیزیں بہت مقبول تھیں با محاورہ زبان بولنے اور روز مرہ کے صحیح اور فصیح استعمال کو لازمہ شرافت خیال کیا جاتا تھا جس کا ایک وسیلہ شعر و سخن سے خصوصی دلچسپی تھی۔ ابتدا ئے عمر ہی سے وہ شعر کہنے لگے تھے شروع میں اپنی مکتب نشینی کے زمانہ کے استاد حافظ غلام رسول شوقسے اصلاح لیتے تھے پھر اپنی طبیعت کے جودت اور اپنی فکر کی جدت کے زیر اثر ان سے غیر مطمئن ہوئے تو شاہ نصیر جیسے استاد سخن کی طرف رجوع کیا جو مشکل بھاری ردیف اور قافیہ کے ساتھ بے تکلف بلکہ بے تحاشہ غزل کہنے میں بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ شہزادہ ابو ظفر کے استاد سخن تھے اور قلعہ کے ماسوا شہر میں بھی بہت سے نو عمر شاعر اس فن میںان کے شاگرد تھے۔ شاہ نصیر کی شعری شخصیت دہلی کی روایت شعر میں ایک نئی نمود کا پتہ دیتی ہے۔ ان کا تعلق اس شہر کے ایک صوفی خاندان سے تھا وہ شاہ صدر جہاں کے پوتے اور شاہ غریب اللہ کے بیٹے تھے لیکن اپنے باپ دادا کے درویشانہ مزاج اور فقیرانہ چلن کو خیر باد کہہ کر انہوں نے شعر و شاعری کے ذریعہ دنیا داری سے واسطہ پیدا کیا۔ مال و زر اور جاہ و ثروت سے بے نیازی کا رویہ ان کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتا وہ تو بظاہر ان کی طلب میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور شمالی ہند کے دوسرے شہروں کے علاوہ جہاں وہ استادانہ معرکوں اور شاعرانہ مقابلوں میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ مہاراج چند ولال کے بلاوے پر دوبارہ دہلی سے دکن کا سفر اختیار کرتے ہیں اور بالآخر وہیںان کا انتقال ہوتا ہے ۔ذوق ان کی شاگردی تو اختیار کر لیتے ہیں لیکن ان کی استادانہ روش اور دہلی کے مشاعروں میں اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا احساس رفتہ رفتہ انہیں اپنے استاد سے دور کر دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ شاہ نصیر کے مقابلہ میں ان کی علمی واقفیت بھی زیادہ ہے اور شاعرانہ صلاحیت بھی۔ اس لحاظ سے اپنے استاد کے مقابلہ میںذوق ایک خاص امتیاز رکھتے تھے کہ شروع ہی سے وہ ایک قصید ہ نگار تھے جو شاعرانہ فکر و فن کے نقطہ نظر سے ایک بڑی بات تھی۔ انہیں شاہ نصیر کے دہلی سے کچھ وقت کے لئے چلے جانے کے بعد شہزادہ ولی عہد کی استادی کا شرف بھی حاصل ہوچکا تھا اور انہوں نے مشق سخن اور مطالعہ فن شعر کے ذریعہ علم معانی و بیانی کے رمز و کنایہ سے بھی واقفیت بہم پہونچائی تھی غرض کہ ان کے یہاں ”اکتساب“ کا پیمانہ زیادہ لائق توجہ اور قابل تعریف تھا۔ دہلی میں شاعرانہ مقابلہ اور استادانہ معرکہ آرائی کی فضا پہلے سے موجود تھی۔ انشا اور عظیم جیسے شاہ نصیر کے پیش رو اس کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ لیکن اس زمانہ میںایسے مقابلوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی اور دن بدن بڑھتی جارہی تھی ذوق کواسی ادبی ماحول میں جینا اور انہیں معرکوں میںاپنی کامیابی اور شہرت کی راہیں ہموار کرنا تھیں۔ چنانچہ ان کی بہت سی غزلیں اور بعض قصیدے انہیں شاعرانہ معرکہ آرائیوں کا عکس پیش کرتے ہیں۔ ایسے کچھ شعر ملاحظہ ہوں ہرگام پر رکھے ہے یہ وہ ہوش نقش پا ہوخاک عاشقاں نہ ہم آغوش نقش پا افتاد گاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو دامان خاک ہوتا ہے روپوش نقش پا اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں بول اٹھے منھ سے ہر لب خاموش نقش پا رکھ دل جلوں کی خاک پہ تو بافراغ پا سوز دروں وہی ہے پہ ہوں گے نہ داغ پا تو باغ میں رکھے ہے جو اے رشک باغ پا پھر آئے واں خزاں تو وہیں ہوویں داغ پا تو کہے غنچہ کہ آس لب پہ دھڑی خوب نہیں چپ کہ منھ چھوٹا سااور بات بڑی خوب نہیں سامنے سے مرے ٹلتا نہیں مغز کھاتا مرا دوچار گھڑی خوب نہیں فتنہ سرکش ہے جبھی تک کہ تری آنکھوں نے دست مژگاں سے کوئی دھول جڑی خوب نہیں ابرو پہ اس کے خال ہے کیا زاغ شوخ چشم سمجھا ہے اپنی شاخ نشیمن ہرن کی شاخ دکھلائی اس کے سرمہدنبالہ دار نے آنکھوں سے ہم کو نرگس ہاروت فن کی شاخ ایسی ہی کچھ غزلوں میں ذوق کی یہ غزل بھی تھی جس کی زمین ”ہمدوش“ ”نقش پا“ اور آغوش نقش پا تھی اور جس میں ذوق نے سودا جیسے بڑے استاد کی غزل پر غزل کہی تھی جسے دیکھ کر شاہ نصیر نے اپنے استادانہ غصہ کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تم سودا سے بھی اوپر اڑنے لگے استاد اور شاگرد کے درمیان یہ کشاکش اس معاصرانہ چشمک ہی کی ایک صورت ہے جس سے اس دور کی ادبی فضا بے حد متاثر تھی۔ اس لئے تجربے کی صحت اور جذبے کی صداقت پر زور دینے کے بجائے فقروں کی بر جستگی محاورہ کی درستی اور بندش کی چستی پر زیادہ توجہ مبذول رہتی تھی۔

فورٹ ولیم کالج کی اردوخدمات از شجاعت علی سندیلوی



فورٹ ولیم کالج کی اردوخدمات
شجاعت علی سندیلوی
آسان اور عام فہم اردو نثر کے آغاز اورارتقا میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کواولیت بھی حاصل ہے اور اہمیت بھی۔ یہ کالج ۰۰۸۱ءمیں اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں نووارد انگریزوں کو یہاں کی زبان اور معاشرت سے واقفیت ہوجائے کیونکہ: ”برطانوی قوم کے مقدس فرض، ان کے حقیقی مفاد، ان کی عزت اوران کی حکمت عملی کا اب یہ تقاضا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی سلطنت کے حدود میں عمدہ عمل داری قائم کرنے کے لئے مناسب اقدام کئے جائیں۔“اور عمدہ عمل داری قائم کرنے کےلئے لارڈ ویلز نے سب سے اہم اور مفید کام فورٹ ولیم کالج کاقیام سمجھا، اس نے تعلیم کا ایک وسیع منصوبہ بنایا اور نصاب تعلیم میں ریاضی ، تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس، معاشیات ، مغربی اور مشرقی زبانیں ، قوانین وغیرہ کو داخل کیا اور ان کے لئے علاحدہ علاحدہ پروفیسر مقرر کئے۔ ہندوستانی زبان کے شعبہ کا صدر، مشہور مستشرق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو مقرر کیا گیا۔ گلکرسٹ کو ہندوستانی زبان (اردو)سے خاص لگاﺅ تھا درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا تجربہ ، فورٹ ولیم کالج میںآنے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ وہ ہندوستانی (اردو) زبان کو ہندوستان گیر سمجھتا تھا۔ ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر جانے اور رہنے کے بعد وہ لکھتا ہے: ”جس گاﺅں اورجس شہر سے میرا گزر ہوا وہاں اس زبان کی مقبولیت کی جو میں سیکھ رہا تھا مجھے ان گنت شہادتیں ملیں۔“ ہندوستانی زبان کے شعبہ کی یہ خوش قسمتی سمجھنا چاہئے کہ اس کا سربراہ ایک ایسا شخص تھا جو ہندوستانی زبان اور تعلیم کا ماہر، تصنیف و تالیف کادل دادہ، اردو کی ترقی و ترویج کا شائق ،علم دوست تجربہ کار، دانش ور اور دانش مند تھا بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق کے الفاظ میں: ”بلا مبالغہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو احسان دلی نے اردو شاعری پرکیا تھا اس سے زیادہ نہیں تواسی قدر احسان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے۔“ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گلکرسٹ کی بدولت فورٹ ولیم کالج اور اس کا ہندوستانی شعبہ اردو کی لسانی اور ادبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔گلکرسٹ مشکل سے چار برس تک ہندوستانی شعبہ کا صدر رہا اس قلیل مدت میں اس نے شعبہ کو بڑی ترقی دی۔ درس و تدریس کے علاوہ اس نے تصنیف و تالیف کا باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے شعبہ میں مصنفین، مترجمین کی تقرری کی۔ منشی اور ماتحت منشی بھی رکھے ، چھاپہ خانہ کھولا ،اردوٹائپ سے طباعت شروع کی ،عام اور بے پڑھے لکھے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور نووارد انگریزوں کو اردو کالب و لہجہ ، تلفظ سمجھانے کے لئے قصہ خواں مقرر کئے جو دلچسپ قصے سناکر اردو بولنے اور پڑھنے کے لئے رغبت دلاتے تھے۔ ہندوستانی مصنفین کو ان کی بہترین تصنیف پر انعام دیئے جانے کی کالج کونسل سے سفارش کرکے انعام دلایا۔ ایسے مصنفین کو بھی انعام دلایا جوکالج سے وابستہ نہیں تھے۔ کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دیئے جانے کی راہ نکالی، کتابوں کے فروخت کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہندوستانی شعبے میں، اس عہد کے نامور اردو، ہندی ادیبوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میر بہار علی حسینی، میر امن، غلام غوث، میر حیدر بخش حیدری، تارنی چرن متر کندن لال، کاشی راج وغیرہ ۴۱ حضرات کا تقرر کیا گیا۔ میر بہادر علی حسینی چیف منشی اور تارنی چرن مترا سکنڈ بالترتیب دو سو اور سو روپئے ماہوار اور بقیہ منشی ۰۴ روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ جیسے جیسے اردو شعبہ کاکام بڑھتا گیا اورطلباءکی تعداد میںاضافہ ہوتا گیا۔ مزید منشیوں کا تقرر ہوتا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک خوش نویس ، ایک ناگری نویس ، ایک بھاکا منشی اور ایک قصہ خواں کی بھی خدمات حاصل کی گئیں ۔طالب علموں کو کالج کے اوقات کے علاوہ تعلیم دینے کے لئے سندی منشی بھی مقرر کئے گئے جن کے اخراجات طالب علم ہی برداشت کر تے تھے۔اس طرح ۲۰۸۱ میں ہندوستانی شعبے کے عملے کی تعداد ۸۴ تک پہونچ گئی تھی جن میں شیر علی افسوس، مرزا علی لطف، مظہر علی خاں ولا، کاظم علی خاں جوان خلیل خاںاشک، نہال چند لاہوری، بینی نرائن جہاں، مرزا جان طیش، اکرام علی، للو لال جی وغیرہ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ سے اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور اردونثر کو مقبول عام بنایا۔ گلکرسٹ کی کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی شعبہ اور ہندوستانی زبان (اردو) ہر اعتبار سے ترقی کرے، اس کاادب بھی ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کی طرح ممتاز درجہ حاصل کرکے خاص وعام میں مقبول ہوجائے اس کوخوب سے خوب تر بنانے کی دھن تھی زبان کی توسیع و اشاعت کے سلسلے میں اس نے کالج کونسل کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا، کونسل نے سنی ان سنی کردی۔ گلکرسٹ کوجب یہ یقین ہوگیا کہ وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تو ۳۲فروری ۴۰۸۱ءکو اس نے استعفا دے دیا۔ کالج کے ذمہ داروں نے اس کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ منظور کر لیا۔ گلکرسٹ کا عہد ، ہندوستانی شعبے خصوصاً اردو کے لئے، تصنیف و تالیف اور تعلیم کے اعتبار سے ، انتہائی اہم اور مفید تھا۔ اس کی سر پرستی اوررہنمائی میں، آسان اردو نثر لکھنے کی ابتدا ہوئی،اسی نے اردو کے مشاہیر اہل زبان کی خدمات حاصل کیں اور ان سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن میںسے بعض ہمیشہ زندہ رہیں گی۔“ وہ خود بھی صاحب قلم تھا اور اس نے زبان ، قواعد زبان ، اورلغت وغیرہ پراعلیٰ درجہ کی کتابیں لکھیں۔ اس نے ہندوستانی زبان کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے، ان کی کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کی سفارش پر غور کرکے منظور کر لیا اس کے زمانے میںچوالیس کتابوںپرانعامات دیئے گئے۔ گلکرسٹ کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہواکہ اردو میں مختلف موضوعات پرکتابیں لکھی گئیں یاترجمہ کی جانے لگیں ۔ گلکرسٹ کے چلے جانے کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ فورٹ ولیم کالج نے اپنے مختصر زمانے میں جو لٹریچر پیدا کردیا اورجتنی کتابیں تصنیف ، تالیف اور ترجمہ کرادیں، پورے ملک میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں اور زبان و اسلوب کے لحاظ سے تو ایک کتاب بھی ایسی نہی ہے جو ان کتابوں کی طرح عام فہم اور مفیدہو۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین سے زیادہ تر ایسی کتابیں لکھوائی گئیں جو عام دلچسپی یعنی، تعلیمی ،اصلاحی، اخلاقی، تاریخی ہوں۔ جن سے ہندوستان کے مذہبی، سماجی، معاشی، حالات معلوم ہوں، زبان عام فہم ،دلچسپ اور رواں ہو۔ اسلوب ،سیدھا سادا اور سلجھاہوا ہو۔ میر امن کے الفاظ میں کہ گلکرسٹ نے فرمایا: ”قصے کو ٹھیٹ ہندوستانی زبان میں جو اردو کے لوگ ، ہندو، مسلمان، عورت ، مرد ، لڑکے ، بالے، خاص و عام، آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔ “ میر امن نے باغ و بہار کے دیباچے میں یہ لکھا ہے : فورٹ ولیم کالج کی کتابوں میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت ، میر امن کی اسی کتاب کو نصیب ہوئی، متعدد غیر ملکی زبانوں ، انگریزی، فرانسیسی، پر تگالی، لاطینی میں ترجمے ہوئے۔ میر امن کی زبان دلی کی ٹکسالی زبان ہے ، روز مرہ اور محاورہ کی چاشنی بیان کی سادگی و دلکشی ، منظر نگاری ، قومی و ملکی خصوصیات نے، باغ و بہار کو سدابہار بنادیا ہے ،باغ و بہار کے بعد میر امن نے دوسری کتاب گنج خوبی لکھی لیکن اس کو باغ و بہار جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ میر امن کے علاوہ چند دوسرے مشہور لکھنے والے اور ان کی مقبول اور اہم کتابیں حسب ذیل ہیں: حیدر بخش حیدری (آرائش محفل، گلزار دانش اور شعرائے اردو کا تذکرہ گلشن ہند) مظہر علی خاں ولا (سنت گلشن ۔ تاریخ شیر شاہی) میر بہادر علی حسینی (اخلاق ہندی) مرزا علی لطف (تذکرہ گلشن ہند)میر شیر علی افسوس (باغ اردو) میرزا کاظم علی جوان (شکنتلا ڈرامہ) خلیل خاں اشک (داستان امیر حمزہ)نہال چند لاہوری (مذہب عشق) بینی نرائن جہاں (دیوان جہاں۔اردو شعراءکا تذکرہ) للو لال جی (سنگھاسن بتیسی) ان چند کتابوں سے ہی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے مختصر مدت میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں، وہ ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔پونے دو سو برس سے زیادہ زمانہ گزر جانے کے باوجود فورٹ ولیم کالج کی بیش تر کتابیں آج بھی زبان و بیان کی شیرینی و دل کشی میںاپنا جواب نہیں رکھتیں۔ فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات کااختصار یہ ہے : (۱)فورٹ ولیم کالج ، غیر ملکیوںکا پہلا کالج ہے جس نے ہندوستانی زبان کی تعلیم و ترقی ،ترویج و اشاعت کی طرف توجہ دی اور اس غرض سے اس نے ہندوستانی زبان کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا۔ (۲)ہندوستانی زبان کے مشہور ادیبوں کی خدمات حاصل کیں اور ان سے کتابیں لکھوائیں۔ (۳)دوسری زبانوں کی کتابوں کے تراجم کرنے کا اہتمام کیا۔ (۴)کتابوں کی طباعت و اشاعت کے لئے پریس قائم کیا اورٹائپ سے چھپائی کاانتظام کیا۔ (۵)کالج نے قصے کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ دوسرے مفید اور دلچسپ موضوع کی بھی کتابیں۔ (قواعد ) لغت ،تاریخ، تذکرہ، مذہب ،اخلاق وغیرہ لکھوائیں۔ (۶)عمدہ کتابوں پر انعامات دینے اور کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کا آغاز کیا۔ (۷) اردو نثر کو سلیس ، عام فہم بنانے پر خاص توجہ دی۔ سچ تو یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کو، زندگی ، توانائی ،عطا کی اور اسی کی بدولت آسان نثر نگاری کا رواج ہوا۔ (۸)ہندوستان میں یہ پہلا علمی و ادبی ادارہ تھا جس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کوبھی اپنا نصب العین بنایا۔ (۹)فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کے ایسے اعلیٰ نمونے پیش کئے اور اتنی بے مثل کتابیں لکھوائیں کہ جن سے اردو ادب کے سرمائے میں قابل قدر اضافہ ہوا۔



خلیق ابراہیم خلیق-کچھ ذاتی تاثرات از شبیر علوی


خلیق ابراہیم خلیق کے بارے میں ان سے قربت اور رفاقت کے باوجود کچھ لکھنا یا کہنا میرے لئے اب بہت مشکل ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں اول تو یہ کہ ان کے ذاتی حالات خاندانی پس منظر اور علمی و ادبی کوائف سے زیادہ تر لوگ بخوبی واقف ہیں کیونکہ اپنی خود نوشت منزلیں گرد کی مانند“ میں انہوں نے سب کچھ خود ہی ”درج گزٹ“ کردیا ہے اور ناگفتنی کوئی ایسی ہے ہی نہیں جس کا انکشاف کرکے میں کسی فساد خلق کا مرتکب ہوسکوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں زندگی کے اس دور میں ہوں جب یادگار باتوں پر بھی گردش زمانہ کی تہیں جم جاتی ہیں پھر بھی دو تین تاثرات پیش کرنے کی کوشش کروں گا جن سے ممکن ہے خلیق صاحب کی بھر پور زندگی پر کسی نئے زاویے سے روشنی پڑ سکے یا کم از کم یہی ہو کہ ان کے مخلصوں کو قدرے دلچسپی ہو،میری اس کوشش کی وجہ یہ ہے کہ مدتوں سے خلیق صاحب سے ربط و ضبط رہا ہے کسی زمانے میں ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی رہے ہیں ہم دونوں، پھر بھی اصل کوشش یہ ہوگی کہ کسی طرح کے غلویا غلط بیانی کاالزام نہ عائد ہوسکے۔ میں نے سب سے پہلے خلیق صاحب کو ۶۴۹۱ءاور ۷۴۹۱ءکے ہنگامہ خیز دور میں دیکھا۔ وہ زمانہ بر صغیر کی تاریخ میں انتہائی اضطراب و ہیجان کا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کی منزل قریب تھی اور مسائل حاضرہ کے مبصر یہ تسلیم کر چکے تھے کہ ملک کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل ناگزیر ہے ۔ اصل میں ابنائے وطن نے مسلم مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں ایسی ناعاقبت اندیشی کا مظاہر ہ کیا کہ عام مسلمان ایک علاحدہ ملک کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ان حالات کاذکر خلیق صاحب کی خود نوشت میں موجود ہے)اس ہنگامی دور میں ایک اہم لڑائی تو مسلمانان ہند ۶۴۹۱ءکے انتخابات میں جیت چکے تھے مگر دوسری اہم جنگ ذرائع نشر و اشاعت کے میدان میں تھی کانگریس پارٹی کے پاس دولت کی کبھی کمی نہ رہی۔ چونکہ اسے انگریزوں اور خاص طور پر ماﺅنٹ بیٹن کی حمایت حاصل تھی، اس لئے وسائل کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ مسلم لیگ کے پاس نشر و اشاعت کے وسائل تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ دو چار ہی اردو اخبارات تھے جو مسلم لیگ کے موقف کے حامی تھے۔ ایسے اخباروں میں لکھنو کے روزنامہ ”تنویر“ کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ اخبار انتخابات کے ہنگاموں میں نکلا تھا اور اس کی پشت پناہی کل ہند مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے بعض نمایاں ارکان کررہے تھے یوپی مسلم لیگ کے صدر اور کل ہند مسلم لیگ کے صدر لیڈر چودھری خلیق الزماں اور ان کے بھائی مشفق الزماں پوری طرح تنویر کی پشت پر تھے۔ میں ان دنوں انٹر میڈیٹ کا طالب علم تھا لیکن مسلم لیگ کے سرگرم کارکنوں میں تھا۔ الہ آباد میں پاکستان کی راہ میں تن من دھن لٹانے والوں کی ٹولی میں بھی تھا لیکن ۷۴۹۱ءمیں ہم لوگ لکھنو آگئے میں نے بی اے میں داخلہ لیا۔ چونکہ مسلم لیگ کے اعلیٰ کارکن مجھ سے واقف تھے اس لئے مجھے تنویر میں کام کرنے کا موقع مل گیا میں یونیورسٹی جاتا تھا مگر باقی وقت تنویر کے شعبہ ادارت میں مصروف رہتا تھا۔ بیگم زاہدہ خلیق الزماں ہمارے والد کے قدر دانوں میں تھیں۔ اس لئے طالب علم ہونے کے باوجود مجھے اخباری کام کرنے کا موقع ملنے میں کچھ زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ چونکہ تنویر صوبے کا واحد پاکستان دوست روزنامہ تھا اور کل ہند مسلم لیگ کے حلقوں میںاس کی پہونچ تھی۔ اس لئے اس کی ساکھ اور دھونس بہت تھی اور بڑے اچھے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اور پڑھے لکھے حضرات اس کے شعبہ ادارت میں تھے۔ ان میں کئی حضرات نے مجھ ایسے طالب علم کو دیکھ کر خاصی ناک بھوں چڑھائی۔ ان جہاندیدہ اور تجربہ کار صحافیوں کے لئے یہ بات خاصی ناراضگی کا سبب تھی کہ ایک معمولی طالب علم ان کا برابر کا رفیق کار ہے۔ اس دبی دبی سی ناراضگی اور مخالفت کی فضا میںایک صاحب نے جو ہمارے والد مرحوم سے واقف تھے آگے بڑھ کر مجھے اپنایا اور باقاعدہ اپنے حلقہ احباب میں شامل کر لیا۔ ان صاحب کے نام خلیق ابراہیم خلیق تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد حالات اور بھی دگر گوں ہوگئے۔ مغربی یوپی ،دہلی اور مشرقی پنجاب میں عام فسادات نے زندگی اتھل پتھل کردی۔ گاندھی کے قتل سے حالات مسلمانوں کے لئے اور بھی ناموافق ہوگئے اور مسلمان بڑی تعداد میں گھر بار چھوڑ کر پاکستان جانے لگے۔ دلی کے تقریباً تمام اردو رسائل اور اخبارات پاکستان منتقل ہوگئے لکھنو میں تنویر جمارہا لیکن خلیق الزماں اور ان کے ساتھیوں کے ترک وطن سے اخبار کی حالت بہت سقیم ہوگئی اور موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے پاکستان دشمن مولویوں کی ایک ٹولی نے خرید لیا ۔ نئے مالکوں کو جو گاندھی اور نہرو کو مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے تھے اور مولانا آزاد کا کلمہ پڑھتے تھے اخبار چلانے یا صحافت کا ذرا بھی تجربہ نہ تھا۔ یہ لوگ کسی چنگی کے محکمے میں منشی گیری یا ڈاک خانوں کے سامنے بیٹھ کر عرضی نویسی بھی کرنے کے اہل نہ تھے اس بات کا اندازہ لگانے کےلئے یہی کافی ہے کہ ایک ملا جی ماہانہ چندے کو ماہواری کہتے تھے۔ حالات بد سے بد تر ہوتے گئے اور خلیق ابراہیم صاحب کا ایک ذمہ دار عہدے پر رہنا ناممکن ہوگیا۔ وہ مجبوراً اخبار سے الگ ہوگئے۔ تھوڑی ہی مدت بعد ہم لوگوں کو بھی بہت ڈھٹائی سے جھوٹے الزامات لگاکر الگ کر دیا گیا۔ چونکہ ہم لوگ مسلم لیگی رہے تھے اس لئے صحافیوں کی یونین نے جو اخباری ملازمین کی صلاح و فلاح کا دم بھرتی ہے ہمارے معاملے میں کسی طرح کا احتجاج نہ کیا۔ تنویر کے نالائق مالکوں کا خیال تھا کہ نیم خواندہ ملا اور پاکستان کے ازلی دشمن اخبار کو چلالیں گے مگر مرغی پالنے والوں سے ہاتھی کیا سنبھلتا اخبار نے سسک سسک کر دم توڑ دیا خیر ہم سے کیا مطلب بقول شاعر بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا اس کی بلا سے بوم رہے یا ہما رہے بس قابل ذکر بات یہی ہے کہ تنویر کے زمانہ ادارت میں خلیق ابراہیم صاحب سے جو مراسم قائم ہوئے وہ اب تک الحمد للہ قائم ہیں۔ میںزندگی کے مختلف حوادث سے دوچار ہوتا ہوا مشرقی پاکستان چلاگیا۔ جہاں میں نے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ (لکھنو میں میں نے صرف بی اے پاس کیا تھا)اس کے ساتھ مختلف ملازمتیں بھی کرتا رہا۔ تھوڑے دنوں بعد مجھے ایجوکیشن سروس میں لے لیا گیااور اس میں سرکاری (خاص طور پر فوجی)اسکولوں اور کالجوں میں افسرمدرس کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہاں کی چھاﺅنی کے تمام سرکاری ملازمین کو ہندوستانی جنگی قیدی بنا لیا گیا اور میں بھی مع بیوی بچوں کے تقریباً دو سال تک مختلف جنگی قیدی کیمپوں میںاذیتیں اور ذلتیں سہتا رہا۔ (یہ داستان اتنی دلخراش ہے کہ میری ہمت نہ ہوسکی کہ قلم بند کرسکتا) جب میں رہا ہوکر پاکستان پہونچا تو کوئٹہ کے فیڈرل گورنمنٹ کالج میں پرنسپل ہوگیا۔ ان تقریباً پانچ برسوں میں خلیق صاحب سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ والد مرحوم کے خطوط سے علم ہوا کہ خلیق صاحب بمبئی میں جدوجہد کررہے تھے مگر ذاتی مجبوریوں کی بنا پر مع والدین و بھائی بہنوں کے پاکستان ہجرت کرگئے ہیں۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہوکر بہت خوشی ہوئی مگر اس بازیابی کے دور میں بھی ایسے زمانے گزر گئے جب ہم ایک دوسرے سے بے خبر رہے۔ اسی کے ساتھ ایسے دن بھی آئے جب ہم نے ایک دوسرے کی میزبانی کا لطف بھی اٹھایا۔ ڈھاکہ میںدو ایک بار خلیق صاحب کاآنا ہوا تب تک ہمیںبہت سی باتیں یادتھیں اور ہم لکھنو کے شب و روز کے تذکرے کرتے تھے لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد عام ذہنوں پرجواثرات ہوئے ان سب کا زیادہ مضر اثر ان لوگوں پر پڑا جو جنگی قیدی رہے تھے۔ ان دو برسوں نے ہم سب کا حافظہ اس طرح متاثر کیاکہ معمولی معمولی باتیں تو کیا اس دور کے اہم واقعات بھی ٹھیک سے یاد نہیں رہ گئے ہیں۔ آج پچاس ساٹھ برس کی مدت گزر جانے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اس تمام مدت میں ہم دونوں کے تعلقات کی عام نوعیت کیا رہی؟ ”تنویر“ میں خلیق صاحب مجھ سے سینئر تھے عمر میں بھی اور تعلیم میں بھی۔ اس کے علاوہ ۹۴۔۸۴۹۱ءکے زمانے میں بھی وہ ایک باقاعدہ معروف اور جانے پہچانے ادیب و شاعر تھے۔ جب ہم دونوں نے ایک ہی ساتھ اپنے معیاروں آدرشوںاور ترجیحات کی شکست و ریخت دیکھی بے روزگاری جھیلی مفلسی کے عبرت ناک ادوار سے گزرے پریشانیوں میں پھنسے اور اپنوں اور غیروں کے لعن طعن سہے تو فطری طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے۔ ہمارے اعزہ کی نظر میں خلیق صاحب کاان کے رفیقوں اور ساتھیوں کا اور خود میرا بھی سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ ہم زندگی کو حقیقت پسند ترقی پسند اور بین الاقوامی سطح پر سماج واد اور کمیونزم کے نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ گویا ایک طرح سے خاندان کی ناک کٹوانے کے برابر تھا، (ان دنوں کمیونسٹ ہونا ثقہ بزرگوں کی نظر میںایسا مکروہ فعل تھا جیسے کسی شریف خاندان کامیاں پوت آوارہ و مجنوں ہوجائے)۔ ہر چند کہ ہم دونوں میں کوئی نظریاتی ادبی علمی یا سماجی اختلاف نہیں تھا مگر پھر بھی یہ لکھتے ہوئے قلم کا نپتا ہے کہ انقلابی و سیاسی عقائد رکھنے کے باوجود ہم دونوں ہی سرکاری ملازمت کرنے پر مجبور ہوئے اور اسی سے سبکدوش ہوئے پھر بھی ہماری تالیف قلب بعض نمایاں ادبی اشخاص کے مقابلے میںزیادہ قابل ملامت نہیں ٹھہرائی جاسکتی ہے۔

اقبال کا مرد مومن از ڈاکٹر سلیم اختر

قبال کے افکار میں ”مرد مومن“ یا ”انسان کامل“کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ اس کے لئے وہ ” مرد حق“ ”بندہ آفاقی“ ”بندہ مومن“ ”مرد خدا“ اور اس قسم کی بہت سی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں حقیقتاً یہ ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں جو اقبال کے تصور خودی کا مثالی پیکر ہے۔ نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں اور عالم تم ، وہم و طلسم و مجاز عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب وکار آفریں ، کار کشا ، کارساز کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں غرض یہ مثالی ہستی اقبال کو اتنی محبوب ہے کہ باربار اس کا ذکر کرتے ہیں اس سلسلہ میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان میں سے اہم یہ ہیں کہ اقبال نے مرد مومن کے تصور کو کہاں سے اخذ کیا ہے؟ ان کے مرد مومن کی صفات کیا ہیں؟ ان کا یہ تصور محض تخیلی ہے یا کوئی حقیقی شخصیت ان کے لئے مثال بنی ہے۔ ان سوالات کا جوابات ان کے کلام کے گہر ے مطالعے کے بعد دیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں مختلف آرا ءملتی ہیں کہ اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیاہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام مختلف اور متضاد آراءکے پیش نظر ضروری ہے کہ مرد مومن کے متعلق بات کرنے سے قبل ان افکار کا جائزہ لیا جائے جو مشرق اور مغرب میں اقبال سے قبل اس سلسلہ میں موجود تھے۔ اور اقبال نے ان سے کس حد تک استفادہ کیا اس کا انداز ہ بھی ہم بخوبی لگا سکیں گے۔ مسلمان مفکرین نے بھی انسانِ کامل کے تصور اور اس کے روحانی ارتقاءکے بارے میں بحث کی ہے۔ ”بعض لوگ اس قدر سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے ہوتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ گویا یہ لوگ غیب کی باتوں کو ایک باریک پردہ کی آڑ سے دیکھ لیتے ہیں۔ جب انسان اس بلند درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ ملائکہ کی سرحد میں داخل ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسی شخصیت عالم وجود میں آجاتی ہے جو انسانی شخصیت سے بلند ہوتی ہے اور اس میں اور فرشتوں میں بہت تھوڑا فرق رہ جاتا ہے۔ ”انسان کامل یا مرد مومن کی زندگی، جو آئین الہٰی کے مطابق ہوتی ہے ، فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیاءکی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہو جاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کامل غرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ ، اس کا کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ انسانِ ربانی کی پیدائش ہے۔“ ”عبدالکریم الجیلی“ نیٹشے مشہور جرمن فلسفی ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر انسان کے تصور کو پیش کیا ہے۔ نیٹشے اوائل عمری میں خدا کا منکر تھا۔ بعد میں اسے ایسے انسان کی تلاش کی لگن ہوگئی جو سپر مین ، فوق البشر یا مرد برتر کہلا سکے۔اس بارے میں وہ کہتا ہے۔ ” فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔ نیٹشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوس نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت و برداخت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کے لئے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے اور وہ اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے اور اس کے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔بقول پروفیسر عزیز احمد ”نیٹشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں۔ قوت فراست اور تکبر“ اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔ اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی رو میں ہے ساری خدائی بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ” اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نےابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اس کی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازوکا نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزﺅں کو پورا کرنے کے لئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔ وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جد ا کرتا ہے اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق سید وقار عظیم اپنی کتاب ”اقبال شاعر اور فلسفی“ میں اس بارے میں لکھتے ہیں، " اقبال نے اس اندرونی کیفیت ، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے اور اسے خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاءمیں سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔" مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام اقبال جسے ”مستی کردار “کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسر ا نام ہے ان کے ہاں پیہم عمل اور مسلسل جدوجہد کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر نہیں عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے یقین ِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں مردمومن کی ذات میں جمالی اور جلالی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جد ا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل ہوتی ہے۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری و دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک دل درد آشنا ہوتاہے۔جوبے غرض ، بے لوث ، پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔ اسی لئے ابنائے زمانہ کے حق میں اس کا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتاہے۔ اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل پاک باز وہ رزم گاہ ِ حیات میں شمشیر بے نیام ہوتا ہے تو شبستان محبت میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ نرم نہیں ہو سکتا۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن مرد مومن جرات مند ، بے خوف اور حق گو ہوتا ہے۔ اسے نہ جابر و قاہر انسان خوفزدہ کر سکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتا ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلہ میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انہیں پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اور پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتا ہے۔ جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان مردِ مومن کا ایک امتیازی وصف فقر و استغنا ہے۔ وہ نیٹشے کے مرد برتر کی طرح تکبر و غرور کا مجسم نہیں بلکہ اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسلام کو ”فقر غیور“ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ درویشی، فقر اور قلندری پر اقبال نے بار بار زور دیا ہے اور اسے تکمیل ِ خودی کے لئے لازمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی ہے۔ ان کے ہاں فقر کا کیا درجہ ہے اور مرد مومن کی زندگی میں اس کا کیا مقام ہے اس کا اندازہ مندرجہ زیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔ نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی فقر ارتقائے خودی سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کامل کے فقر اور فقر کافر(رہبانیت) میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ کیوں نہ ہو۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے علاوہ اقبال کے مرد مومن میں عدل ، حیا ، خوفِ خدا، قلب سلیم ، قوت ، صدق ، قدوسی ، جبروت ، بلند پروازی ، پاک ضمیری ، نیکی ، پاکبازی وغیر ہ شامل ہیں۔قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ سمر قند یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن! قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان ، قیامت میں بھی میزان اور ان تمام صفات کا حامل انسان وہ ہے جو حاصل کائنات اور مقصود کائنات ہے۔انسان کامل یا مرد مومن کے لئے اسلامی معیار ہمارے سامنے ہیں اس کے علاوہ مشرقی اور مغربی مفکرین کے ہاں انسان کامل کا جو تصور ملتا ہے۔ ان سے اقبال کے مرد مومن کا کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کو اپنے لئے معیار بنایا ہے۔ مرد مومن اور سچے مسلمان کے لئے اسلام نے جو معیار مقرر کیا ہے بنیادی طور پر اقبال نے اسی کو اپنا یا ہے۔جبکہ مسلمان مفکرین میں عبدالکریم الجیلی کے افکار سے اقبال نے اثر قبول کیاہے۔ جیلی نے انسان کامل کے روحانی ارتقائکے تین مراحل مقرر کئے ہیں۔ اقبال نے بھی تربیت خودی کے تین مراحل رکھے ہیں۔جہاں تک نیٹشے کا تعلق ہے تو یہ رائے درست نہیں کہ اقبال نے اپنے مردمومن کا تصور نیٹشے کے مرد برتر سے اخذ کیا ہے۔ اقبال کا انسان کامل اخلاق فاضلہ کا نمونہ ہے اور اپنی زندگی میں اعلیٰ قدروں کی تخلیق کرتا ہے۔ برخلاف اس کے نیٹشے کا فوق البشر کسی اخلاق کا قائل نہیں ، خیر و شر کو وہ محض اضافی حیثیت دیتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ وہ منکر خداہے اور اس کے ہاں فوق البشر کے لئے بھی خدا کا کوئی تصور نہیں اس کا قول ہے کہ ”خدا مرگیا “ تاکہ فوق البشر زندہ رہے۔ مندرجہ بالا تمام تفصیلی بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال انسان کامل کے تمام مشرقی و مغربی تصورات سے واقف ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن ان کے مرد مومن کی صفات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے اس تصور کی بنیاد صرف اسلامی تعلیمات پر ہی رکھی۔ ان کی تصور خودی میں فرد کے لئے مردمومن بننا اور جماعت کے لئے ملت اسلامیہ کے ڈھانچہ میں ڈھلنا ایک اعلیٰ نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تصور محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے کےونکہ اسلام کے عروج کے زمانہ میں ایسی ہستیاں موجود رہی ہیں۔اب یہ بات بلا خوف کہی جا سکتی ہے کہ اقبال کا انسان کامل، مسلمان صوفیاءکے انسان کامل اور نیٹشے کے مرد برتر سے مختلف ہے اور اپنی مخصوص شخصیت ، منفرد کردار ، نرالی آن بان کے باعث وہ دوسروں کے پیش کردہ تصورات کی نسبت زیاد ہ جاندار ، متوازن ، حقیقی اور قابل ِ عمل کردار ہے۔

مولانا حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری از ڈاکٹر شفیق اعظمی

مولانا حسرت موہانی بڑی ہمہ گیر اور رنگا رنگ شخصیت کے مالک تھے وہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی، سیاسی مفکر بھی تھے اور ایک باغی انسان بھی۔ انہوں نے قطعات بھی کہے ہیں او ررباعی بھی، سیاسی نظمیں بھی لکھی ہیںاور عشقیہ غزلیں بھی، لیکن میرے خیال میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی عشقیہ شاعری کی ہے۔ حسرت کی عشقیہ شاعری ماﺅرائی نہیں بلکہ ارضی ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو جھوٹی دربار داری اور روایتی باتوں سے پاک کیا اور اسے حقیقت اور فطرت کا آئینہ بنایا۔ ساتھ ہی اسے عشق و محبت کی ہر ادا سے آشنا کیا۔ ان کا محبوب کوئی تخیلی معشوق نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے کا فرد ہے، جس میں آپ اور ہم سانس لے رہے ہیں اور وہ اس وقت کے بعض شعرا کے محبوب کی طرح کوئی نو خیز لڑکا بھی نہیں ہے بلکہ ان کے من مندر میں رہنے والا محبوب صنف نازک سے تعلق رکھنے والی کوئی لالہ رخ لڑکی ہے۔ حسرت کی عشقیہ شاعری اس اعتبار سے بھی دوسرے شاعروں سے مختلف ہے کہ ان کے یہاں یاسیت فراریت اور قنوطیت نہیں پائی جاتی، اس کے بر عکس ان کی غزلوں میں، شگفتگی ،رعنائی اور صحت بخش رجائیت ملتی ہے۔ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری ایک ایسی جھیل کی مانند ہے جس میں خوشی اور مسرت کے ان گنت پھول کھلے نظر آتے ہیں اس میں جذبات کی اصلیت اور احساسات کی صداقت کا پر تو نظر آتا ہے۔ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری میں جو بھی عناصر ملتے ہیں ان کا تعلق ہمارے سماج سے ہے اور یہی اردو شاعری کو حسرت کی دین ہے اس بات کا سراغ بھی ملتا ہے کہ حسرت کو اوائل عمری ہی میں عشق ہوگیا تھا انہوں نے حسن کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور اس کی ہر ہر سحر کاری کے شکار ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جو تغزل ملتاہے عشق کی جو سرمستی پائی جاتی ہے وہ تخیلی یا تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی دنیا سے تعلق رکھتا تھا اس لئے ان کے تغزل میں نسوانی حسن اپنی تمام تر دلربائیوں کے ساتھ موجود ہے اور عشق و محبت اپنی تمام تر نزاکت و لطافت کے ساتھ ایک ایک شعر میں رچی بسی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں کیا ہو یہ آج پوچھیں گے اس نازنیں سے ہم تجھ ساکہیں جو ڈھونڈ نکالیں کہیں سے ہم حسن بے پردہ کو خود بیں و خود آرا کر دیا کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا میں تو سمجھا تھا قیامت ہوگئی خیر پھر صاحب سلامت ہوگئی عشق نے ان کے سکھادی شاعری اب تو اچھی فکر حسرت ہوگئی نہ ہوگی شفا چارہ گر دیکھ لینا نہ جائے گا درد جگر دیکھ لینا نہ بھولے گا وہ وقت رخصت کسی کا مجھے مڑ کے پھر اک نظر دیکھ لینا چونکہ ان کا عشق حقیقی اور گھریلو قسم کا تھا اس لئے ان کی شاعری میںواقعیت بھی پائی جاتی ہے ان کی شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ واقعیت پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہوجانا مرا اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً اور دو پٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لئے وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاﺅں آنا یاد ہے ان کی غزل کو ہم رسمی یا تخیلی ہرگز نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں حقیقت کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔انہیںاپنی خالہ زاد بہن نسیمة النسا سے عشق ہوگیا تھا اور ان کی شادی بھی ماموں زاد بہن سے ہوئی تھی اس لئے یہ قیاس کیا جاتاہے کہ یہ غزل انہیں دونوں خاتون میں سے ایک کی مرہون منت ہے۔ پوری کی پوری غزل حسرت کی حیات معاشقہ کی غماز نظر آتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دوپہر کی دھوپ میں کوٹھے پر عاشق کو بلانے کے لئے آنا وہ بھی ننگے پاﺅں نہایت ہی فطری ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں پیکریت بھی جگہ جگہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملتی ہے۔ جو خاصے کی چیز ہے یہاں پر بطور مثال کچھ اشعار پیش کرنا بے محل نہ ہوگا بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دباکر چھوڑا سر کہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پاﺅں کہیں ان کا سونا بھی کس شان کاسونا دیکھو کھول کر بال جو سوتے ہیں وہ شب کو حسرت گھیر لیتی ہیں انہیں زلف معنبر کیاخوب غصے سے ادائے ناز ان کی گرمی میں ہے لطف چاندنی کا نہ چھیڑ دیکھ انہیں محوخواب رہنے دے خدا کے واسطے یہ اضطراب رہنے دے اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام چونکہ ان کا محبوب ارضی ہے اس لئے محبوب کے مختلف اعضائے جسمانی اور مختلف قسم کے بناﺅ سنگار کا ذکر کرنا ناگزیر تھا۔ انہوں نے اپنے محبوب کے ایک ایک عضو کی خوبصورتی کو بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں بڑی رعنائی پیداہوگئی ہے۔ کہتے ہیں دل خون ہوئے جاتے ہیں ارباب نظر کے رکھتی ہے قیامت کا تری سرخی لب رنگ چاند کی رات میں پھولوں کا یہ زیور کیا خوب رنگ لائے گا ترا حسن معطر کیا خوب کہیں کہیں معاملہ بندی کے اشعار بھی ملتے ہیں گستاخ دستیوں کا نہ تھا مجھ میں حوصلہ لیکن ہجوم شوق نے مجبور کر دیا عشق و محبت میں کبھی کبھی بد گمانیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال بھی ان کی شاعری میںموجود ہے۔ توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہوجائےے بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائےے رات کو جب محبوب کی یاد ستاتی ہے تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں شب کا یہ حال ہے کہ تری یاد کے سوا دل کو کسی خیال سے راحت نہیں ہوتی مایوس ہوچلا تھا تسلی سے حال دل پھرتونے یاد آکے بدستور کردیا ان کے اشعار میں نفسیاتی جھلکیاں بھی جگہ جگہ ملتی ہیں مثال کے طور پر دو شعر کافی ہوں گے۔ آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے مائل شوق مجھے پاکے وہ بولے ہنس کر دیکھو تم نے جو چھوئے آج ہمارے گیسو غرضیکہ حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری میں جو دلکشی اور رعنائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محبوب سے قربت اور اپنائیت کاجو احساس حسرت کے یہاں ملتا ہے وہ کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ہے۔

پروین شاکر از زرقا مفتی


۴۲نومبر کو پروین شاکر کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے اردو شاعری میںان کے کلام کو ایک خاص انفرادیت حاصل ہے۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعدنسائی شاعری ایک نئی شناخت کے ساتھ اردو کے ادبی منظر نامے پر جلوہ افروز ہوئی۔ پروین شاکر ہمیں اس منظر نامے پر ماہِ تمام کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی پروین کی شاعری ادبی رسالوں کے ذریعے اپنے مداح پیدا کر چکی تھی۔ خوشبو کی اشاعت کے ساتھ ہی پروین شاکر کا شمار صفِ اول کی شاعرات میں ہونے لگاتھا۔خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنے خوبصورت اور بے باک انداز سے قلمبند نہیں کیا تھا۔ ان کی کچھ مختصر نظمیں پیش ہیں: واہمہ تمھارا کہنا ہے تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو تمھاری چاہت وصال کی آخری حدوں تک مرے فقط میرے نام ہوگی مجھے یقین ہے مجھے یقین ہے مگر قسم کھانے والے لڑکے تمھاری آنکھوں میں ایک تل ہے! چاند ایک سے مسافر ہیں ایک سا مقدر ہے میں زمین پر تنہا اور وہ آسمانوں میں ! کشف ہونٹ بے بات ہنسے زلف بے وجہ کھلی خواب دکھلا کہ مجھے نیند کس سمت چلی خوشبو لہرائی میرے کان میں سرگوشی کی اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی اور پھر جان گئی میری آنکھوں میں تیرے نام کا تارا چمکا !!! کانچ کی سرخ چوڑی میرے ہاتھ میں آج ایسے کھنکنے لگی جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی ترے ہاتھوں کی شوخیوں کو ہواوں نے سَر دے دیا ہو۔۔۔ پروین شاکر کی شاعری اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی پروین نے ضمیر متکلم (صنف نازک) کا استعمال کیا جو اردو شاعری میں بہت کم کسی دوسری شاعرہ نے کیا ہو گا پروین نے اپنی شاعری میں محبت کے صنف نازک کے تناظر کو اجاگر کیا اور مختلف سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا نقاد ان کی شاعری کا موازنہ فروغ فرخزاد ( ایک ایرانی شاعرہ ) کی شاعری سے کرتے ہیں۔پروین کی غزلیات کا مو ضوع محبت ہے۔ ان کی نظموں کی طرح غزلیں بھی انفرادی رنگ میں ہیں۔الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کرسادہ الفاظ میں انہوں نے نسائی انا، خواہش ، انکار کو شعر کا روپ دیا ہے۔ ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں میں اس کی دسترس میں ہوںمگر وہ مجھے میری رضا سے مانگتا ہے اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں اسی بغاوت کی پاداش میں شاید اپنے شوہر سے ان کی علیحدگی ہو گئی اور خاندان نے ان سے ترکِ تعلق کر لیا۔ پروین زخموں کو پھول بنانا جانتی تھیں۔ میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں بے ردائی کو ہماری دے گیا تشہیر کون کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماوں گی میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاوں گی سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آوں گی عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی وہ خوبصورت الفاظ سے اپنے جذبات کی تصویر کشی کرتی تھیں۔پروین کے بقول محبت جب نفس پر قابو پا لیتی ہے تو وجدان میں بدل جاتی ہے اور خوبصورتی نزاکت کی انتہا پر خوشبو میں بدل جاتی ہے۔ پروین کی شاعری بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیل چکی ہے۔دلوں میں اتر گئی ہے اور اپنی شبنمی نزاکت سے روح کو تھپکتی ہے۔ حسن کو سمجھنے کو عمر چاہیے ، جاناں! دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حِنائی ہو! محبت کی خوشبو کو اپنے شعروں میں سمونے والی شاعرہ جب اداس ہو تی ہے تو کچھ اس طرح بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گر ہستی کی اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم آباد سے بھی ظلم کی طرح اذیت میں ہے جس طرح حیات ایسا لگتا ہے کہ اب حشر ہے کچھ دیر کی بات روز اک دوست کے مرنے کی خبر آتی ہے روز اک قتل پہ جس طرح کہ مامور ہے رات چارہ گر ہار گیا ہو جیسے اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے خود کو خوشبو میں سمو کر دیکھوں اس کو بینائی کے اندر دیکھوں عمر بھر دیکھوں کہ پل بھر دیکھوں کس کی نیندوں کے چرا لائی رنگ موجہ زلف کو چھوکر دیکھوں زرد برگد کے اکیلے پن میں اپنی تنہائی کے منظر دیکھوں موت کا ذائقہ لکھنے کے لیے چند لمحوں کو ذرا مَر دیکھوں۔

اُردو ادب میں احتشام حسین کا مقام از پروفیسر اسد علی خاں

حتشام حسین ایک ہمہ جہت دانشور تھے۔ اردو ادب میںان کے کئی حوالے ہیں۔ انہوںنے شاعری بھی کی ہے۔ افسانے بھی لکھے، سیاحت نگاری میںایک نئے اسلوب کو روشناس کرایا، لسانیت پر بھی توجہ دی۔ تبصرے بھی کئے اور مقدمہ نگاری بھی کی۔ ترجمے بھی کئے اور ادبی موضوعات پر تقریریں بھی کیں۔ ان کا کوئی حوالہ کم معیار یا غیر معتبر نہیں ہے۔ تاہم اردو میںان کا معتبر ترین حوالہ تنقید ہے۔ اور وہ نقاد کے طور پر یہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ احتشام حسین کا اردو میں کیا مقام ہے؟ اس مقصد کے لئے ہمیں تین بنیادی باتوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ ۱۔ احتشام حسین کی تنقید ،ان سے پہلے کی تنقید اور ان کے ہم عصروں کی تنقید سے کس طرح مختلف ہے؟ کون سی چیزیں ہیں جو ان کی تنقید کو انفرادیت بخشتی ہیں اور ہم عصر تنقید سے بھی ممتاز کرتی ہیں؟ ۲۔ کیا ان کی تنقید نے اردو ادب و تنقید پر کوئی دور رس نتائج مرتب کئے؟ ۳۔ دوسرے دانشوروں اور نقادوں کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہیں تین امور کا جائزہ لینے کے بعد ہم احتشام حسین کااردو ادب میں مقام متعین کر سکتے ہیں۔ احتشام حسین نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور شاعری بھی کی۔ مگر جلد ہی اپنی پوری توجہ تنقید کو دینے لگے۔ ایک عامیانہ خیال یہ ہے کہ تنقید کا راستہ وہی اختیار کرتا ہے جو تخلیق کے میدان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ لیکن احتشام حسین پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان کے انتہائی ابتدائی دور کے افسانوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار بننے کی راہ پر گامزن تھے اور یہی راستہ اختیار کرتے تو ان کا شمار منفرد افسانہ نگاروں میں ہوتا۔ انہوں نے جو شاعری کی اس میںانسانی دکھ اور عوامی مصائب کی پر چھائیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے تنقید کی طرف مائل ہونے کی ایک وجہ تو خود یہ بتائی کہ وہ اپنے طلبا پر صرف اپنے ہی خیالات ٹھونسنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ انہیں ادب و تنقید کے شعبوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے تنقید کاسنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر اسی پر پوری توجہ دینے لگے،احتشام حسین کے مزاج میں عجز و انکساری ہے وہ اپنے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں اس لئے ان کے اندر جھانکنا یاان کے ذہن کو صحیح طور پر پڑھنا بڑا کٹھن کام ہے تاہم ان کے بعض خطوط اور سیاحت نامے میںایسے اشارے مل جاتے ہیں جن سے ان کی انسان دوستی نرم دلی اور خلوص کے پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ احتشام حسین انسانوں کے دکھوں کو کم کرنے کے خواہش مندتھے کیونکہ وہ خود بھی دکھی تھے۔ تخلیقی عمل سے معاشرے کی بے انصافیوں اور انسانوں کے دکھوں کی عکاسی تو کی جاسکتی ہے مگر اس طرح معاشرے کو تبدیل کرنے کاعمل بہت سست ہوتا ہے۔ احتشام حسین کو اپنا تنقیدی عمل، تخلیقی عمل سے زیادہ پر اثر نظر آیا ہوگا کہ اس طرح براہ راست بات کی جاسکتی ہے اور خوبیوں اور برائیوں کوظاہر کیاجاسکتا ہے ان کا تنقید نگاری کی طرف آنا ایک شعوری کوشش ہے یہاں اس بات کاذکر بے محل نہ ہوگا کہ کارل مارکس نے جوانی کی ایک خاص حد تک شعر و شاعری کی رقص و موسیقی سے رغبت رکھا لیکن جب انسانی علوم نے اس کے دل و دماغ کو روشن کیا تو اس نے نہ صرف سب کچھ چھوڑ دیا بلکہ اپنی شاعری کو نذر آتش کردیا تھا۔ اب ایک اور سوال پیداہوتا ہے کہ احتشام حسین نے مارکسی تنقید کی طرف ہی کیوں توجہ دی؟ اس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ تنقید کا مطالعہ احتشام حسین نے اس وقت شروع کیا جب ترقی پسند ادب کی شروعات تھی اور جو تخلیقات ترقی پسند ادب کے تحت وجود میں آئیں وہی احتشام حسین کی تنقیدی تحریروں کا بطور خاص محور بنیں۔ نسختاً انہیں اصولوں کی بھی تلاش ہوئی جو ترقی پسند ادب کو ادبی ضابطوں کے تحت پیش کر سکیں اس لئے انہوں نے سب سے پہلے ادب کے نظریاتی مباحث اور خصوصاً ترقی پسند ادب کے نظریات کا مطالعہ کرنے اور ترقی پسند نظریہ کے اصولوں کو منضبط کرنے کی فکر کی۔ اس میں شک نہیں کہ جب احتشام حسین نے تنقید لکھنی شروع کی تب روایتی تنقید جعفر علی خاں اثر کی زبان دانی اختر علی تلہری کی لغت نمائی اور نیاز فتح پوری کے تاثرات تک محدود تھی۔ تاہم احتشام حسین نے جدید اور ترقی یافتہ طریقہ تنقید اختیار کیا ۔ وہ دوراصل میں بین الاقوامی سطح پر علمی ،فکر، سیاسی اور ادبی تبدیلیوں سے پوری طرح آگہی اور ہم آہنگی کادور بن چکا تھا۔ روس کے سوشلسٹ انقلاب نے بر صغیر کی فضا پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے تھے اور یوں عام ادبی فضا انقلاب آفرینی کے آتشیں نغموں سے گونج رہی تھی۔ مروجہ تاثراتی اور رنگین بیانی کے پیمانے غیر تنقیدی رویوں میں شمار ہونے لگے تھے۔ مولانا حالی نے جس تنقیدی رویے کی بنیاد مقدمہ شعر و شاعری میں رکھی تھی اس میں سماجی شعور تھا مگر بعد میں رومانوی وفور اور تاثراتی انداز تنقید میں نمایاں ہوتا گیا۔ لیکن ۰۳۹۱ءکے لگ بھگ تبدیل شدہ حالات فکر و تخلیق کے بدلے ہوئے انداز اور سماجی علوم کی نئی جہت کے زیر اثر مولانا حالی کے تنقیدی انداز کی اہمیت پھر سے محسوس ہونے لگی اور ادب کو سماج کے پس منظر میں دیکھنے اور پرکھنے کے نئے ڈھنگ نے مقدمہ شعر و شاعری میں ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کی فضا سازگار کرنی شروع کی۔ احتشام حسین کا ذہن عقلیت پسند تھا اور جذباتی حیثیت سے ان کی زندگی کا محور انسان دوستی تھا۔ ان دونوں باتوں نے ان کو مارکسی تنقید کو قبول کرنے پر آمادہ کیا لیکن احتشام حسین کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عقلی دیانت، اپنے ذہنی توازن اور انفرادی قوت امتیاز کو زندہ رکھا اور مارکسی کے فلسفے کو انہوں نے نہ تو آنکھ بند کرکے قبول کیا نہ عام ترقی پسند نقادوں کی طرح انہوں نے جہاں جہاں ضرورت ہوئی مارکسی تنقید کی خامیوں کی نشاندہی کی اور جہاں تک ممکن ہوسکا انہوں نے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ۔مثلاً وہ ایسے مارکسی نقادوں کی تائید نہیں کرتے جو معاشی ارتقا سے میکانکی طور پر ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنے والے اور تاریخی جبریت کے اصول پر ادیب کو اس کی سماجی ذمہ داری سے معذور قرار دیتے ہیں۔ احتشام حسین ادیب کو ایک باشعور اور فاعل مختار انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اس سے یہ امید کرتے ہیں کہ انسانی سماج کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں وہ بھر پور حصہ لے۔ اس طرح وہ ادیب کو جدوجہد کرتی ہوئی انسانیت کاایک رکن سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی بھلائی میںہی ادیب کی بھلائی بھی ہے۔ مزید بر آں عام تنگ نظر مارکسی نقادوں کی طرح احتشام حسین ہر دور کی ادبی تخلیقات کو جامد اصولوں سے ناپ کر ان کی قدر و قیمت متعین کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ ہر دور کے ادیب کا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے مخصوص حالات کے مطابق اپنے رویہ کا تعین کرے۔ ادب کی تخلیق میںاگر معاشرے اور سماج کا دخل ہے تو وہ کسی ایک بندھے ٹکے اصول کا پابند نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ تاریخ کے دھارے کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سماج کے اصول بھی تو بدلتے رہتے ہیں احتشام حسین مارکسی تنقیدکی خوبیوں اور خامیوں پرگہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے تنقیدی عمل میں دیانتداری کے ساتھ اپنی متوازن رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔ احتشام حسین نے جب تنقید نگاری شروع کی تو اس وقت کی ادبی فضا میں بحران کی سی کیفیت تھی۔ ایسے دور ذمہ داری کے ساتھ ادب اور شاعری شاعری کو صحیح معنوں میں عوامی کردار ادا کرنے کے خطوط پر ڈھالنے کی تنقیدی و علمی کوشش کی ذمہ داری قبول کرنا اور اسے واقعتاً آخری دم تک نبھانا کس درجہ کا کٹھن کام ہوسکتا ہے۔ اس کااندازہ احتشام حسین کے ابتدائی دس پندرہ برس کے تنقیدی مضامین پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جس انہماک علمی گہرائی اور گیرائی سے مارکسی اصولوں کی سوجھ بوجھ اور ان کی روشنی میں متذکرہ بالا نوع کی الجھی ہوئی ادبی صورت حال کو جذباتیت اور اندھی تقلیدی روش کی بھول بھلیوں سے نکال کر سماجی ذمہ داری سنبھالنے کی راہ پر ڈالا وہ فی الواقعہ کسی اکیلے فرد کا نہیں ایک پورے ادارے کا کام تھا۔

اُردو ادب میں احتشام حسین کا مقام از پروفیسر اسد علی خاں

کلیم الدین احمد کو اردو کے اہم نقادوں میں سے ہیں اور قدماءکے بارے میں ان کا لہجہ متین اور سنجیدہ ہے لیکن دور حاضر کے بعض ادیبوں پر رائے زنی کرتے ہوئے ان کے انداز میں پھکڑ پن پیداہوگیا ہے۔ تاہم ”جہاں تک احتشام حسین کی نقادانہ شخصیت کا تعلق ہے وہ اپنی نظریاتی بساط پر اتنی مضبوط ہے کہ اس پر ایسے جھونکوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔“ نظریاتی اعتبار سے کلیم الدین احمد ترقی پسند تحریک کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ترقی پسند شاعری ادب و تنقید میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور مجنوں گورکھپوری کے بارے میں بھی ان کا رویہ اچھا نہیںرہا اور احتشام حسین کے معاملے میں تو وہ حد سے بڑھ گئے۔ اس طرح ان کے ایسے غیر ذمہ دارانہ اعتراضات کی حیثیت بہت گھٹ کر محض نکتہ چینی کی سی رہ گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد المغنی نے احتشام حسین پر یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ ادیب و شاعر سے عمرانی اور معاشی شعور اور عمل کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کہیں کسی ادیب یا شاعر میں شعور کی کمی ہو تو: ”اس کو ایک نقص کی طرح نمایاں کرتے ہیں اور اگر کسی ادیب اور شاعر کے یہاں اس شعور کی فراوانی پاتے ہیں تو اس کے ادبی اور فنی نقائص سے بڑی حد تک صرف نظر کرتے ہیں۔ غالب اور اقبال پر ان کے مطالعات اور سردار جعفری اور سجاد ظہیر کے متعلق ان کے تبصرے ان کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔“ غالب اور اقبال کے بارے میں احتشام حسین کے نظریات کا تفصیلی مطالعہ کیا جاچکا ہے۔ جہاں وہ ایک متوازی رائے قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر سب نقاد غالب اور اقبال کے مطالعات میں صرف ان کی خوبیوں کو ہی اجاگر کرتے رہے ہیں تو پھر بار بار ان خوبیوں کو دہرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نیا نقاد ان خوبیوں کو اگر تسلیم نہیں کرتا تو وہ اس کے لئے دلائل پیش کرتا ہے اور جن خامیوں کو دیگر نقاد وں نے نظر انداز کیا ہے ان کی جانب اشارہ کرتا ہے تاکہ صحیح رائے قائم کی جاسکے۔ یہی احتشام حسین نے غالب اور اقبال کے سلسلے میں کیا ہے۔ اگر پرانی باتیں ہی دہرانی ہیں تو پھر نئے مضامین لکھنے اور نئے مطالعے کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے!! جہاں تک سردار جعفری اور دیگر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا تعلق ہے عبد المغنی کا یہ اعتراض بھی درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ احتشام حسین نے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں پر بھی تنقید کی ہے ۔ اس کی تصدیق ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے ایک مطالعے میں بھی کی ہے وہ لکھتے ہیں: ”بحیثیت نقاد نثر نگار احتشام حسین کا کام بہت دشوار تھا ان کے لئے ترقی پسند کے اصل مفہوم کو خود سمجھ لینا یا قطرے میں دجلے کو دیکھ لینا ہی کافی نہ تھا۔ بلکہ دوسروں کو دکھانا اور سمجھانا بھی ضروری تھا۔ احتشام حسین نے یہ مشکل فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔ صرف غیروں کو نہیں اپنوں کو بھی ترقی پسند کے اصول مفہوم اور اس کی غرض و غایت سے آشنا کیا۔ انہیں ان کی بے راہ روی پر ٹوکا راہ راست پر لگایا اور تحریک کی شیرازہ بندی کو بہر حال برقرار رکھا۔ ترقی پسند تحریک کے سب سے بلند قامت شاعر سردار جعفری اور مجروح سلطانپوری کو اگر احتشام حسین بر وقت نہ ٹوکتے رہتے تو ان کی ابتدائی شاعری کا رنگ اور بعد کی شاعری کے بھی بعض اجزا بتاتے ہیں کہ ان کی شاعری محض نو مسلم کا جوش ثابت ہوتی۔ محض نعروں اور مارکسیت و اشتراکیت کے بارے میں نظریاتی پسند کا شکار ہوکر رہ جاتی لیکن احتشام حسین کی تعمیری اور مخلصانہ تنقید نے انہیں بچا لیا۔“ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس سلسلے میں دونوں شاعروں کے ایک ایک شعر کی مثال دیتے ہیں۔ سردار جعفری کا شعر ہاتھ سے میرے، میرا قلم چھین لو اور مجھے ایک بندوق دے دو اور مجروح کی ایک غزل کا مصرع اب بتوں پہ وہ ساعت آپڑی کہ اے مجروح آج زخم سر بہتر دل پہ چوٹ کھانے سے احتشام حسین کی ناقدانہ بصیرت نے ان اشعار کو خام اور ناقص ٹھہرایا۔ ان کے بارے میں انہوں نے واشگاف انداز میں رائے دی کہ کسی شاعر یا ادیب کے لئے فنکاری ترک کرکے میدان جنگ میں چلے جانا اور قلم کو پھینک کربندوق اٹھالینا، خیالی اور رومانی تصور کا نتیجہ ہو تو ہو انقلابی شعور کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ قلم کے مقابلے میں بندوق ایک کمزور ہتھیار ہے اور اسے قلم سے زیادہ طاقت ور جاننا قلم اور صاحب قلم دونوں کے منصب سے بے خبری کا سراغ دیتا ہے۔ مجروح کے شعر کو بھی انہوں نے گو خوبصورت کہا مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ جس نے دل پر چوٹ نہیں کھائی وہ سر پر چوٹ کیسے کھائے گا؟ سر پر چوٹ کھانے کے لئے دل پر چوٹ کھانا ضروری ہے ! ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ : ”اس طرح کے ایک دو نہیں سیکڑوں مقامات پر احتشام حسین نے گرفت کی اور ترقی پسند تحریک کے ارکان کو راہ سے بے راہ ہونے سے بچایا۔“ حقیقت تو یہ ہے کہ نقاد کا کام محض تعریف و تنقید ہی نہیں تبصرے بلکہ ادب اور فن کی اصلیت حسن اور اثر کو بھی آلودگی اور ثبوت کے حوالے سے ہر تصویر کے دو رخ دکھائے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا۔ بد قسمتی سے اردو تنقید میں ”تنقید برائے تنقید“ کا رجحان محض ذاتی شہرت اور فوری پہچان کا کلیہ سمجھا جاتا رہا ہے اور جتنے بڑے نقاد یا ادیب پر جتنی بے سرو پا تنقید کی جائے گی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنی ہی زیادہ ان کو اہمیت حاصل ہوجائے گی۔ ظاہر ہے کہ رویہ اور تصور کسی سنجیدہ بالغ نظر اور صحیح الدماغ شخص کا نہیں ہوسکتا۔ ظہیر صدیقی نے بھی احتشام حسین پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں ان میں خاص اعتراضات یہ ہیں کہ: ”احتشام حسین جب اپنے اصول تنقید وضع کرتے ہیں تو وہ مارکسی نظریات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جب مارکسی نظریات کی باتیں کرتے ہیں تو ان کا اصول دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کون سی مصلحت ہے جس کے تحت وہ اپنے اصول تنقید اور ادب کے تجزیے میں توافق اور توازن نہیں پیدا کر سکے۔“ یہ اعتراض تقریباً ویسا ہی ہے جیسا پروفیسر راجندر ناتھ شیدا اور سلیم احمد نے آگے چل کر کیا۔ گویا اصلی اعتراض یہ ہے کہ مارکسی نظریات تو کچھ اور ہوتے ہیں لیکن احتشام حسین تنقید کرتے وقت صرف مارکسی نظریات ہی نہیں بلکہ دیگر اصول اور نظریات بھی استعمال کرتے ہیں۔ گویا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ بات پہلے واضح کی جاچکی ہے کہ احتشام حسین نے کبھی بھی مارکس کے مکمل نظریات کو کلی طور پرنہیں مانا۔ وہ مطالعاتی اور تاریخی مادیت کے تو قائل تھے مگر انہوں نے جو نظام تنقید اختیار کیا اس کی ترکیب میں دیگر سماجی علوم سے بھی استفادہ شامل کیا۔ یہی تنقید بعد میں سائنٹفک تنقید کہلائی اور احتشام حسین نے نہ صرف اسے اردو ادب میں متعارف کرایا بلکہ اسے کامیابی سے اپنی عملی تنقید میں برتابھی۔جہاں تک رومانیت ، جمالیات اور جنسیت کا تعلق ہے تو مارکس نے ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی ترقی پسند تحریک کے رہنماﺅں نے انہیں رد کیا تھا۔ نہ صرف احتشام حسین بار بار ان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہیں بلکہ ترقی پسند تحریک اور سجاد ظہیر نے بھی ان کی افادیت کو تسلیم کیا۔ تاہم رومانی نظریے جمالیات کو جمالیاتی نظریے اور جنسیت کو فرائڈ کے نظریات کی روشنی میں احتشام حسین نے کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ ان کے عمرانی اور معاشی پہلووں پر زور دیتے تھے۔ ڈاکٹر سید نواب کریم نے تو براہ راست مارکس کے ماننے والوں پر تنقید کرتے ہوئے خود مارکس پر بھی تنقید کی ہے: ”افسوس تو یہ ہے کہ خود مارکس کے تصور حیات کے باریک پہلووں کو مارکس کے نام نہاد پجاریوں نے نہیں سمجھا اور اس کو الٹے سیدھے معنی پہناکر اس کی غلط تعبیریں پیش کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مارکس کی عظمت ایک فلسفی اور اقتصاری مفکر کی حیثیت سے ناقابل تردید ہے لیکن ادب سے متعلق اس کے خیالات کوکوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ وہ نہ ادیب تھا اور نہ ادب کا نقاد۔“ سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر سید نواب کریم کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ وہ مارکس کی تحریروں سے براہ راست واقف نہ تھے۔ انہوں نے جو کچھ ادھر ادھر سے دیکھا اور پڑھا اس کی بنیاد پر انہوں نے درج بالا بات کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مارکس کا بنیادی فلسفہ ہی یہی ہے کہ تمام علوم جن میںادب ،ثقافت، مصوری اور دیگر فنون لطیفہ میں شامل ہیں بلا واسطہ طور پر یا بالواسطہ طور پر معاشی اور عمرانی تغیر ذرائع پیداوار میں تبدیلی یا ذرائع پیداوار پر دست رس رکھنے والوں کے معاشی اور عمرانی حالات میں تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ ان سب کی بنیاد کا اگر کھوج لگایا جائے تو ان کی جڑیں اقتصادی اور سماجی کشمکش میں پیوست نظر آئیں گی۔ یہاں اس نظریے کی وضاحت کا موقع نہیں البتہ اگر مارکس اور ان کے پیرو کار دانشوروں اور انقلابیوں کی تحریروں کا مطالعہ کیا جائے توساری بات واضح ہوجائے گی۔ ڈاکٹر سید نواب کریم نے اگر مارکس اینگلز لینن اسٹالن ماﺅزے تنگ کم ال سنگ ہوچی منہ، چی گویرا، فیڈرل کاسترو گورکی اور لونا چر سکی کا سائنسی مطالعہ کیا ہوتا تو وہ یہ بات کرتے ہوئے ضرور کچھ سوچتے ۔مارکس ماﺅزے تنگ ہوچی منہ چی گویرا تو شاعر بھی تھے۔ اور ماﺅزے تنگ اور ہوچی منہ کی نظموں کا اردو میں بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے۔لینن نے گورکی سے ادب اور ادیبوں کے بارے میں طویل بحثیں کیں۔ لینن ادب و ثقافت کے متعلق نظریات جو مارکس کے نظریات ہی کی تفسیر ہیں۔ کتابی شکل میں بھی موجود ہیں۔ ماﺅزے تنگ اور کم ال سنگ نے ادب و ثقافت ،فنون لطیفہ کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ چی گویرا کی ڈائری تو بہت مشہور ہوئی مگر اس کے علمی و ادبی اور فلسفیانہ مضامین پر بہت کم لوگوں کی نظر پڑی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو علمی زندگی پر بہت کم لوگوں کی نظر پڑی ہے، یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو عملی زندگی میں برتنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان مفکرین کے خطوط میں بھی ان کے ادب فن کے بارے میں نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے تجربات نئے علوم کامیابی اور ناکامی کے مرحلوں نے ان نظریات پر گہرا اثر ڈالا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ بہتر ہوتے گئے لیکن بنیادی طور پر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان سب تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے اگر جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کی روشنی میں دیگر متعلقہ کتب کا مطالعہ کر لیاجائے تو تنقید کرنے میں توازن قائم ہوسکتا ہے اور تنقید برائے تنقید سے بچا جاسکتا ہے۔

فیض: حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا نقیب


از زرقا مفتی
دستِ تہِ سنگ کے کلام میں یاسیت اور کسی حد تک بے بسی کارنگ غالب ہے۔ بیزار فضا، در پئے آزار صباہے یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے وہ تیرگی ہے رہِ بتاں میں چراغِ رخ ہے نہ شمعِ وعدہ کرن کوئی امید کی لاو کہ سب درو بام بجھ گئے مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے یہ عجب قیامتیںہیں تری رہ گزر میں گزراں نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم ، نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی اس مجموعے میںکچھ نظمیں اضطرابی کیفیت کی آئینہ دار ہیں، کہاں جاوگے، پاس رہو، رنگ ہے دل کامرے، شہرِیاراں۔ ایک نظم خوشا ضمانتِ غم اہلِ وطن کی محرومیوں کا نوحہ ہے۔ ہر ایک خانہ ویراں کی تیرگی پہ سلام ہر ایک خاک بسر خانماں خراب کی خیر ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام ہر ایک دیدہ پر نم کی آب و تاب کی خیر فیض صاحب کی شاعری میں دو عشق نظر آتے ہیں ایک روایتی عشق اور ایک وطن سے عشق، اکثر مقامات پر وہ وطن کو ہی محبوب بنا کر مخاطب ہوتے ہیں۔ فیض صاحب اپنے وطن کو طبقاتی تضادات سے پاک دیکھنا چاہتے تھے وہ اشتراکی نظام کے قائل تھے اور زندگی بھر اپنے نظریئے پر قائم رہے اس راہ میں ان پر غداری کے الزامات بھی لگے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اورانہوں نے جلا وطنی بھی اختیار کی۔ جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔میری کوتاہ نظری کا قصور کہئے یا پھر فیض صاحب کے اولین کلام کے سحر کوموردِ الزام ٹھہرائیے سرِ وادی سینا میں مجھے چند نظمیںہی پسند ہیں سرِ وادی سینا کا انتساب عوام اور اس کے دکھوں کے نام ہے نظم کا عنوان ہے۔۔آج کے نام آج کے نام اور آج کے غم کے نام آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا ........ ان اسیروں کے نام جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام وہ جو خوشبو ئے گل کی طرح اپنے پیغام پہ خود فدا ہو گئے ہیں سرِ وادی سینا سے میری دوسری پسندیدہ نظم ہے لہو کا سراغ کہیں نہیں ہے کہیںبھی نہیں ہے لہوکا سراغ نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخی لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں نہ خاک پہ کوئی دھبا نہ بام پہ کوئی داغ کہیں نہیں ہے کہیںبھی نہیں ہے لہوکا سراغ ان کے علاوہ یومِ آزادی پر لکھی گئی ان کی دعا آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں ........ آیئے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی زہرِ امروز میں شیرینی فردا بھر دے وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے ایک غیر معروف سی نظم ہے فرشِ نومیدیِ دیدار جس میں دل میں جلتی بجھتی آرزووں کی بہت خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی میری پسندیدہ نظموں کے علاوہ حذر کرو میرے تن سے ، بلیک آوٹ ، سپاہی کا مرثیہ ، دلدار دیکھنا ، یہاں سے شہر کو دیکھو ایسی نظمیں ہیں جو بار بار پڑھی جا سکتی ہیں۔ شامِ شہرِ یاراں میں بہت سی سحر انگیز نظمیں او ر غزلیات شامل ہیں کچھ تراجم ہیں اور کچھ پنجابی کلام ہے۔ شاید ہم میں سے بہت سے فیض کی پنجابی شاعری سے واقف نہ تھے۔شامِ شہرِ یاراں کی پہلی نظم ہے جس روز قضا آئے گی شاید فیض صاحب نظم لکھتے وقت خود کو عمر کے آخری پڑاومیں محسوس کر رہے تھے۔ اس نظم کا آخری بند نقل کر رہی ہوں کس طرح آئے گی ، جس روز قضا آئے گی شاید اس طرح کہ جس طور کبھی اولِ شب بے طلب پہلے پہل مرحمتِ بوسہ لب جس سے کھلنے لگیں ہر سمت طلسمات کے در اور کہیں دورسے انجان گلابوں کی بہار یک بیک سینہ مہتاب کو تڑپانے لگے ایک اور نظم سے چند سطورملاحظہ کیجئے:: جس راہ چلے جس سمت گئے یوں پاوں لہو لہان ہوئے سب دیکھنے والے کہتے تھے یہ کیسی ریت رچائی ہے یہ مہندی کیوں لگائی ہے وہ کہتے تھے کیوں قحطِ وفا کا ناحق چرچا کرتے ہو پاوں سے لہو کو دھو ڈالو اک حرف کی تلاش میںفیض نے ایک دلنشیں نظم کہی ہے۔ آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی دل نشیں حرف کوئی ، قہر بھرا حرف کوئی حرفِ الفت کوئی دلدار نظر ہو جیسے عمر کے آخری پڑاومیں بھی فیض صاحب درِ امید کے دریوزہ گر بنے رہے ہم کہ ہیں کب سے درِ امید کے در یوزہ گر یہ گھڑی گزری تو دستِ طلب پھیلائیں گے شامِ شہر ِ یاراں کا تذکرہ فیض صاحب کی نظم’بہار آئی‘ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ ’مرے درد کو جو زباں ملے‘،’ اے شام مہرباں ہو‘، ’ہم تو مجبور تھے اس دل سے‘ اور ’ سجاد ظہیر کے نام ‘ اثر انگیز نظمیں ہیں۔اس مجموعے میں کچھ غزلیں بھی شامل ہیںجن میں سے میری پسند کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے تجھے پکارا ہے بے ارادہ جو دل دکھا ہے بہت زیادہ وہ آئے پرسش کو پھر سجائے قبائے رنگیں ادائے سادہ حیراں ہے جبیں آج کدھرسجدہ روا ہے سر پر ہیں خداوند، سرِ عرش خدا ہے یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا تین آوازیں ایک ایسی نظم ہے جس میں مجھے اقبال کی نظموں کا رنگ نظر آیا تاہم یہ نظم حقیقت سے بہت قریب اور تلخ ہے۔ یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے‘ خود احتسابی کی کیفیت میں لکھی ہوئی ایک یادگار نظم ہے۔ دلِ من مسافر خود ساختہ جلاوطنی میں لکھی ہوئی نظم ہے بے حد سادہ اور بے حد پ اثر۔ مرے دل مرے مسافر میں کچھ دلنشیں غزلیں شامل ہیں ان سے کچھ اشعار نقل کررہی ہوںملاحظہ کیجئے: گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب کون کرتا ہے وفا عہدِ وفا آخر شب سہل یوں راہ زندگی کی ہے ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے وہ نشاطِ آہِ سحر گئی وہ وقارِ دستِ دعا گیا فیض صاحب کی آخری نظموں میں ’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘ اور ’عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا ‘ یادگار ہیں موت کی دستک پہچان کر شاید انہوں نے یہ شعر کہا ہوگا اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے اور آ ج شب کوئی نہیں ہے آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی اور مکیں کوئی نہیں ہے آخر میں یہ دو اشعار شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خوان بن کر ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے

ہندی کے کچھ ترقی پسند ادیب بھی اردو کے مخالف

ڈاکٹر علی باقر زیدی

اردو کی مخالفت اگر فرقہ پرستوں کی جانب سے ہوتی ہے تو باعث حیرت نہیں لیکن اگر ان لوگوں کی جانب سے کی جاتی ہے جو خود کو ترقی پسند سیکولر اور ہر طرح کے تعصب (خواہ مذہبی ہو یا لسانی)سے اپنے کو مبرا کہتے ہیں تو نہ صرف حیرت بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بطور مشقے از خردارے، دو واقعات پیش ہیں: ۹۲اکتوبر ۹۰۰۲ءکو لکھنو یونیورسٹی کے مالویہ سبھا گار میں مشہور صحافی آنجہانی اکھلیش مصرا سمرتی راشٹریہ پری سنواد" کی جانب سے بھارت میں راجیہ سماج اور انسانی حقوق کے عنوان کے تحت ایک سیمنار جسٹس حیدر عباس رضا کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس سیمنار میں آنجہانی مصرا کی ادبی سماجی اور صحافتی خدمات کا تعارف ایک صاحب نے کرایا تھا انہوں نے اپنی تقریر میں بڑے وثوق کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ تحریک آزادی میں سب سے اہم خدمات ہندی زبان کی تھیں اور اس کے مقابلے میں دوسری زبانوں کی خدمات بہت کم تھیں۔ مذکورہ حضرت نے یہ غیر مصدقہ بات کس مصلحت سے کہی یہ تو وہی جان سکتے ہیں لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ تحریک آزادی کے دوران اردو زبان نے جو بے مثال خدمات انجام دیں اس سے وہ ناواقف نہیں۔ بہر حال ان کا یہ بیان تاریخی صداقت کے بر عکس ہے اس لئے کہ آزادی کی تحریک کو مہمیز کرنے اور دلوں میں سرفروشی کی تمنا پیدا کرنے میںاردو اخبارات اور ان کے مدیران کے کارنامے اور قربانیاں آج بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر اس زمانے میں دہلی سے ایک معیاری اخبار "دہلی اردو اخبار" نکلتاتھا جس کے مدیر مولوی محمد باقر تھے۔ اس اخبار پر بغاوت کا الزام لگا کر حکومت بر طانیہ نے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی اور اس کے مدیرمولوی محمد باقر جن کی عمر اس وقت ۷۷ برس کی تھی انہیں ۶۱ستمبر ۷۵۸۱ءکو گولی سے اڑا دیا۔ چنانچہ تحریک آزادی کا جو پہلا مجاہد صحافی شہید ہوا وہ اردو اخبار کا مدیر تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اردو کے اخبارات تھے جنہیں تحریک آزادی کی چنگاریوں کو شعلہ بنانے کے جرم میں برٹش حکومت نے ضبط کر لیا اور ان کے مدیران کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مثلاً پنجاب سے ۶۰۹۱ءمیں نکلنے والا سردار اجیت سنگھ وغیرہ کا اخبار "ہندوستان" شانتی نرائن بھٹناگر ، لالہ لاجپت رائے، دینا ناتھ، اور ظفر علی خاں وغیرہ مدیران کا اخبار "سوراجیہ" ان اخبارات کے مدیران کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں بلکہ ان میں سے کچھ کو کالے پانی کی سزا بھی ہوگئی تھی۔ پنجاب سے کئی اور اہم اردو کے اخبارات نکلتے تھے مثلاً منشی محبوب علی خاں کااخبار پیسہ، لالہ بانکے لال کا اخبار جھینگ سیال، اور میرٹھ سے نکلنے والا اخبار "منتخبہ ہند" ۔بیسویں صدی کے آغاز تک آتے آتے ملک کے گوشے گوشے سے اردو کے اخبارات نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ مثلاً مولانا حسرت موہانی کا اخبار، اردوئے معلی، ظفر علی خاں کا اخبار "زمیندار" لاہور سے شائع ہونے والا پہلا سیاسی ماہنامہ آزاد سیدرضا حیدر کا دہلی سے نکلنے والا اخبار جامع العلوم' راجہ رام موہن رائے کا بنگال سے نکلنے والا اخبار "مراة الاخبار" جام جہاں نما دہلی سے سجاد ظہیر کااخبار "عوامی دور" و نیا زمانہ، مولاناابو الکلام آزاد کااخبار "الہلال" و "البلاغ" اور پنڈت جواہر لال نہرو کا لکھنو¿ سے نکلنے والا معیاری اخبار "قومی آواز" ان سب اردو اخبارات کا ایک ہی نصب العین تھا یعنی تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا۔ چنانچہ ان اخبارات کو بھی برٹش حکومت کی پابندیاں جھیلنی پڑیں اور ان کے مدیران کو بھی ظلم و ستم برداشت کرنے پڑے۔ تحریک آزادی میںصرف اردو کے اخبارات اور ان کے مدیران ہی شامل نہیں تھے بلکہ اردو کے شعرا نے بھی بڑھ چڑھ کر عملی طور پر حصہ لیا تھا اور انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی تھیں مثلاً علی سردار جعفری ،رام پرشاد بسمل، مولانا حسرت موہانی، جگر مراد آبادی، اختر شیرانی، احمق پھپھوندوی، درگا سہائے سرور جہان آبادی، گوپی ناتھ امن، محمد علی جوہر، انور صابری، جمیل مظہری، مخدوم محی الدین ،شورش کاشمیری، سکھدیو پرشاد بسمل، وغیرہ ۔ان کے علاوہ بہت سے ایسے شعراءبھی تھے جنہوں نے عملی طور پر تو تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن ان کی انقلابی نظموں نے مجاہدین آزادی کے دلوں میں سرفروشی کا شعلہ جوالہ ضرور پیدا کردیا تھا مثلاً برج نرائن چکبست ،تلوک چند محروم، روش صدیقی، احسان دانش، حفیظ جالندھری، آنند نرائن ملا، ساغر نظامی، غلام ربانی تاباں، اسرار الحق مجاز ،کیفی اعظمی اور راہی معصوم رضا وغیرہ ۔لہٰذا یہ کہنا کہ تحریک آزادی میں ہندی کے مقابلے دوسری زبانوں کی خدمات کم تھیں تاریخی صداقت سے انحراف ہے۔ بر سبیل تذکرہ اب دوسرے واقعے کا بھی حال سنئے: ماہنامہ نیا دور جون ۹۰۹۱ءکے شمارے میں ڈاکٹر قمر رئیس کے سلسلے میں ص ۸۱پر مذکورہ صاحب لکھتے یہں کہ ان کی (ڈاکٹر قمر رئیس)شفقت کا زیادہ تابناک اور کسی حد تک حیران کن پہلو میرے سامنے جب آیا، جب لکھنو¿ میںاختتام پذیر انجمن اور تحریک کی گولڈن جبلی تقریبات میں پیدا شدہ تنازعہ کے بعد ان سے ملنے ان کے گھر گیا۔ اس تنازعہ کاان پر بہت اثر پڑا تھا۔ ایک طرح سے کانفرنس میںصف آرائی کا ماحول تیار ہوگیا تھا میں مخالف صف میں تو نہیں تھا لیکن ان کے ساتھ بھی نہیں تھا۔" تنازعہ کیا تھا؟ اور کانفرنس میں صف آرائی کا ماحول کیوں پیداہوا اس کی وضاحت مذکورہ حضرت نے نہیں کی۔ بات در اصل یہ تھی کہ ۵۸۹۱ءمیں رویندرالیہ میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین کی بین الاقوامی گولڈن جبلی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کانفرنس میں پاس ہونے والے مجوزہ مسودے میں ڈاکٹر قمر رئیس نے یہ تجویز بھی شامل کردی تھی کہ یہ کانفرنس حکومت اتر پردیش سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے بس پھر کیا تھا اک ذرا سی بات پر برسوں کے یا رانے گئے۔ کانفرنس میں ہنگامہ شروع ہوگیا، کچھ لوگ نعرے بازی کرنے لگے اور کچھ کانفرنس کے اجلاس کا بائی کاٹ کرکے باہر نکل آئے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ بزرگ ترقی پسند ادیب کانفرنس کو بدنامی اور ناکامیابی سے بچانے کی کوشش میں بھی لگ گئے چنانچہ علی سردار جعفری ،ملک راج آنند، اور سبط حسن وغیرہ (جس میں کچھ ہندی ادیب بھی شامل تھے)پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں دوسری سرکاری زبان کا لفظ ہٹاکر یہ تجویز پیش کردی کہ یہ کانفرنس حکومت اتر پردیش سے یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اردو زبان و ادب کو فروغ دیا جائے بہر حال کسی طرح کانفرنس کو ناکامیابی سے بچا تو لیاگیا لیکن معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے دن جب ڈاکٹر قمر رئیس اپنی رہائش گاہ سے کانفرنس میں شرکت کے لئے آرہے تھے تو انہیں راستے میں سیاہ جھنڈے دکھائے گئے اور ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس سانحے کے بعد دوسرے دن شام کو بھیشم ساہنی کی صدارت میں چار باغ مسلم مسافر خانہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں رام لعل، ڈاکٹر قمر رئیس، ڈاکٹر سید محمد عقیل رضوی، ڈاکٹر محمود الحسن، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، اور یہ خاکسار (جو اس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنو کا سکریٹری اور رام لعل صدر تھے)شریک تھے۔ بہر حال کافی غور و خوض کے بعد اس قابل مذمت افسوس ناک اور تکلیف دہ حادثے پر بجز کف افسوس ملنے کے اور کچھ کرنا نامناسب بھی نہیں سمجھا گیا اس لئے کہ دیکھا جو میں نے مڑ کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی